Thread:
سانحہ بلدیہ ٹاؤن
Home › Forums › Siasi Discussion › سانحہ بلدیہ ٹاؤن
- This topic has 8 replies, 6 voices, and was last updated 2 years, 6 months ago by
Ghost Protocol. This post has been viewed 499 times
-
AuthorPosts
-
22 Sep, 2020 at 4:26 pm #1https://jang.com.pk/news/823385
کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے رحمٰن بھولا اور زبیر چریا کو سزائے موت سنادی۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کراچی میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی سماعت ہوئی جس میں رؤف صدیقی، ادیب خانم، علی حسن قادری اور عبدالستار کو عدم شواہد کی وجہ سے بری کر دیا گیا، باقی 4 ملزمان کو سہولت کاری پر عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کا مرکزی ملزم حماد صدیقی مفرور ہے۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے 2 ستمبر کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، کیس میں ملزمان زبیر چریا اور عبدالرحمٰن عرف بھولا کے خلاف 400 عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ بھی کیے گئے ہیں۔
سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں استغاثہ کی جانب سے دیئے گئے بیان کے مطابق 11ستمبر 2012ء کو سائٹ ایریا میں واقع علی انٹر پرائزیز میں آگ لگائی گئی تھی جس کے نتیجے میں فیکٹری میں آگ لگنے سے 263 افراد جاں بحق ہوگئے تھے، 8 سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک 23 لاشوں کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔
کیس میں اب تک 186 مرتبہ سماعت ہوچکی ہیں جبکہ کر کیس میں استغاثہ کی جانب سے 400 گواہ پیش کیے جا چکے ہیں ۔
دوسری جانب فیکٹری مالکان نے دبئی سے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا جس میں فیکٹری مالکان کی جانب سے ایم کیو ایم کی جانب سے 25 کروڑ روپے بھتہ طلب کرنے کی تصدیق کی گئی تھی۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق اس کیس میں سزا پانے والے ملزم رحمٰن بھولا کو انٹر پول کے ذریعے بنکاک سے گرفتار کیا گیا تھا، رحمان بھولا کو 2016 میں ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیررزم ونگ نے گرفتار کروایا تھا ۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق رحمٰن بھولا گرفتاری سے قبل ملیشیا میں رہ رہا تھا، رحمٰن بولا گرفتاری کے وقت بنکاک سے ساؤتھ افریقا فرار ہورہا تھا، ملزم کی اطلاع ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیررزم ونگ نے انٹرپول نے دی تھی۔
ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ انٹرپول نے اس اطلاع پر کارروائی کر کے ہوٹل سے رحمٰن بھولا کو گرفتار کیا گیا تھا، گرفتاری کے تین دن بعد رحمٰن بولا کو کراچی منتقل کیا تھا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں کیس کے سماعت کے دوران ملزم رحمٰن بھولا نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔
واضح رہے کہ 11 ستمبر 2012ء کراچی کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، اس دن بلدیہ ٹاؤن میں واقع ڈینم فیکٹری جل کر خاکستر ہو گئی تھی، بھڑکتے شعلوں نے روزی کمانے کی غرض سے گھروں سے نکلنے والے سیکڑوں ملازمین کو زد میں لے لیا تھا۔
ملازمین فیکٹری میں اپنے اپنے کام میں مصروف تھے کہ دن دیہاڑے ظالموں نے فیکٹری کو آگ لگادی، آگ پھیلنے سے فیکٹری میں بھگدڑ مچ گئی۔
اس واقعے میں 259 افراد جھلس کر اور دم گھٹنے سے جاں بحق ہوئے تھے جبکہ تقریباً 50 افراد زخمی ہوئے تھے، بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آتش زدگی کے واقعے کو 8 برس ہو چکے ہیں۔
- local_florist 1
- local_florist Aamir Siddique thanked this post
22 Sep, 2020 at 4:32 pm #2کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں ایک فیکٹری علی انٹرپرائزز میں آگ لگانے کے الزام میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سابق رکن اسمبلی اور اس وقت کے وزیر صنعت و تجارت رؤف صدیقی، ایم کیو ایم کے سابق سیکٹر انچارج عبدالرحمٰن عرف بھولا، زبیر عرف چریا اور ان کی مدد کرنے والے 4 گیٹ کیپرز، شاہ رخ، فضل احمد، ارشد محمود اور علی محمد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
تفتیش کاروں نے فیکٹری میں آگ لگانے کے لیے منصوبے کے مطابق ملزمان کو دی گئی ذمہ داریوں کا تعین کیا تھا، جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔روف صدیقی
جب بلدیہ فیکٹری جل کر راکھ ہوگئی تھی اس وقت متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما رؤف صدیقی صوبائی وزیر صنعت و تجارت تھے۔
عبدالرحمٰن عرف بھولا
ایم کیو ایم کے سیکٹر انچارج عبدالرحمٰن عرف بھولا نے اپنے سیکٹر کے دفتر سے زبیر عرف چریا اور دیگر ملزمان کو کیمیکل (میگنیشیم میٹل) فراہم کیا جہاں تمام ملزمان جمع ہوگئے تھے۔
عبدالرحمٰن عرف بھولا نے ملزمان کو فیکٹری کے گیٹ تک پہنچایا۔
فیکٹری میں آگ لگنے کے بعد اس وقت کے ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی حنیف شیخ اور عبدالرحمٰن عرف بھولا فیکٹری کے باہر موجود تھے۔
ایم کیو ایم نے امدادی کیمپ لگائے، فائر بریگیڈ کے تین اہلکار زخمی ہوئے تھے جنہیں درحقیقت ایم کیو ایم کے کارکنوں نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور آگ سے کوئی فائر فائٹر متاثر نہیں ہوا تھا۔محمد زیبر عرف چریا
محمد زبیر عرف چریا ایم کیو ایم کا متحرک کارکن تھا اور ان کے پاس علی انٹرپرائزز سے ایم کیو ایم کے معاملات کی ذمہ داری تھی اور اسی لیے انہیں مالکان کی جانب سے ملازمت دی گئی تھی۔
محمد زبیر عرف چریا کا بچپن کا دوست ماجد بیگ تھا، جو اصغر بیگ کا بھائی تھا، عبدالرحمٰن عرف بھولا سے قبل اصغر بیگ بلدیہ سیکٹر کا انچارج تھا اور ماجد اکثر زبیر عرف چریا سے ملنے آیا کرتا تھا۔
بلدیہ فیکٹر کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے مطابق ملزم رضوان قریشی نے کہا کہ اصغر بیگ سے 25 کروڑ روپے بھتہ لینے کی ہدایت کی گئی اور 20 کروڑ یا شراکت داری پر معاملات طے پا گئے۔
اصغر بیگ نے فیکٹری مالکان سے ہمدردی جتاتے ہوئے مزید رقم کا مطالبہ نہیں کیا اور اسی لیے ایم کیو ایم کی قیادت نے عبدالرحمٰن عرف بھولا کو نیا سیکٹر انچارج مقرر کردیا۔
اصغر بیگ نے فیکٹری مالکان اور عبدالرحمٰن بھولا کی ملاقات حماد صدیقی سے کروائی اور پوچھا کہ ان سے بھتہ کیوں طلب کیا گیا، ملاقات کے دوران فیکٹری مالکان سے تعاون پر حماد صدیقی اور اصغر بیگ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
زبیر عرف چریا فیکٹری میں پیش آئے حادثے کے روز ہی 6 سے 7 لڑکوں کو فیکٹری لے کر آیا، جو پہلے واش روم میں چرس پی کر باہر آئے، بعد ازاں پہلی اور دوسری منزل میں قائم کینٹین میں بیٹھ گئے، جس کے بعد انہوں نے کیمیکل پھینکا جس کے نتیجے میں آگ لگ گئی، ملزمان نے گیٹ کا دروزاہ بند کردیا تاکہ مزدور باہر نہ نکل سکیں۔
زبیر عرف چریا کو رینجرز نے 90 روز کی حراست میں رکھا اور قتل کے متعدد کیسز میں ملوث ہونے کی وجہ سے انہیں سائٹ بی پولیس کے حوالے کردیا کیونکہ پولیس زبیر عرف چریا کو بلدیہ فیکٹری کے معاملے پر گرفتار کرنے سے ہچکچا رہی تھی۔
انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) ٹو نے بلدیہ فیکٹری کیس میں زیبر عرف چریا کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تو وہ پہلے سے ہی سینٹرل جیل کراچی میں قتل کے دیگر مقدمات کے الزام میں قید تھے۔فیکٹری مالکان
فیکٹری مالکان ارشد بھائیلا اور شاہد بھائیلا نے 2013 کے بعد ایم کیو ایم سے معاملات طے کرنے کی خواہش ظاہر کی اور حیدر آباد میں موجود کاروباری دوست علی حسن قادری سے رابطہ کیا جو بظاہر انیس قائم خانی کے فرنٹ مین تھے۔
انیس قائم خانی اس وقت سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال کی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کے بانی رکن اور سینئر رہنما ہیں۔حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے کاروباری افراد
حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے کاروباری افراد عمر حسن قادری، علی حسن قادری، ڈاکٹر عبدالستار خان اور اقبال ادیب خانم نے بھی فیکٹری مالکان سے پیسے وصول کیے۔
ان کاروباری افراد نے فیکٹری مالکان سے بظاہر متاثرین کو معاوضہ ادا کرنے کے لیے 5 کروڑ 98 لاکھ روپے بینک کے ذریعے وصول کیے جو جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو فی کس تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے دو لاکھ جبکہ زخمیوں کو فی کس 50 ہزار بنتی تھی۔علاج کے لیے کینیڈا روانہ
علی حسن قادری کو عدالت نے اشتہاری قرار دیا اور وہ علاج کی غرض سے کینیڈا چلے گئے تھے اور بعد ازاں وہی سکونت اختیار کرلی اور واپس کبھی نہیں آئے۔
عدالت نے انہیں مفرور مجرم قرار دیتے ہوئے گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے تھے۔٧٠ سالہ خاتون اقبال ادیب خانم
اقبال ادیب خانم 70 سالہ خاتون ہیں جو معذوری کے باعث وہیل چیئر پر ہیں اور عدالت نے صحت کے باعث انہیں پیشی سے استثنیٰ دے دیا۔
تاہم حیدرآباد کی کاروباری شخصیت نے فیکٹری مالکان سے بظاہر متاثرین کو معاوضہ ادا کرنے کے لیے حاصل کی گئی رقم سے لطیف آباد حیدرآباد میں ایک ہزار مربع گز کا رہائشی پلاٹ خریدا۔
کیس سے منسلک تفتیشی افسر ایس ایس پی ساجد سدوزئی نے بعد ازاں حیدر آباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو خط لکھا اور پلاٹ سے متعلق مزید ٹرانزیکشن روکنے کی درخواست کی۔حماد صدیقی
مصطفیٰ کمال نے کہا تھا کہ حماد صدیقی فرزند کراچی ہیں اور اگر ان کے خلاف کوئی جرم ثابت ہوتا ہے کہ مجھے (مصطفیٰ کمال) پھانسی پر چڑھایا جائے۔
سابق سٹی ناظم کراچی کا یہ بیان ٹی وی چینلوں اور میڈیا کے ریکارڈ میں موجود ہے۔22 Sep, 2020 at 5:22 pm #4یہ سب فوج کروا رہی ہے الطاف بھائی کو بدنام کرنے کے لئے ، فیکٹری میں آگ لگی ہی نہیں ، سب جھوٹی خبریں ، الطاف بھائی تو رحمٰن بھولا سے بھی زیادہ بھولے ہیں22 Sep, 2020 at 5:27 pm #5یہ سب فوج کروا رہی ہے الطاف بھائی کو بدنام کرنے کے لئے ، فیکٹری میں آگ لگی ہی نہیں ، سب جھوٹی خبریں ، الطاف بھائی تو رحمٰن بھولا سے بھی زیادہ بھولے ہیںAnother word against Fauj and I will inform and Call Bawa Ji!
- mood 1
- mood Aamir Siddique react this post
22 Sep, 2020 at 10:34 pm #6ابھی تو انسداد دہشت گردی سے سزا ہوئی ہے ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ والی کہانی چلے گی – یہاں تک پہنچےکے لئے آٹھ سال لگےکیس چلتے چلتے یا تو سب بری ہو جائیں گے یا اپنی طبعی زندگی جی لیں گے
افسوس سے کہنا پڑتا ہے ، ہمارا عدالتی نظام چیونٹی کی رفتار کو بھی شرما دیتا ہے
- thumb_up 1
- thumb_up نادان liked this post
23 Sep, 2020 at 1:04 am #8ابھی تو انسداد دہشت گردی سے سزا ہوئی ہے ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ والی کہانی چلے گی – یہاں تک پہنچےکے لئے آٹھ سال لگے کیس چلتے چلتے یا تو سب بری ہو جائیں گے یا اپنی طبعی زندگی جی لیں گے افسوس سے کہنا پڑتا ہے ، ہمارا عدالتی نظام چیونٹی کی رفتار کو بھی شرما دیتا ہےThere is a world famous Maxim
JUSTICE DELAYED IS JUSTICE DENIED
There is no doubt that when these judges were studying law for their qualifications they were introduced with this quotation and the case law is sprinkled with this quotation.
How can you expect any improvement when the Chief Justices whose job it is more interested in checking the schools, colleges Universities and running Dam Campaign but not getting their own house in order.
23 Sep, 2020 at 7:07 am #9اسامہ بن لادن کی تلاش میں جب امریکی افغانستان کا چپہ چپہ چھان رہے تھے تو ایسے میں انکے ہاتھ اسکے غار میں سے ایک ایسی ویڈیو ہاتھ لگی جسمیں وہ اشاروں سے جہازوں کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرانے کا تذکرہ کررہا تھا اس وقت امریکی اور دیگر میڈیا اس ویڈیو کو بہت بڑے ثبوت کے طور پر پیش کررہا تھا کہ آخرکار وہ ثبوت مل ہی گیا جسکی تلاش تھی ایسے میں ایک تجزیہ کار کی راے میں نے سنی کہ اس ویڈیو کی کویی حیثیت نہیں ہے کیوں کہ جن لوگوں کو یقین تھا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ اسامہ نے کروایا ہے انکو کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے جبکہ جن لوگوں کو یقین ہے کہ اس حملہ میں اسامہ کا ہاتھ نہیں ہے انکو آپ ایسی ویڈیو دکھادیں جسمیں اسامہ خود جہاز چلا کر ٹریڈ سنٹر میں گھس گیا ہو تو وہ پھر بھی یقین نہیں کریں گے
بلدیہ فیکٹری کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے -
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.