Home Forums Siasi Discussion عمران خان فوج، عدلیہ اور آئی ایس آئی کو بھی ٹائیگر فورس بنانا چاہتا ہے، بلاول بھٹو

Viewing 1 post (of 1 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے کوئٹہ میں منعقد جلسے سے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ عمران خان فوج، عدلیہ اور آئی ایس آئی کو بھی ٹائیگر فورس بنانا چاہتا ہے۔
    گوجرانوالہ اور کراچی کے بعد پی ڈی ایم کا تیسرا جلسہ کوئٹہ میں اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے تقاریر میں حکومتی پالیسیوں اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر کڑی تنقید کی۔
    اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو انتخابی مہم کے سلسلے میں گلگت بلتستان میں تھے اور انھوں نے وہاں سے ویڈیو لنک کے ذریعے کوئٹہ جلسے سے خطاب کیا۔
    لندن میں موجود سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے کوئٹہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر سیاسی امور میں مداخلت اور 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا انھیں اپنے کیے کا جواب دینا ہو گا۔
    اپوزیشن رہنماؤں میں سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز، سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اور دیگر رہنماؤں نے بھی اس جلسے میں شرکت کی اور یہاں آنے والے شرکا سے خطاب کیا ہے۔
    پی ڈی ایم کے اس جلسے کے سلسلے میں سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے اور شہر میں دفعہ 144 نافذ رہی جبکہ کچھ وقت کے لیے موبائل سروس بھی معطل رہی۔
    سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے بانی نواز شریف نے کوئٹہ جلسے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے ڈی جی لیفنٹیننٹ جنرل فیض حمید کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے کہا ہے کہ ’انھیں جوابدہ ہونا پڑے گا۔
    ان کا کہنا تھا کہ ’اب ووٹ کی عزت کوئی پامال نہیں کر سکے گا اور کوئی ووٹ کی عزت کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکے گا۔
    انھوں نے کہا کہ یہ جذبہ ’میں نے گوجرانوالہ، کراچی اور اب کوئٹہ میں دیکھا ہے۔
    سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’میرے بہنوں اور بھائیو اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔
    انھوں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کے عوام ایک ہی قافلے کا حصہ بن گئے ہیں۔
    اس دوران انھوں نے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ پر پابندی کی مذمت کی۔
    ان کا کہنا تھا کہ ملک میں لوگ ’آج بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ کوئی پتا نہیں انھیں آسمان کھا گیا یا زمین نکل گئی۔
    انھوں نے کہا کہ دکھی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو دیکھتا ہوں تو دُکھ ہوتا ہے کہ کب تک یہ سب ہوتا رہے گا۔ ’ہماری طاقت اپنوں پر استعمال کی جاتی رہے گی۔
    سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انھیں علم ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کو کس طرح کے مسائل کا سامنا رہا ہے اور اب وہ کن حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔
    انھوں نے موجودہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’مہنگائی کا طوفان آ چکا ہے۔ آٹا، چینی اور روٹی کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔
    انھوں نے کہا کہ ’نان بائی اب یہ احتجاج کر رہے ہیں کہ روٹی کی قیمت 30 روپے کی جائے۔
    نواز شریف نے کہا کہ اشیائے خورد و نوش کے علاوہ ادویات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔
    ان کے مطابق غربت میں اضافے کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو موت کے منھ میں جاتے دیکھتے ہیں مگر انھیں ادویات لے کر نہیں دے سکتے۔
    سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’پورے ملک کو تباہی کے دھانے پر دھکیل دیا گیا ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہم ان حالات کی طرف کیسے پہنچیں ہیں۔
    کیوں 54 روپے سے چینی 110 روپے کی ہو گی۔ کیوں آٹا اتنا مہنگا ہو گیا اور کیوں اتنی زیادہ مہنگائی ہو گئی ہے۔ کیوں ترقی کرتا ہوا پاکستان آگے بڑھتا ہوا پاکستان برباد کر کے رکھ دیا گیا ہے۔
    کیوں کارخانے لگنا بند ہو گئے ہیں، کیوں موٹر وے بننا بند ہو گئے ہیں، کیوں پاکستان دنیا میں تنہا رہ گیا ہے، کیوں انڈیا کو کشمیر ہڑپ کرنے کی جرات ہوئی، کیوں سعودی عرب جیسا ہمارا دوست ہم سے دور ہو گیا ہے۔
    آئین اور قانون مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں آڑے آ گئے ہیں۔
    سابق وزیر اعظم نے کہا کہ بعض لوگوں کو ’نواز شریف کیوں پسند نہیں؟ کیونکہ وہ ڈکٹیشن نہیں لیتا، وہ آپ کا منتخب نمائندہ ہے۔ پھر ایک لاحاصل تفتیش کے بعد فیصلہ ہوا کہ نواز شریف کو نااہل کردو۔
    اسے عمر بھر کے لیے نااہل کردو۔ اس کے بھائی شہباز شریف، اس کی بیٹی مریم نواز اور مسلم لیگ کے ساتھیوں کو جیل بھیج دو۔
    انھوں نے نواز شریف کو نشان عبرت بناتے بناتے ملک کو عبرت کا نشانہ بنا دیا۔
    نواز شریف نے کہا کہ انتخابات سے قبل زبردستی لوگوں کو پی ٹی آئی میں شامل کرایا گیا، پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال دیا اور آر ٹی ایس بند کرکے اپنی مرضی کے نتائج جاری کرنا شروع کردیے اور ایک نااہل اور نالائق شخص کو دھانددلی سے وزیر اعظم کی کرسی پر لا بٹھایا۔
    اس موقع پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ کراچی کے جلسے سے گھبرا کر ’انھوں نے ہوٹل کے کمرے کے دروازے کو توڑا جہاں مریم نواز اور کیپٹن صفدر ٹھہرے ہوئے تھے۔
    نہ روایات نہ قدریں، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ایک طرف اعلیٰ اخلاقی قدروں کی بات کرتے ہیں لیکن اب بھی وہ اس حکومت کا حصہ ہیں۔
    انھوں نے کہا کہ اس سے میرے بیانیے کو مزید تقویت دی کہ ’یہاں ریاست کے اوپر ایک اور ریاست قائم ہو چکی ہے۔
    انھوں نے پوچھا کہ ’سیکٹر کمانڈر کون ہے، وہ کس کے حکم پر ایف آئی آر کٹواتا ہے، وہ کس کے حکم پر آئی جی اور ایڈشنل آئی جی کو اغوا کراتا ہے، جس کی خبر خود وزیر اعلیٰ کو بھی نہیں ہے۔‘
    انھوں نے کہا کہ ’پی ڈی ایم اسی ناانصافی کے خلاف اٹھی ہے۔
    اپنے خطاب کے دوران نواز شریف مزید کہتے ہیں کہ ’پی ڈی ایم پاک فوج کے مقدس ادارے کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے والوں کے خلاف اٹھی ہے۔
    چند لوگ اپنے گھناؤنے مقاصد کے لیے آئین اور قانون توڑتے ہیں اور خود کو بچانے کے لیے نام فوج کا استعمال کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے فوج کا دور دور سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس سے بدنامی کس کی ہوتی ہے؟ فوج کی ہوتی ہے۔
    اسی لیے میں نام لے کر ان کرداروں کو ظاہر کرتا ہوں تاکہ اس کا دھبہ فوج پر نہ لگے، ملک پر یہ داغ نہ لگے۔
    ان کا کہنا تھا کہ ’کارگل میں رسوائی کا فیصلہ فوج کا نہیں تھا، چند مفاد پرست جرنیلوں کا تھا۔
    میرے بہادر سپاہی دُہائیاں دیتے رہے کہ خوراک نہیں تو ان پہاڑیوں پر اسلحہ تو بھجوائیں۔ کارگل آپریشن کے پیچھے وہی کردار تھے جنھوں نے اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لیے 12 اکتوبر کو بغاوت کی اور مارشل لا نافذ کیا۔
    میں ان افسران کو بھی بری الذمہ نہیں قرار دے رہا ہوں جنھوں نہ وزیر اعظم ہاؤس کے دیوار پھلانگی۔ یہ اتنے ہی قصور وار ہیں جتنے آرڈر دینے والے۔ انہی لوگوں نے اکبر بگٹی کو شہید کرایا، انہی لوگوں کو بے نظیر بھٹو نے اپنی شہادت سے چند دن قبل اپنے قتل کا ذمہ دار قرار دیا۔
    نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے 12 مئی کو کراچی میں طاقت کا استعمال کیا۔
    اس کے بدلے پرویز مشریف کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے پڑے ہیں مگر نیب سمیت کی کی ہمت نہیں کہ تحقیقات کرائیں۔
    انھوں نے کہا کہ ’چند کرداروں نے میری حکومت کے خلاف دھرنے دلوائے۔
    اب تمام سوالوں کے جواب قمر جاوید باجوہ کو دینے ہیں، جنرل فیض حمید کو دینا ہیں۔
    جنرل قمر باجوہ آپ کو دھاندلی اور اس حکومت کی تمام ناکامیوں کا حساب دینا ہے۔ اس قوم کو مہنگائی اور غربت کی طرف دھکیلنے کا حساب دینا ہے۔
    جنرل فیض حمید آپ کو جواب دینا ہے کہ کیوں آپ نے ایک حاضر جواب جج کے گھر جا کر دباؤ ڈالا۔ کیوں اسے وقت سے پہلے اسے چیف جسٹس بننے کا کہا۔ کیوں آپ نے نواز شریف اور مریم نواز کو الیکشن تک جیل میں رکھنے کا کہا۔ آپ کی کون سی دو سال کی محنت ضائع ہو رہی تھی۔
    ان کا کہنا تھا کہ ’آپ نے تو آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا تھا۔ آپ نے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا حلف اٹھایا تھا پھر کیوں آپ نے ایسا کیا۔
    کیا آپ فیض آباد دھرنے کے ذمہ دار نہیں۔ سپریم کورٹ نے آپ کے خلاف کیا فیصلہ دیا۔ اس کے باوجود آپ کو لیفٹیننٹ جنرل کے عظیم الشان عہدے پر ترقی ملی اور آئی ایس آئی کے چیف بنے۔
    آپ نے بے دھڑک سیاست میں مداخلت کی۔ اگر یہی توانائی آپ نے اپنے کام پر خرچ کی ہوتی تو ہمارے کشمیری بھائی اس مشکل میں ہی نہ ہوتے جو وہ آج ہیں۔
    سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’عمران خان ہمارا مقابلہ تمھارے ساتھ نہیں ہے۔ ہمارا مقابلہ تمھیں لانے والوں سے ہے۔ تمھیں ثاقب نثار کا این آر او نہیں بچا سکے گا۔
    یہ پرویز مشرف اور چند ساتھی تھے جنھوں نے فوج کا نام استعمال کیا بلکہ بدنام کیا۔
    نواز شریف نے اپنے خطاب میں بتایا کہ ’میرے فوجی بھائیوں آئین کی تابعداری کا حلف سب سے اہم ہے۔ جہاں آئین شکنی شروع ہوتی ہے وہاں ظلم شروع ہو جاتا ہے۔ اپنے حلف کی پاسداری کیجیئے۔ اپنے آپ کو متنازع ہونے سے بچائیں۔
    سول سرونٹ کے نام میرا پیغام ہے کہ جس طرح سندھ کے پولیس افسران نے غیر قانونی احکامات کو ماننے سے انکار کیا، اسی طرح میں سب سول سرونٹس کو گزارش کرتا ہوں کہ کسی دباؤ میں آئے بغیر اپنا فریضہ انجام دینا چاہیے۔
    ان کا کہنا تھا کہ ’میرا پیغام عوام کے نام ہے۔ میرے بہنوں اور بھائیو یہ فوج آپ کی ہے، اسے عزت دی جائے۔
    مگر جہاں معاملہ آئین کی پاسداری کا آجائے تو پھر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ کوئی فوج اپنے عوام سے نہیں لڑ سکتی۔
    انھوں نے کہا کہ عوام آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی پرسمجھوتہ نہ کرے۔
    پراُمن احتجاج آپ کاحق ہے۔ حکومت سازی آپ کاحق ہے جوآپ کے حق کوچھینے وہ آپ کا حال اورمستقبل آپ سے چھین رہاہوتا ہے۔ وہ آمرہے، غاصب ہے، آئین شکن ہے۔ مٹھی بھرافراد کواپنی آنے والی نسلوں کی تقدیرکے ساتھ کھلواڑ کرنے کی اجازت نہ دیں۔
    بلاول بھٹو، جو گلگت بلتستان سے ویڈیو لنک کے ذریعے کوئٹہ جلسے میں خطاب کر رہے تھے، نے کہا کہ میں شگر کے پہاڑوں سے آپ سے مخاطب ہوں۔
    انھوں نے کہا کہ گوجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ کے بڑے جلسے کر کے آپ نے پوری دنیا کو بتا دیا ہے کہ عوام ایک طرف اور سیلیکٹڈ ایک طرف ہے۔
    جو یہ کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم ٹوٹ جائے، ان کے لیے میرا واضح پیغام ہے کہ پیپلز پارٹی کبھی کسی اتحاد سے پیچھے نہیں ہٹی ہے۔ ہم آگے دو قدم بڑھ سکتے ہیں مگر پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔
    انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ بہادر عوام ہیں اور اپنے حقوق لینا جانتے ہیں۔ ’اپنے حقوق حاصل کرنے لیے اس صوبے نے خون دیا ہے خون۔
    انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کا سر کٹ سکتا ہے مگر وہ کسی کے سامنے جھک نہیں سکتے۔
    عوام اب آزادی چاہتی ہے۔ عوام اپنے وسائل کی آزادی چاہتے ہیں، بے روزگاری سے آزادی چاہتے ہیں، سوچنے کی آزادی چاہتے ہیں۔ یہ کس قسم کی آزادی ہے۔ جہاں نہ عوام آزاد، نہ سیاست، نہ صحافت آزاد نہ ہماری عدلیہ آزاد۔
    وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت سب جمہوری قوتیں ایک ا سٹیج اور ایک پیج پر ہیں۔ اب سب کو اس پیج پر آنا پڑے گا ورنہ اس سب کو گھر جانا پڑے گا۔
    مشرف کے آمرانہ دور کے بعد جب صدر زرداری صدر بنے تو حقوق دیے گئے۔ مشرف اس ملک کے شہریوں کو اغوا کر کے دوسرے ملک کو بیچے۔ یہ جو غداری کا فتوی بانٹتا تھا وہ یہ سب کرتا تھا۔ وہ اب سرٹیفائیڈ قاتل اور غدار بن چکا ہے۔
    بلاول بھٹو نے اکبر بگٹی اور اپنی ماں اور سابق وزیر اعظم بے نطیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار بھی پرویز مشرف کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ’قاتلوں کا سہولت کار بنا۔
    انھوں نے کہا کہ ’ہم نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو ان کا حق دیا ہے۔ ہم نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے خود مختاری کا وعدہ پورا کیا۔
    انھوں نے کہا کہ آغاز حقوق بلوچستان ایک تاریخی قدم تھا۔ ’ہم نے اپنے دور میں انسانی حقوق سے متعلق قانون سازی کی ہے۔
    سی پیک سے متعلق جو بڑی مشکل سے چار سال تک سی پیک کے لیے محنت کی۔ اس سے متعلق بہت مذاکرات ہوئے۔ یہ انقلابی منصوبہ ہے۔ آج جو سی پیک، سی پیک کہتے ہیں، اس کو گیم چینجر کہتے ہیں ان کو بلوچستان کو ترجیح دینا ہو گی۔
    بلاول نے کہا کہ ’اگر سی پیک کا فائدہ بلوچستان کو نہ پہنچایا گیا تو اس سے نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ عمران خان نے تو آپ کو کوئی منصوبہ نہیں دیا ہے۔ وہ تو راتوں رات ایک آرڈیننس نکالتا ہے اور سندھ اور بلوچسان کے جزائر پر قبضہ کر لیتا ہے۔
    بلاول بھٹو نے کہا کہ ’یہ تباہی ہے تباہی، تبدیلی نہیں،تاریخ میں سب سے زیادہ مہنگائی، بے روزگاری۔۔ یہ ہے عمران خان اور ان کے سہولت کاروں کی تبدیلی۔
    انھوں نے کہا کہ اس سیلیکٹڈ حکومت کا بوجھ عام آدمی اٹھا رہا ہے۔ یہ مارتے بھی ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے۔
    عوام غائب ہوتے ہیں اور عوام کو اغوا کیا جاتا ہے۔ اس پر میڈیا، عدلیہ اور نہ پارلیمان کچھ کر سکتا ہے۔ ان کے والدین سالہا سال دربدر پھر رہے ہیں مگر ریاست کچھ نہیں کر رہی ہے۔
    اگر یہ ظلم چلتا رہتا ہے تو میرا نہیں خیال کہ یہ ملک اس ظلم کو برداشت کر سکے گا اور یہ ملک چل سکے گا۔ لاپتہ افراد کے ایشو کو ہمیشہ کے لیے ختم ہونا ہو گا تاکہ ہم اپنے آپ کو ایک جمہوری ملک کہلا سکیں۔
    وہی آدمی جو نیب کا سربراہ ہے، جن کے نیب کی قید میں زیادہ لوگ فوت ہو چکے ہیں، گوانتاناموبے سے بھی زیادہ لوگ اس کی قید میں فوت ہوئے۔ وہ لاپتہ افراد کو انصاف دے گا۔ وہ آدمی جو آصف زرداری اور نواز شریف کو گرفتار کر کے ان کی بیٹیوں کو تکلیف پہنچاتا ہے کیا وہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرا سکتا ہے۔
    ہم امید رکھتے ہیں کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ جس کی طرف پوری عوام انصاف کے لیے دیکھ رہی ہے وہ بھی اس کو سنجیدہ لے گی اور انصاف دلائیں گے۔
    اسی عدلیہ نے خواجہ سعد رفیق کیس میں نیب کو سیاسی انتقام کا ادارہ قرار دیا، غیر آئینی ادارہ قرار دیا۔
    چیئرمین پیپلز پارٹی نے مزید کہا کہ ’سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ وہ نیب کے مقدمات کو روزانہ سنا جائے۔ جو سپریم کورٹ یہ حکم دے سکتی ہے وہ سپریم کورٹ روزانہ کی بنیاد پر لاپتہ افراد کے مقدمات کو بھی روزانہ کی بنیاد پر سنے گا، وہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی کیس کو روزانہ کے بنیاد پر سنے گا۔
    انھوں نے کہا ’ماضی میں ہماری عدلیہ نے آمروں کا ساتھ دیا، آمریت کا ساتھ دیا۔ اب ہمیں امید ہے کہ آج کی عدلیہ جمہوریت اور انصاف کا ساتھ دے گی۔
    عمران خان کی یہ کوشش ہے کہ وہ اس ملک کے ہر ادارے کو اپنی ٹائیگر فورس میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے جیالے عمران خان کو ادارے تباہ نہیں کرنے دیں گے، ان اداروں کو ٹائیگر فورس نہیں بننے دیں گے۔
    سندھ پولیس کو بھی ٹائیگر فورس بنانے کی کوشش کی، میں سلام پیش کرتا ہوں سندھ پولیس کو جنھوں نے انکار کر دیا۔
    عمران خان آئی ایس آئی کو بھی ٹائیگر فورس بنانا چاہتا ہے، ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ یہ تو ہماری فوج کو بھی ٹائیگر فورس میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ یہ عدلیہ کو بھی اپنا ساتھ ملانے کی بات کر رہا تھا یہ اسے بھی ٹائیگر فورس بنانا چاہتا ہے۔
    یہ پاکستان کے عوام کے ادارے ہیں، یہ ان کی ٹائیگر فورس نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان اداروں کو ہم تباہ نہیں ہونے دیں گے۔
    محسن داوڑ پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے انھوں نے پوچھا کہ کیا اب دوسرے صوبے میں داخل ہونے کے لیے بھی ویزا لینا ہو گا۔
    اپنے خطاب کے آغاز میں مولانا فضل الرحمان نے فرانس اور ڈنمارک کی دیواروں پر پیغمبر اسلام کے خاکے چسپاں کرنے کے خلاف مذمتی قرارداد پیش کی۔ کراچی میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے ساتھ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’اخلاقی دیوالیہ پن‘ قرار دیا۔
    محسن داوڑ کا نام لیے بغیر انھوں نے کہا کہ ’ایک مہمان کو ایئر پورٹ پر روکا گیا جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔
    مولانا فضل الرحمان نے کہا نام نہاد کابینہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک ریفرنس جعلی صدر کو بھیجا۔ کئی سماعتوں کے بعد اس ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا۔ انھوں نے کہا اب حکومت کے پاس اخلاقی جواز نہیں رہا ہے۔ انھوں نے کہا آپ کس بنیاد پر وزیر اعظم اور صدارت کی کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
    پی ڈی ایم کا مؤقف درست ہے ثابت ہوا کہ یہ حکمران جعلی تھے اور جعلی ہیں۔ ان کے مطابق ان حکمرانوں کے خلاف تحریک اب اور زور پکڑے گی۔
    انھوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہونے دیں گے۔ انھوں نے سندھ کے جزائر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان پر وفاقی حکومت کو کنٹرول حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
    انھوں نے کہا کہ آج ہم نے چین اور سعودی عرب جیسے دوستوں کو ناراض کیا ہے۔ ان کے مطابق جب تم چیخ رہے تھے تو اس وقت پاکستان کے اکاؤنٹس میں تین ارب ڈالر رکھے۔
    مولانا کا کہنا تھا کہ اب افغانستان بھی آپ کی بات سن رہا ہے۔ انھوں نے کہا حکومت کی خارجہ پالیسی ہے ہی کوئی نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان میں شعور ہے ہی نہیں کہ خارجہ پالیسی کسے کہتے ہیں۔
    ان کے مطابق ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد کشمیر پر ہے۔
    مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ نہ صرف عمران خان نے کشمر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فارمولا دیا بلکہ دعا مانگی کہ خدا کرے کہ ہندوستان میں مودی جی کی حکومت آئے اور پھر جب انھوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی تو پھر یہ گھر خاموش بیٹھے رہے سب ہوتا دیکھتے رہے۔
    انھوں نے کہا کہ یہ کشمیر فروش ہیں۔
    ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کو آزادانہ صوبہ بنانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک حصے پر انڈیا اور دوسرے حصے پر انڈیا قابض ہے تو اس سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔
    آج جو حشر پشاور بی آر ٹی کا ہوا ہے وہ حال پورے پاکستان کا ہے۔
    مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم اداروں کے دشمن نہیں ہیں۔ اداروں کا احترام کرتے ہیں، ادارے ملک کے لیے ضروری ہیں۔ ہم اداروں کے سربراہان کی عزت کرتے ہیں۔ مگر جب وہ مارشل لا لگاتے ہیں اور من پسند حکومت کی پشت پناہی کرتے ہیں تو پھر ان سے شکوہ کرنا ہمارا حق بنتا ہے۔
    انھوں نے کہا کہ آج بھی اگر اسٹیبلشمنٹ اس حکومت کی پشت پناہی سے باز آجائے اور کہے کہ انھوں نے ان کو اقتدار میں لا کر غلطی کی تو پھر ان کی عزت ہو گی۔
    یہ ریاست مدینہ نہیں ہے بلکہ کوفہ ہے۔
    مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ این آر او اب تمھاری ضرورت ہو گی۔ کہتا ہے کہ ایک سال میں ایک کروڑ نوکریاں دوں گا۔ ان کے مطابق یہ تو 1947 سے لے کر آج تک نہیں ہوا۔ اب یہ کہتا ہے کہ بھنگ پیو، چرس پیو۔
    میں آپ کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا اور میں آپ کا انکار کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا میں نے پہلے دن سے اس حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور آج بھی اپنے موقف پر قائم ہوں۔
    یہ حکومت اب لوگوں کو بے روزگار کر رہی ہے۔ ریڈیو پاکستان اور پی آئی اے سے ملازمین کو نکالا گیا اور متعدد محکموں کے لوگ اسلام آباد کے ڈی چوک کا رخ کرتے اور چیخ و پکار کرتے نظر آتے ہیں۔‘
    انھوں نے لاپتہ افراد کے بارے میں بات کرتے ہوئے انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس معاملے میں مداخلت کا کہا ہے۔
    انھوں نے ہیلری کلنٹن کے ایک حالیہ دنوں کے انٹرویو کے بارے میں کہا کہ انھوں نے بھی وضاحت کی کہ ڈیپ سٹیٹ ایک ایسی ریاست کو کہتے ہیں کہ جہاں ایجنسیوں کی لائی ہوئی حکومت ہو اور لوگوں کو لاپتہ کیا جائے مگر کوئی پوچھنے والا نہ ہو اور اس کے بعد انھوں نے کہا کہ جیسا کہ پاکستان۔
    مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اب یہ سفر جاری ہے اور جاری رہے گا۔
    انھوں نے عوام کو باہر نکلنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ گھر بیٹھے آزادی نہیں ملا کرتی، اس کے لیے باہر نکلنا پڑتا ہے۔
    ان کے مطابق میرے نزدیک فوج کی حیثیت ایسی ہے جیسے آنکھوں کی پلکیں۔ یہ سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں اور یہ صرف سرحدوں پر ہی ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق جب ان پلکوں کا کوئی بال آنکھ میں آ جائے تو درد ہوتا ہے اور پھر اس بال کو نکالنا پڑتا ہے۔
    انھوں نے کہا کہ ہمارا مذاق مت اڑاوں اور ہماری وفاداریوں کو شک کی نگاہ سے نہ دیکھو۔
    مریم نواز نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’بلوچستان کے کچھ طلبہ جن کو پنجاب کی یونیورسٹیوں میں سکالرشپ دیے انھوں نے میرا شکریہ ادا کیا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے جتنے پنجاب کے طلبہ عزیز ہیں اتنے ہی بلوچستان کے طلبا عزیز ہیں۔
    وہ بچے بارہ دن سے سڑکوں پر رل رہے تھے مگر کسی کو ان پر کوئی رحم نہ آیا۔ امید کرتی ہوں کے ان کے سکالرشپ بحال ہوں گے۔
    مجھ سے کسی صحافی نے ہوٹل میں مجھ سے یہ سوال پوچھا کہ آپ نے جو بلوچی لباس پہنا ہے اس سے آپ کیا پیغام دینا چاہتی ہیں تو میرا جواب تھا کہ جتنی محبت مجھے پنجاب کے لوگوں سے ہی اس سے بھی زیادہ محبت بلوچستان کے لوگوں سے ہے۔
    مریم نواز نے لاپتہ افراد کے بارے میں بات کی اور اس طرح ’جبری گمشدگیوں‘ کی مذمت کی۔
    انھوں نے کہا ’آج ہی مجھے ایک لڑکی حسیبہ کامرانی نے بتایا کہ ان کے تین جوان بھائیوں کو گھروں سے اٹھا لیا گیا اور تین سال ہو گئے ہیں کہ ان کا کچھ پتا نہیں ہے۔ اس نے اپنے موبائل فون میں ان تین بھائیوں کا سہارا تھا۔
    مجھے آپ نے جیل میں ڈالا تو میری آنکھوں میں آنسو نہیں آیا، میری ماں مر گئی میری آنکھوں میں آنسو نہیں آئے، میرے باپ کو آپ نے دو بار جیل میں ڈالا، میری آنکھوں میں آنسو نہیں آئے مگر آج جب حسیبہ نے اپنے بھائیوں کی تصاویر دکھائیں تو میری آنکھوں میں آنسو آئے۔
    مریم نواز کا کہنا ہے کہ ’راتوں رات باپ کے نام سے ایک پارٹی بنائی گئی، اس پارٹی نے ایک بچے کو جنم دیا اور اگلے ہی دن اسے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا۔
    ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ سالوں پہلے انسانیت سوز واقع یاد آ گیا۔
    انھوں نے کہا کہ ’ہوٹل میں میرے کمرے کا دروازہ توڑا گیا۔‘ انھوں نے بلوچستان کے لوگوں سے پوچھا کہ ’کیا ایسی روایات ہیں کہ ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے؟
    انھوں نے اکبر بگٹی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے شیم شیم کے نعرے بھی لگوائے۔
    جب پرویز مشرف کو عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تو وہ عدالت ہی ختم کر دی گئی۔
    اس کے بعد پھر انھوں نے شیم شیم کے نعرے لگوائے۔
    مریم نواز نے کہا ’مجھے آج قائد اعظم کو وہ الفاظ یاد آگئے کہ پالیسیاں بنانا آپ کا کام نہیں ہے۔ یہ عوامی نمائندوں کا کام ہے یہ کام انھیں ہی کرنے دیں۔ انھوں نے پوچھا کہ ’کیا سیاست میں مداخلت بند ہوئی، کیا آئین کا احترام کیا گیا، کیا عوامی نمائندوں کا حکم مانا گیا؟
    قائد اعظم کی روح بھی دیکھ رہی ہے کہ ان کی تلقین کو مٹی میں ملا دیا گیا۔
    مریم نے کسی شخصیت یا ادارے کا نام لیے بغیر کہا کہ ’اپنے حلف کی پاسداری کرو، سیاست سے دور ہو جاؤ، عوام کے نمائندوں کو حکمرانی کرنے دو، عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکے مت ڈالو، حکومت کے اوپر حکومت مت بناؤ۔
    انھوں نے کہا حاکم کے گریبان پر آپ کا نہیں کسی اور کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ’وہ آپ کو نہیں کسی اور کو جوابدہ ہوتا ہے۔ اسے ہٹانے اور بٹھانے کا اختیار آپ کے پاس نہیں کسی اور کے پاس ہوتا ہے۔
    میں آپ کو اور کوئٹہ کے عوام کو مبارکباد پیش کرنا چاہتی ہوں، مجھے آج قاضی محمد عیسیٰ کی یاد آتی ہے جو قائد اعظم کا قریبی ساتھی تھا۔ آج اس کا قابل فخر بیٹا قاضی فیض عیسیٰ سپریم کورٹ کا جج ہے۔
    انھوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے کہ یہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ ججز کے خلاف اس سازش کے بعد عمران خان اور ان کی حکومت کو استعفی دینا چائیے۔
    جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی انصاف دیجئے۔ جو سچ بولنے کی پاداش میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ تمھاری دو سال کی نہیں تمھاری 72 سال کی محنت ضائع ہونے کی ہے۔
    اب عوام کی حاکمیت کا سورج طلوع ہونے کو ہے۔
    مسلم لیگ نواز کی نائب صدر کا کہنا تھا کہ ’مجھے الف لیلیٰ کے ایک اور کردار کا نام یاد آ رہا ہے۔ اس کا نام ہے عاصم سلیم باجوہ، جو یہاں کا بادشاہ رہا ہے۔ وہ یہاں ووٹ کی عزت دو سے کھیلتا رہا ہے۔ وہ یہاں بھی سیاسی کرتب دکھاتا رہا ہے۔ وہ بھی ماں اور باپ کے نام سے سیاسی پارٹیاں بناتا رہا ہے۔
    نوکری پیشہ ہونے کے باوجود آپ کے پاس اربوں کھربوں کے اثاثے کہاں سے آئے تو وہ چپ۔ ہم پوچھتے ہیں کہ یہ پیزا کیا ہے تو وہ چپ، ہم پوچھتے ہیں کہ یہ نناویں کمپنیاں کہاں سے آئیں تو وہ چپ، ہم پوچھتے ہیں کہ آپ نے ایس ای سی پی کے ریکارڈ میں جو جعل سازی کرائی تو ہو چپ۔
    عاصم سلیم اب ایسا نہیں چلے گا۔ رسیدیں تو دکھانی ہوں گی۔ چیئرمین سی پیک کے عہدے سے بھی استعفی دو کیونکہ اربوں کھربوں کے منصوبے کا کام آپ جیسے داغدار شخص کے حوالے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اب یہاں غداری کے سرٹیفیکٹ نہیں بٹیں گے۔
    اب یہاں سے گمشدگیاں نہیں ہوں گی۔ ہیلی کاپٹر سے آپریشن نہیں ہوں گے۔ کسی کو ووٹ کی عزت سے کھیلنے کا حوصلہ نہیں ہو گا۔
    اس سے پہلے اپوزیشن کا یہ 11 جماعتی اتحاد گجرانوالہ اور کراچی میں بھی جلسے منعقد کر چکی ہے۔
    بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب اس ملک کے قانون بنائے جارہے تھے اور ہم سے معاہدات کیے جا رہے تھے تو اس وقت یہ نہیں کہا گیا تھا کہ بلوچوں کی تاریخ خون سے لکھی جائے گی بلکہ یہ کہا گیا تھا کہ آپ کو برابری اور عزت سے پیش آیا جائے گا۔
    انھوں نے حاضرین جلسہ سے پوچھا کہ کیا آپ کو برابری اور عزت مل رہی ہے۔ کیا ان سڑکوں پر آپ کے لیے کوئی برابری کا سلوک کیا جا رہا ہے۔
    اختر مینگل نے کہا کہ یہاں اب آپ کو اجتماعی قبریں ملیں گی۔ انھوں نے کوئٹہ پریس کلب کے باہر لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کے کیمپ اور ان کی کراچی اور اسلام آباد کی طرف پیدل احتجاجی مارچ کا بھی ذکر کیا۔
    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس داخل کر دیے گئے۔ بھائی ریفرنس کس نے دائر کیا؟ خود کل کی سپریم کورٹ کی ججمنٹ نے اعتراف کیا کہ وہ ریفرنس غلط تھا۔ انھوں نے کہا کہ یہ ریفرنس داخل کرنے والوں کو بھی تو کوئی سزا ملنی چائیے یا یہ کہ وہ آپ کو نظر نہیں آ رہے ہیں۔ انھوں نے پھر کہا کہ میں آپ کو اس کے بارے میں بتاتا ہوں جو ایوان صدر میں ہر حکومت کا منشی بن کر بیٹھا ہے۔
    ہم نے پاکستان کا قانون نہیں توڑا مگر ان لاپتہ افراد کو آپ دس دس سالوں تک عقوبت خانوں میں رکھا۔
    ان کے مطابق لاپتہ افراد کی بیگمات ہم سے آ کر پوچھتی ہیں کہ کم از کم یہ تو معلوم ہو جائے کہ ہم بیوہ ہیں یا نہیں؟
    ان بچوں کا غائب کرنا والا کون ہے؟ بلوچستان میں پانچواں فوجی آپریشن کرنے والا کون ہے؟ اس کے بعد سردار اختر مینگل نے کہا کہ ’سیاست میں مداخلت بھی ہم ہی کرتے ہیں ناں، ڈبے ہم بھرتے ہیں۔
    ان کے بقول اس صوبے میں راتوں رات پارٹیاں بن جاتی ہیں۔ اب ایک پارٹی بنی جس کا نام باپ ہے۔ پہلے انھوں نے اس پارٹی کا نام پاپ (پاکستان عوامی پارٹی) رکھا تھا پھر کسی نے کہا کہ اس کا مطلب گنا ہے تو پھر باپ کے نام سے یہ گنا ہمارے ذمہ لگا دیا۔
    انھوں نے کہا کہ ہم سرحدوں کی حفاظت بھی ہم ہی کریں گے اور سیاست کی طرح اس میدان میں بھی تمھاری طرح ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ ہم اس سرزمین اور اس مٹی کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور انشاللہ اسی سرزمین میں ہم دفن ہوں گے اور اسی میں مریں گے۔
    انھوں نے کہا کہ یہ جو باپ کے بٹیر آپ نے پال رکھے ہیں یہ ہمارے شیروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے بھائی۔ یہ پھونک سے ہی اڑ جائیں گے۔
    انھوں نے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو کوئٹہ ایئرپورٹ پر روکے جانے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ وہ دوسرے صوبوں میں بات کرسکتے ہیں مگر کوئٹہ میں خطاب نہیں کر سکتے۔ اس طرح آپ ثابت کر رہے ہیں کہ یہاں اب بھی نو آبادیاتی طرز حکومت جاری ہے۔
    انھوں نے مطالبہ کیا کہ آئندہ آنے والی حکومتیں بلوچستان کے لوگوں کو برابری دی جائے گی، انھیں دیگر پاکستان کے رہنے والوں کی طرح عزت دی جائے گی اور یہاں سے نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ کرنا ہو گا۔
    اس سے قبل جمعیت علما پاکستان کے سیکریٹری جنرل شاہ اویس نورانی نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم کا مقصد عوام کو حقِ حکمرانی دلوانا ہے۔ انھوں نے پاکستان میں جاری احتساب کے عمل کے بارے میں بات کرتے ہویے کہا کہ اگر احتساب کرنا ہو تو بانی پاکستان کی ایمبولینس میں پیٹرول ختم ہونے کے مبینہ واقعے سے شروع کیا جائے ورنہ احتساب کے تمام عمل کو وہ مسترد کرتے ہیں۔ شاہ اویس نورانی نے مزید کہا کہ آنے والا سال الیکشن کا سال ہوگا۔
    جلسے سے خطاب میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افتخار حسین نے کہا کہ پی ڈی ایم کا احتجاجی جلسہ پرامن ہے۔
    ان کا کہنا تھا کہ ہم جو قراردادیں پیش کر رہے ہیں میڈیا سے گزارش کروں گا کہ آپ اس کو رپورٹ کریں۔
    واضح رہے کہ جب 11 اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے اس جلسے کے دوران مقامی میڈیا نے ایک وفاقی وزیر مراد سعید کی پریس کانفرنس دکھانا شروع کردی تھی، جس میں انھوں نے اپوزیشن رہنماؤں پر چوری اور کرپشن جیسے الزامات لگائے۔
    عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افتخار حسین نے پی ڈی ایم جلسے سے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ جلسہ موجودہ حکومت کے خلاف ایک ریفرنڈم ہے۔
    امن و امان کی مخدوش صورتحال کو دیکھتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ پورے ملک اور بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنایا جائے۔
    انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں اے این پی کے اغوا ہونے والے صوبائی ترجمان اسد خان اچکزئی کی فوری بازیابی کو یقینی بنایا جائے۔
    انھوں نے سندھ اور بلوچستان کے جزیرے کا اختیار وفاق سے دوبارہ صوبائی حکومتوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔
    میاں افتخار حسین نے عوام کو انصاف فراہم کرنے کا عہد کرنے اور اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی کے خلاف ہر سازش کو ناکام بنانے پر پی ڈی ایم کے اتفاق کا اظہار کیا۔
    ان کا کہنا تھا کہ موجودہ انتقامی احتساب کو ختم کیا جائے اسے غیر جانبدار ہونا چاہیے۔
    انھوں نے صدر، وزیراعظم کے فی الفور مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔
    قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے جلسے سے خطاب میں کہا کہ بلوچستان کے عوام نے ثابت کیا ہے کہ وہ پی ڈی ایم کے حق میں فیصلہ دے چکے ہیں۔
    ان کا کہنا تھا کہ ڈھائی سالوں نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ واقعی ’سلیکٹڈ‘ ہیں۔ انھوں نے ملک کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ حقیقت عوام کے سامنے عیاں ہے۔
    انھوں نے کہا کہ ’حکومت اب اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی کے درپے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ صوبے زیادہ با اختیار ہوں۔ ان کے مطابق یہ وسائل پسماندہ علاقوں میں خرچ کیے جائیں۔
    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی بحال کرنا چاہتے ہیں اور آئندہ دنوں مزید جلسے ہوں گے۔
    خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے جلسے سے خطاب میں لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مل کر بلوچستان کا مقدمہ لڑنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے سندھ کا بھی مقدمہ لڑنا ہے۔ مریم نواز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم نے پنجاب اور پورے پاکستان سے اٹھنے والی آوازوں کا بھی مقدمہ لڑنا ہے۔
    خیال رہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو اس جلسے میں مدعو کیا گیا تھا تاہم حکام کی جانب سے انھیں ایم پی او کے تحت کوئٹہ داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔
    وہ گذشتہ روز کوئٹہ ائیر پورٹ پر پہنچے تھے جہاں سے انھیں پولیس اور ضلعی انتطامیہ نے ضلع ڈیرہ مراد جمالی کے گیسٹ ہاؤس منتقل کیا اور اب انھیں براستہ سکھر اسلام آباد منتقل کیا جا رہا ہے۔
    مریم نواز بھی گذشتہ روز کوئٹہ پہنچی تھیں۔ انھوں نے شہر میں کارکنان سے خطاب بھی کیا اور کوئٹہ کے ایک نجی ہوٹل میں صحافیوں سے گفتگو بھی کی۔
    پی ڈی ایم کی جانب سے پہلے جب یہ اعلان کیا گیا کہ سات اکتوبر کو پہلا جلسہ عام کوئٹہ میں ہوگا تو بلوچستان حکومت کی جانب سے یہ کہا گیا کہ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں ان جماعتوں کو عوام کی حمایت حاصل نہیں اس لیے انھوں نے سب سے پہلے کوئٹہ کا انتخاب کیا۔
    تاہم جب بعد میں پی ڈی ایم نے جلسوں کی شیڈول میں تبدیلی کی اور کوئٹہ کے جلسہ عام کو گوجرانوالہ اور کراچی کے بعد تیسرے نمبر پر رکھا گیا تو سکیورٹی خدشات کا جواز پیش کر کے بلوچستان حکومت نے کوئٹہ کے جلسہ عام کو ملتوی اور منسوخ کرنے کی درخواست کی۔
    پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کا جلسہ عام شیڈول کے مطابق کوئٹہ میں بھرپور انداز سے منعقد ہونے جارہا ہے۔ میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تھریٹ الرٹس کے نام سے حکومت کی جانب سے کوئٹہ میں جلسہ عام کو ناکام بنانے کے لیے ایک پروپیگینڈا شروع کیا گیا ہے۔
    حکام کی جانب سے اس سے قبل سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر جلسہ ملتوی کرنے کا کہا گیا تھا۔

    https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54680038

Viewing 1 post (of 1 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi