Home › Forums › Siasi Discussion › عاصم باجوہ: معاونِ خصوصی کا عہدہ چھوڑنے کی درخواست وزیراعظم نے منظور کر لی
- This topic has 0 replies, 1 voice, and was last updated 2 years, 7 months ago by
حسن داور. This post has been viewed 146 times
-
AuthorPosts
-
13 Oct, 2020 at 4:38 am #1
وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات اور چیئرمین سی پیک اتھارٹی عاصم سلیم باجوہ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ان کی معاونِ خصوصی کے عہدے سے استعفیٰ کی درخواست منظور کر لی ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ’میں نے وزیر اعظم پاکستان سے معاون خصوصی برائے اطلاعات کے اضافی عہدے سے دستبرداری کی درخواست کی تھی، جو انھوں نے منظور کر لی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ نے گذشتہ ماہ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اپنا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا تھا تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کے سربراہ کے طور پر کام کرتے رہیں گے۔
تاہم مستعفی ہونے کے اعلان کے اگلے ہی روز وزیر اعظم آفس سے جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز میں آگاہ کیا گیا کہ وزیر اعظم نے عاصم باجوہ کا استعفیٰ قبول نہیں کیا اور انھیں کام جاری رکھنے کو کہا ہے۔
اس وقت وزیر اعظم آفس سے جاری ہونے والے بیان میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ’وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ عاصم سلیم باجوہ کی جانب سے جو ثبوت اور وضاحت پیش کی گئی ہے وہ اس سے مطمئن ہیں لہٰذا وزیر اعظم نے انھیں بطور معاون خصوصی کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
عاصم باجودہ نے گذشتہ ماہ ان کے خاندان سے کاروبار سے متعلق صحافی احمد نورانی کی خبر کے چند دن بعد ہی وزیر اعظم کو اپنا استعفی پیش کر دیا تھا تاہم انھوں نے اس کی وجوہات ذاتی مصروفیات بتائی تھیں۔
عاصم باجوہ نے ستمبر میں متعدد ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں بھی سوالات کے جوابات دیے تھے اور اس دن ہی انھوں نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی پر وفاقی کابینہ سے مستعفی ہونے سے متعلق بھی بتا دیا تھا۔
تاہم اگلے دن وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم عاصم سلیم باجوہ کی طرف سے دی گئی وضاحت سے مطمئن ہیں۔
عاصم سلیم باجوہ نے احمد نورانی کی خبر پر تفصیلی وضاحتی بیان جاری کرنے کے بعد وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات کا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا تھا
عاصم باجوہ نے اپنے استعفے کی خود تصدیق کی
پیر کو عاصم سلیم باجودہ نے اپنے استعفے کی تصدیق خود کی ہے۔ ابھی تک ان کے استعفے سے متعلق وزیر اعظم ہاؤس یا وزارت اطلاعات کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
عاصم باجوہ نے اس بار یہ وضاحت نہیں کی کہ کیا انھوں نے وزیر اعظم عمران خان کو وفاقی کابینہ سے مستعفی ہونے سے متعلق دوبارہ درخواست دی تھی یا پھر وزیر اعظم نے ان کی پہلی درخواست پر ہی از سر نو غور کیا ہے۔
یاد رہے کہ صحافی احمد نورانی کی خبر سامنے آنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، مسلم لیگ (ن) کی مرکزی نائب صدر مریم نواز، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے مطالبہ سامنے آیا تھا کہ عاصم باجوہ اور عمران خان کی جانب سے اس حوالے سے جواب دیا جانا چاہیے۔
حال ہی میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس اور پھر بعد میں اپنی پارٹی کے اجلاس میں لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے عاصم سلیم باجوہ کے معاملے پر نیب سمیت عدالتوں کی خاموشی پر سخت تنقید کی تھی۔ انھوں نے موقف اختیار کیا کہ عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں پر احتساب کا نعرہ لگانے والی حکومت نے خاموشی اختیار کر لی ہے۔
نواز شریف، مریم نواز اور بلاول بھٹو کی طرف سے عاصم سلیم باجوہ پر تنقید کے بعد سوشل میڈیا پر ان سے ان کے اثاثوں کی رسیدیں دینے جیسے مطالبات کے ٹرینڈ بھی سامنے آئے۔
ٹوئٹر پر جاری کردہ چار صفحوں پر مشتمل بیان میں عاصم سلیم باجودہ نے کہا تھا کہ ان پر الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ انھوں نے بتاریخ 22 جون ٢٠٢٠ کو وفاقی حکومت میں بطور وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی جو اثاثوں کی تفصیلات جمع کروائی ہیں وہ غلط ہیں کیونکہ اس میں انھوں نے بیرونِ ملک اپنی اہلیہ کی سرمایہ کاری کا تذکرہ نہیں کیا ہے اور یہ کہ ان کے بھائیوں کے امریکہ میں کاروبار کی ترقی کا تعلق پاکستانی فوج میں ان کی ترقی سے ہے، جبکہ ان کے بھائیوں اور بچوں کی کمپنیوں، کاروباروں اور جائیدادوں کا بے محل تذکرہ کر کے ان کی قیمت اور ملکیت کے بارے بے دریغ الزامات لگائے گئے ہیں۔
عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ ان پر یہ الزام درست نہیں کہ انھوں نے اپنی اہلیہ کے کاروبار کی تفصیلات بطور مشیرِ اطلاعات جاری کیے گئے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے اثاثوں کی تفصیلات 22 جون 2020 کو ظاہر کیں لیکن ان کی اہلیہ چند ہفتے قبل ان کے بھائیوں کے غیرملکی کاروبار سے الگ ہو چکی تھیں اور انھوں نے اپنی سرمایہ کاری یکم جون 2020 کو نکال لی تھی یوں اثاثے ظاہر کرنے کے دن وہ ان کمپنیوں میں سرمایہ کار یا حصص کی مالکہ نہیں تھیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی اہلیہ کی کاروبار سے علیحدگی کا ذکر امریکہ میں دستاویزات میں باضابطہ طور پر موجود ہے۔
واضح رہے کہ جولائی میں جاری کیے گئے اثاثہ جات کی فہرست میں عاصم باجوہ نے اپنی اہلیہ کے نام پر ‘خاندانی کاروبار’ میں صرف 31 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری ظاہر کی اور اس حلف نامے کے آخر میں تصدیق کی کہ ‘میری، اور میری بیوی کی اثاثہ جات کی فہرست نہ صرف مکمل اور درست ہے بلکہ میں نے کوئی چیز نہیں چھپائی۔
عاصم باجوہ نے مزید کہا کہ سنہ 2002 سے لے کر یکم جون 2020 تک یعنی اٹھارہ سال کے عرصے میں ان کی اہلیہ نے امریکہ میں اُن کے بھائیوں کے کاروبار میں کُل ١٩ ہزار ٤٩٢ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ سرمایہ کاری ان (عاصم باجوہ) کی بچت کردہ رقم سے کی گئی اور ان سب کا حساب موجود ہے، اور اس سرمایہ کاری میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے قواعد و ضوابط کی ‘ایک مرتبہ بھی’ خلاف ورزی نہیں کی گئی۔
سابق فوجی جنرل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ صحافی احمد نورانی کی خبر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ باجکو گلوبل مینیجمنٹ درحقیقت باجکو سے منسلک تمام کاروباروں کی سرپرست کمپنی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ‘حقیقت سے پرے’ ہے کیونکہ باجکو گلوبل مینیجمنٹ کسی کمپنی کی سرپرست نہی بلکہ صرف ایک مینیجمنٹ کمپنی ہے جو باجکو سے منسلک تمام کاروبار کو فیس کے بدلے مینیجمنٹ کی خدمات’ فراہم کرتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ خبر لکھنے والے نے ‘جھوٹا دعویٰ’ کیا ہے کہ باجکو 99 کمپنیوں کی مالک ہے جبکہ فہرست میں کئی کمپنیوں کو ‘متعدد بار’ گنا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت امریکہ میں 27 اور متحدہ عرب امارات میں دو فعال کمپنیاں ہیں۔ -
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.