Home Forums Non Siasi ازدواجی تعلق

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 47 total)
  • Author
    Posts
  • JMP
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #1

    کچھ دن قبل ملالہ صاحبہ کا ایک مبینہ بیان یا راۓ کے حوالے سے کافی چرچے تھے گو اب کوئی اور موضوع اس قوم کی توجہ حاصل کر چکا ہے

    غالباً ملالہ صاحبہ نے شادی یا شادی کے بغیر ازدواجی رشتوں کے حوالے سے اپنی راۓ دی تھی یا کوئی سوال اٹھایا تھے یا اپنی والدہ محترمہ سے ہوئی گفتگو کی بات کی تھی

    مذہب اور ہماری نسل در نسل کے مشرقی اقدار کو اگر ایک لمحہ کے لئے ہٹا دیں گو ایسا کرنا بہت ہی مشکل ہے کیا ایک مرد اور عورت کے درمیان شادی کے بغیر کسی قسم کے ساتھ رہنے یا کسی قسم کے جسمانی تعلق میں کوئی قباحت ہے ؟

    میں منافق ہوں لہٰذا میری راے اپنے لئے اور دوسروں کے لئے مختلف ہونی چاہیے اور گو کہ میری مشرقی اقدار اور میرے مشرقی معاشرے کی تربیت اور تمام زندگی گزرانے کی وجہ سے جہاں مرد کو خواتین کے مقابلے میں فوقیت حاصل ہے میرے لئے اس بات کو کہنا بہت مشکل بنا دیتے ہیں پھر بھی میرے خیال میں ہر انسان کو حق حاصل ہے کے وہ اپنی مرضی سے کسی سے جسمانی رشتہ قائم رکھے شادی یا شادی کے بغیر .

    • This topic was modified 1 year, 11 months ago by JMP.
    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #2
    انسان مرد ہو یا عورت اس کی فطرت میں آزادی ہے … کبی بھی دو مرد اور عورت کسی رشتے میں لمبے عرصے کے لئے قید نہیں ہو سکتے . جہاں ہوتے ہیں وہاں ان کو زبردستی کیا جاتا ہے .. یہ شادی سے جو سیکس کا نظام مختلف کلچروں میں چل رہا ہے یہ بہت پرانا ہو گیا ہے – اس میں عورت اور مرد کے ساتھ ہر طرح کی زیادتی ہوتی ہے …. اس لئے اس نظام کو بدل کر ایک آزادانہ نظام لانا ہو گیا … جس میں قانون تقاضوں کے مطابق دو مرد عورت اپنی مرضی سے جنسی تعلق رکھ سکیں اور جب چاہیں ختم کر سکتے ہیں اس کے لئے ان کو کسی مولوی ، مذھب ، کلچر کی اجازت نہ لینی پڑے
    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    جے بھای ہم مسلمان شادی سے مراد نکاح کو لیتے ہیں جس کیلئے کاغذ پر دستخط کرنے کی کوی شرعی روک موجود نہیں ہے۔ شادی دراصل ایک قسم کا اعلان سمجھا جاتا ہے کہ یہ دو افراد آپس میں باہمی رضامندی سے شادی کرنے جارہے ہیں شائد اس اعلان کا مقصد بھی یہ ہو کہ اب کوی دوسرا شخص اس عورت سے نکاح کا پیغام مت بھیجے معاشرے میں رہتے ہوے اسطرح کی رسومات بھی ہوتی ہیں کہ جس لڑکی کی منگنی کسی سے ہوجاتی ہے وہ اس کی طرف سے بھیجا گیا کڑا پہن لیتی ہے یعنی کوی دوسرا پھر پیغام بھیجے تو اس کو برا سمجھا جاتا ہے اول تو کوی ایسا کرتا ہی نہیں ۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ شادی ایک قسم ا اعلان ہی ہے۔ صدیوں پہلے کاغذ نہیں تھا تو کیا نکاح نہیں ہوتے تھے ؟

    اصل رشتہ ازدواج جو اسلام میں بتایا گیا ہے وہ نکاح ہے۔ اس کے علاوہ اہل کتاب سے بھی شادی جائز ہے حتی کہ  یہ بھی پابندی نہیں کہ نکاح اسلامی طریقے سے ہی ہو۔ میرے بہت سارے دوستوں نے مجھ سے پوچھا ہے کہ انہوں نے ایک گوری کے ساتھ شادی رجسٹرڈ کروای ہے مگر دونوں علیحدہ رہتے ہیں تو میں نے انہیں بتایا کہ چاہے عدالت میں ہی شادی ہوی ہے مگر یہ شادی ہے تم لوگ میاں بیوی ہو اکٹھے رہ سکتے ہو ۔ ہوسکتا ہے میں غلط ہوں مگر شادی تو کسی جنگل میں جہاں صرف دو افراد ہوں ان کے مابین بھی ہوجاتی ہے۔ شادی اسلامی طریق پر ہو یا عیسای یا یہودی طریقے پر وہ جائز ہے بس دو گواہوں کی موجودگی ضروری ہے کیونکہ اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہندووں میں پھیرے لینا بھی شادی ہی گنا جاے گا کیونکہ انکے ہاں یہی طریق رائج ہے حتی کہ کوی انڈونیشیا یا برازیل کے کسی قبیلے کی لڑکی سے انکے انداز میں عجیب و غریب رسومات سے گزر کر شادی کرتا ہے تو بھی اسے شادی ہی کہا جاے گا

    ملالہ نے دراصل ان سب طریقوں سے ہٹ کر بات کردی ہے یعنی وہ شادی کی قائل ہی نہیں اور اس کے خیال میں دو لوگوں کو ساتھ رہنے کیلئے کسی واسطے کی ضرورت نہیں اگر وہ کہے کہ اعلان ہی کافی ہے سائین کرنے ضروری نہیں تو پھر وہ درست ہے کیونکہ کسی کاغذ پر سائین نہ بھی کئے جاییں تو نکاح ہوجاتا ہے شادی ہوجاتی ہے

    آخر پر اس کا نچوڑ یہی نکلتا ہے کہ شادی ایک واحد معاملہ ہے جس کا مذہب سے کوی تعلق نہیں رکھا گیا تاکہ شادیاں کرنے کے خواہاں لوگوں کو مشکلات پیش نہ آئیں مقصد یہ کہ نسل انسانی چلتی رہے اور جب انکے درمیان  دو گواہان کی موجودگی میں کوی زبانی یا تحریری معاہدہ (شادی یا نکاح) ہو تو وہ اس کی پاسداری کریں

    • This reply was modified 1 year, 11 months ago by Believer12.
    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #4
    پہلے ھر معاشرے میں شادی کا رواج ہوا کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔

    پھر یہ ہوا کہ ۔۔۔ یورپ ۔۔۔ امریکہ ۔۔۔ کے گوروں نے ۔۔۔ شادی۔۔۔ کو ترک کرکے ۔۔۔۔ گرل فرینڈ بوائے ۔۔ ریلشن ۔۔۔ کا رواج کرلیا ۔۔۔

    اس کے بعد ۔۔۔ پوری دنیا میں  ۔۔۔ گرل فرینڈ ۔۔ بوائے فرینڈ ۔۔۔ ریلشن ۔۔۔ بڑھتے چلے گئے ۔۔۔۔ اب  پا کستان اور بھارت

    جیسے دیسی معاشروں میں بھی ۔۔۔۔ گرل فرینڈ بوائے فرینڈ ۔۔۔ کلچر ۔۔۔ بہت عام ہوگیا ہے ۔۔۔۔

    ھر لڑکی کے پاس بوائے فرینڈ ہوتے ہیں ۔۔۔ اور ھر لڑکے کے پاس ۔۔۔۔ گرل فرینڈز ہوتی ہیں ۔۔۔۔

    مغربی اور دیسی ملکوں ۔۔۔ شا دی کے بغیر سیکس ۔۔۔ زیادہ ہوتا جارھا ہے ۔۔۔۔ اور خوب ہورھا ہے ۔۔۔۔ ۔۔

    شادی ۔۔۔ ریلشن شپ ۔۔۔ سیکس ۔۔۔ معمالات میں ۔۔۔ٹیکنا لوجی ۔۔۔ اور میڈیا نے بھی قابل زکر ۔۔۔ کردار ادا کیا ہے ۔۔۔۔

    فیشن  اور میڈیا ۔۔۔ نے لڑکیوں عورتوں کو سیکس کے حوالے کافی بے باک بنا دیا ہے ۔۔۔۔

    میڈیا ۔۔۔ شاپبنگ مالز ۔۔۔۔ ٹک ٹاک ۔۔۔ یوٹیوب ۔۔۔۔ شوبز ۔۔۔ ھر جگہ ۔۔۔ مردوں کو یہ سہولت ہوگئی ہے کہ ۔۔۔۔

    لڑکیوں عورتوں  کے جسم کے سارےاعضاء ۔۔۔ کٹس ۔۔۔ مفت میں دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔

    پہلے مرد ۔۔۔ پیسے خرچ کر ۔۔۔ وی سی آر  ۔۔۔ لاتے تھے ۔۔۔ اب فری  میں ۔۔۔ ٹک ٹاپ ۔۔۔  پر دیکھ لیتے ہیں ۔۔۔۔

    دیسی ۔۔۔ مغربی معاشروں میں ۔۔۔۔ ڈیٹنگ ۔۔۔۔ سیکس ۔۔۔۔ پہلے بہت بڑھ گئی ہے ۔۔۔۔

    دوسرے یہ بھی ہوا ہے کہ ۔۔۔ دنیا میں ۔۔۔ لڑکیوں عورتوں کی تعداد بھی  تیزی سے زیادہ ہورھی ہے ۔۔۔

    جس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ۔۔۔۔ مردوں کو پہلے کی نسبت اب لڑکیاں عورتیں ۔۔۔ بغیر شادی کے ہی ۔۔۔۔ فرینڈ شپ میں ہی مل جاتی ہیں ۔۔۔

    ان تمام عوامل سے معاشروں پر یہ اثر پڑا ہے کہ ۔۔۔۔۔ شادی کا رواج کم ہوگیا ہے اور مفت سیکس کا رواج بڑھ گیا ہے ۔۔۔۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    میرا زاتی خیال ہے ۔۔۔ دنیا میں جس طرح ۔۔۔ لڑکیوں عورتوں کی بے باکی بڑھ رھی ہے ۔۔۔۔

    مسقتبل میں ۔۔۔ لڑکیوں کی فروانی ۔۔۔۔ اور زیادہ ہوجائے گی ۔۔۔۔ اور ۔۔ مردوں کو یہ فائدہ ہوگا ۔۔۔

    جو ں جون وقت گزرے گا ۔۔۔ لڑکی اور عورت ۔۔۔ اتنی سستی ۔۔۔ ہوتی چلی جائے گی ۔۔۔۔

    مردوں کو شادی کے علاوہ بھی ۔۔۔۔ سیکس کے مواقع بڑھ جائیں گے ۔۔۔۔

    اس حساب مردوں ۔۔۔ کے لئے مسقتبل قریب میں سکیس کی سہولت بڑھنے والی ہے ۔۔۔۔

    چند سالوں کی بات ہے ۔۔۔۔ لڑکیاں اور عورتیں ۔۔۔۔ مفت کے برابر سستی مل جا یا کریں گی ۔۔۔۔

    ملا لہ نے سیکس کے حوالے جو باتیں کی ہیں وہ ٹھیک ہیں ۔۔۔ یہ دنیا ۔۔۔ فری سیکس کی طرف تیزی سے جارھی ہے ۔۔۔

    لڑکیوں عورتوں کے کپڑے ۔۔۔ تقریباً ۔۔۔ تقریباً ۔۔۔ا تر ہی گئے ہیں ۔۔۔ جسم  عیاں ہوچکے ہیں ۔۔۔ ۔

    اسی طریقے سے  بہت جلد ۔۔۔ جسم ۔۔۔ مفت  دستیاب بھی ہونے لگیں گے ۔۔۔۔

    لا لہ ٹھیک کہتی ہے ۔۔۔ اور یہ بھی درست ہے کہ  ۔۔۔ سیکس کے جو جلوے ۔۔۔ ٹک ٹاپ۔۔۔۔ پر عروج پا رھے ہیں  ۔۔۔

    وہ گلیوں اور سڑکوں ۔۔۔ میں  ۔۔۔ لائیو  ۔۔۔۔ کتنے ھفتون مہینوں میں دستیاب ہونگے ۔۔۔۔۔۔

    جب لڑکیاں عورتیں ۔۔۔ مفت برابر مل جایا کریں ۔۔۔ پھر کون کرے گا شا دیاں ۔۔۔۔

    ۔۔۔  ۔

    • This reply was modified 1 year, 11 months ago by Guilty.
    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #5
    انسان مرد ہو یا عورت اس کی فطرت میں آزادی ہے … کبی بھی دو مرد اور عورت کسی رشتے میں لمبے عرصے کے لئے قید نہیں ہو سکتے . جہاں ہوتے ہیں وہاں ان کو زبردستی کیا جاتا ہے .. یہ شادی سے جو سیکس کا نظام مختلف کلچروں میں چل رہا ہے یہ بہت پرانا ہو گیا ہے – اس میں عورت اور مرد کے ساتھ ہر طرح کی زیادتی ہوتی ہے …. اس لئے اس نظام کو بدل کر ایک آزادانہ نظام لانا ہو گیا … جس میں قانون تقاضوں کے مطابق دو مرد عورت اپنی مرضی سے جنسی تعلق رکھ سکیں اور جب چاہیں ختم کر سکتے ہیں اس کے لئے ان کو کسی مولوی ، مذھب ، کلچر کی اجازت نہ لینی پڑے

    گستاخی معاف ، غیر محفوظ صاحب ۔ مرد کے تو مزے ہوجائیں گے  ۔ اس طرح دو بدنوں کے ملاپ سے پیدا ہونے والی روحوں کی پرورش کی ذمہ دار حکومت کو ہونا چاھیے ۔ کیا خیال ہے آپکا ۔ ہمارے ٹیکس کے پیسوں کا اس سے بہتر مصرف اور کہاں ہوسکتا ہے ؟ ویسے بھی مغربی معاشرے میں ٹین ایج ماؤں کی تعداد میں کوئ خاص اضافہ دکھائ نہیں دے رہا ہے ۔ نالے چوپڑیاں تے نالے دو دو ۔

    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #6

    گستاخی معاف ، غیر محفوظ صاحب ۔ مرد کے تو مزے ہوجائیں گے ۔ اس طرح دو بدنوں کے ملاپ سے پیدا ہونے والی روحوں کی پرورش کی ذمہ دار حکومت کو ہونا چاھیے ۔ کیا خیال ہے آپکا ۔ ہمارے ٹیکس کے پیسوں کا اس سے بہتر مصرف اور کہاں ہوسکتا ہے ؟ ویسے بھی مغربی معاشرے میں ٹین ایج ماؤں کی تعداد میں کوئ خاص اضافہ دکھائ نہیں دے رہا ہے ۔ نالے چوپڑیاں تے نالے دو دو ۔

    سر جی پیدا ہونے والے بچوں کی پرورش ان کی تعلیم و تربیت بلکل سارے معاشرے اور حکومت کی ذمداری ہونی چاہے . ایسی صورت میں کوئی بھی بچہ بھوکھا یا غریب نہیں پیدا ہو سکتا … یہ جو انفرادی ماں باپ اور بچے کی پرورش کا رشتہ ہے اس میں بہت سے مسائل ہیں جو آپ کو دنیا میں نظر ا رہے ہیں . کچھ بچے بھوکے سوتے ہیں اور کچھ بہت زیادہ ٹھونس کر .. معاشرے میں عدل اور نا انصافی اسی وجہ سے قائم کہ انفرادی ماں باپ کا رشتہ بچوں کو خود غرض بناتا ہے اور ماں باپ غریب ہونے کے ناطے خود ملک کو قوم کی جڑھیں کاٹتے ہیں .. جہاں زیادہ غربت ہوں وہاں بچوں کو لئے چوریاں اور جرائم کرتے ہیں… بچوں کی تعلیم تربیت ایک فرد کی بات نہیں یہ سرے معاشرے اور حکومت کی ذمداری ہے

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #7
    سر جی پیدا ہونے والے بچوں کی پرورش ان کی تعلیم و تربیت بلکل سارے معاشرے اور حکومت کی ذمداری ہونی چاہے . ایسی صورت میں کوئی بھی بچہ بھوکھا یا غریب نہیں پیدا ہو سکتا … یہ جو انفرادی ماں باپ اور بچے کی پرورش کا رشتہ ہے اس میں بہت سے مسائل ہیں جو آپ کو دنیا میں نظر ا رہے ہیں . کچھ بچے بھوکے سوتے ہیں اور کچھ بہت زیادہ ٹھونس کر .. معاشرے میں عدل اور نا انصافی اسی وجہ سے قائم کہ انفرادی ماں باپ کا رشتہ بچوں کو خود غرض بناتا ہے اور ماں باپ غریب ہونے کے ناطے خود ملک کو قوم کی جڑھیں کاٹتے ہیں .. جہاں زیادہ غربت ہوں وہاں بچوں کو لئے چوریاں اور جرائم کرتے ہیں… بچوں کی تعلیم تربیت ایک فرد کی بات نہیں یہ سرے معاشرے اور حکومت کی ذمداری ہے

    جی جی جی، صحیح عرض کیا ہے جناب نے ۔ تو پھر یہ مبارک کام جناب کب سے شروع
    کرنے والے ہیں ؟ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھے ہوئے بہت سے سفاک مجرم بھی
    اس کار خیر میں حصہ لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں ۔ آخر کار ان کا بھی تو فرض
    بنتا ہے کہ معاشرے کی ترقی اور پیداوار میں ھاتھ بٹائیں ۔ اب جبکہ ساری
    ذمہ داری حکومت کے توانا کندھوں پر منتقل ہو جائے گی ۔ انہوں نے تو صرف
    نمونے ہی چھاپنے ہیں ، تربیت اوراخراجات تو ساری قوم نے کرنے ہیں۔ کیا خیال
    ہے آپکا ؟

    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #8

    جی جی جی، صحیح عرض کیا ہے جناب نے ۔ تو پھر یہ مبارک کام جناب کب سے شروع کرنے والے ہیں ؟ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھے ہوئے بہت سے سفاک مجرم بھی اس کار خیر میں حصہ لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں ۔ آخر کار ان کا بھی تو فرض بنتا ہے کہ معاشرے کی ترقی اور پیداوار میں ھاتھ بٹائیں ۔ اب جبکہ ساری ذمہ داری حکومت کے توانا کندھوں پر منتقل ہو جائے گی ۔ انہوں نے تو صرف نمونے ہی چھاپنے ہیں ، تربیت اوراخراجات تو ساری قوم نے کرنے ہیں۔ کیا خیال ہے آپکا ؟

    جیل کی سلاخوں کے پیچھے صرف ووہی غریب کریمنل ہیں جن کی تربیت انفرادی ماں باپ کے رشتے سے نہ ہو سکی … کوئی چور بن گیا ، کوئی ڈاکو تو کوئی کیا … اس معاشرے کو تبدیل کرنا بہت مشکل ہیں … کیوں کہ یہ اپنی تباہی کی طرف گامزن ہے .. اب انتظار کرو کب یہ قوم تباہ ہو گی تو کوئی نی تہذیب اے گی

    نادان
    Keymaster
    Offline
      #9
      بغیر کسی حدود و قیود کے ، بنا کسی رسم و رواج کے تو صرف جانور ہی رہتے ہیں ..وہ بھی شاید
      Zaidi
      Participant
      Offline
      • Advanced
      #10

      جیل کی سلاخوں کے پیچھے صرف ووہی غریب کریمنل ہیں جن کی تربیت انفرادی ماں باپ کے رشتے سے نہ ہو سکی … کوئی چور بن گیا ، کوئی ڈاکو تو کوئی کیا … اس معاشرے کو تبدیل کرنا بہت مشکل ہیں … کیوں کہ یہ اپنی تباہی کی طرف گامزن ہے .. اب انتظار کرو کب یہ قوم تباہ ہو گی تو کوئی نی تہذیب اے گی

      اچھا جناب، تو جو معاشرہ کریمنل پیدا کررہا ہے ، آپ اسی کے حوالے انگنت بچوں کی تربیت اور پرورش کا انتظام دینا چاھتے ہیں :facepalm: ؟

      Zaidi
      Participant
      Offline
      • Advanced
      #11
      بغیر کسی حدود و قیود کے ، بنا کسی رسم و رواج کے تو صرف جانور ہی رہتے ہیں ..وہ بھی شاید

      آپکو کیسے خبر ہوئ ؟ کہیں کلیفورنیا والے جج کی رولنگ تو نہیں پڑھ لی، آپ ایسی خبریں نہ پڑھا کریں ، منہ کا ذائقہ خرا ب ہو جاتا ہے ۔ ویلکم بیک آفٹراے لونگ پاز ۔

      JMP
      Participant
      Offline
      Thread Starter
      • Professional
      #12
      جے بھای ہم مسلمان شادی سے مراد نکاح کو لیتے ہیں جس کیلئے کاغذ پر دستخط کرنے کی کوی شرعی روک موجود نہیں ہے۔ شادی دراصل ایک قسم کا اعلان سمجھا جاتا ہے کہ یہ دو افراد آپس میں باہمی رضامندی سے شادی کرنے جارہے ہیں شائد اس اعلان کا مقصد بھی یہ ہو کہ اب کوی دوسرا شخص اس عورت سے نکاح کا پیغام مت بھیجے معاشرے میں رہتے ہوے اسطرح کی رسومات بھی ہوتی ہیں کہ جس لڑکی کی منگنی کسی سے ہوجاتی ہے وہ اس کی طرف سے بھیجا گیا کڑا پہن لیتی ہے یعنی کوی دوسرا پھر پیغام بھیجے تو اس کو برا سمجھا جاتا ہے اول تو کوی ایسا کرتا ہی نہیں ۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ شادی ایک قسم ا اعلان ہی ہے۔ صدیوں پہلے کاغذ نہیں تھا تو کیا نکاح نہیں ہوتے تھے ؟ اصل رشتہ ازدواج جو اسلام میں بتایا گیا ہے وہ نکاح ہے۔ اس کے علاوہ اہل کتاب سے بھی شادی جائز ہے حتی کہ یہ بھی پابندی نہیں کہ نکاح اسلامی طریقے سے ہی ہو۔ میرے بہت سارے دوستوں نے مجھ سے پوچھا ہے کہ انہوں نے ایک گوری کے ساتھ شادی رجسٹرڈ کروای ہے مگر دونوں علیحدہ رہتے ہیں تو میں نے انہیں بتایا کہ چاہے عدالت میں ہی شادی ہوی ہے مگر یہ شادی ہے تم لوگ میاں بیوی ہو اکٹھے رہ سکتے ہو ۔ ہوسکتا ہے میں غلط ہوں مگر شادی تو کسی جنگل میں جہاں صرف دو افراد ہوں ان کے مابین بھی ہوجاتی ہے۔ شادی اسلامی طریق پر ہو یا عیسای یا یہودی طریقے پر وہ جائز ہے بس دو گواہوں کی موجودگی ضروری ہے کیونکہ اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہندووں میں پھیرے لینا بھی شادی ہی گنا جاے گا کیونکہ انکے ہاں یہی طریق رائج ہے حتی کہ کوی انڈونیشیا یا برازیل کے کسی قبیلے کی لڑکی سے انکے انداز میں عجیب و غریب رسومات سے گزر کر شادی کرتا ہے تو بھی اسے شادی ہی کہا جاے گا ملالہ نے دراصل ان سب طریقوں سے ہٹ کر بات کردی ہے یعنی وہ شادی کی قائل ہی نہیں اور اس کے خیال میں دو لوگوں کو ساتھ رہنے کیلئے کسی واسطے کی ضرورت نہیں اگر وہ کہے کہ اعلان ہی کافی ہے سائین کرنے ضروری نہیں تو پھر وہ درست ہے کیونکہ کسی کاغذ پر سائین نہ بھی کئے جاییں تو نکاح ہوجاتا ہے شادی ہوجاتی ہے آخر پر اس کا نچوڑ یہی نکلتا ہے کہ شادی ایک واحد معاملہ ہے جس کا مذہب سے کوی تعلق نہیں رکھا گیا تاکہ شادیاں کرنے کے خواہاں لوگوں کو مشکلات پیش نہ آئیں مقصد یہ کہ نسل انسانی چلتی رہے اور جب انکے درمیان دو گواہان کی موجودگی میں کوی زبانی یا تحریری معاہدہ (شادی یا نکاح) ہو تو وہ اس کی پاسداری کریں

      Believer12 sahib

      محترم بلیور صاحب

      بہت بہت شکریہ

      میری معذرت کہ میں نے اپنی تحریر میں یہ بات درست طرح بیان نہ کر سکا کے مذہب اور مشرقی اقدار کو کچھ لمحات کے لئے دور رکھ کر اس موضوع پر بات کرتے ہیں

      JMP
      Participant
      Offline
      Thread Starter
      • Professional
      #13
      بغیر کسی حدود و قیود کے ، بنا کسی رسم و رواج کے تو صرف جانور ہی رہتے ہیں ..وہ بھی شاید

      نادان sahiba

      محترمہ

      بہت بہت شکریہ

      اگر برا نہ مانیں اور دل چاہے تو بتائیں کہ وہ کون سی حدود اور قیود ہیں جن کا آپ نے ذکر کیا ہے اور جو ان دو انسانوں کو جو اپنی مرضی سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کو جانوروں سے بدتر بناتے ہیں

      کیا شادی کے ببعد ہی وہ حدود اور قیود لاگو ہوتی ہیں

      JMP
      Participant
      Offline
      Thread Starter
      • Professional
      #14

      گستاخی معاف ، غیر محفوظ صاحب ۔ مرد کے تو مزے ہوجائیں گے ۔ اس طرح دو بدنوں کے ملاپ سے پیدا ہونے والی روحوں کی پرورش کی ذمہ دار حکومت کو ہونا چاھیے ۔ کیا خیال ہے آپکا ۔ ہمارے ٹیکس کے پیسوں کا اس سے بہتر مصرف اور کہاں ہوسکتا ہے ؟ ویسے بھی مغربی معاشرے میں ٹین ایج ماؤں کی تعداد میں کوئ خاص اضافہ دکھائ نہیں دے رہا ہے ۔ نالے چوپڑیاں تے نالے دو دو ۔

      Zaidi sahib

      محترم

      میرے خیال میں یہ حکومت کی ذمےداری نہیں ہے کہ وہ ان تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کی کفالت کرے اور جہاں جہاں لوگ اس طرح رہنا پسند کرتے ہیں وہ ہی بچوں کے ذمےدار ہوتے ہیں .

      JMP
      Participant
      Offline
      Thread Starter
      • Professional
      #15

      میرے خیال میں شاید ساتھ رہنے کو بد فعلی سے جوڑا جا رہا ہے . مغرب میں اور اب مشرق کے کئی ممالک بشمول چین جاپان کوریا بھارت اور کہیں کہیں پاکستان میں بھی ایسا ہو رہا ہے . اور ایسے تعلق میں بندھے لاکثر وگ صرف جسمانی تعلق کی تلاش میں نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ اس ساتھی کی تلاش میں ہوتے ہیں جو انکے مزاج سے ہم آہنگ ہو

      ایک بار پھر اگر مذہب اور گم ہوتی مشرقی اقدار کو ایک لمحہ کے لئے ہی الگ رکھیں تو اس بات میں کے برائی ہے

      میں ذاتی طور جس قسم کا انسان ہوں مجھے ایسا تعلق قبول نہیں مگر اس کی وجہ نہ مذہب ہے نہ اقدار بلکہ میری اپنی شخصیت کی کئی خامیاں ہیں البتہ مجہت کوئی اعتراض نہیں اگر کوئی دو بالغ اشخاص ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہیں شادی یا بغیر شادی کے

      Zaidi
      Participant
      Offline
      • Advanced
      #16

      میرے خیال میں شاید ساتھ رہنے کو بد فعلی سے جوڑا جا رہا ہے . مغرب میں اور اب مشرق کے کئی ممالک بشمول چین جاپان کوریا بھارت اور کہیں کہیں پاکستان میں بھی ایسا ہو رہا ہے . اور ایسے تعلق میں بندھے لاکثر وگ صرف جسمانی تعلق کی تلاش میں نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ اس ساتھی کی تلاش میں ہوتے ہیں جو انکے مزاج سے ہم آہنگ ہو

      ایک بار پھر اگر مذہب اور گم ہوتی مشرقی اقدار کو ایک لمحہ کے لئے ہی الگ رکھیں تو اس بات میں کے برائی ہے

      میں ذاتی طور جس قسم کا انسان ہوں مجھے ایسا تعلق قبول نہیں مگر اس کی وجہ نہ مذہب ہے نہ اقدار بلکہ میری اپنی شخصیت کی کئی خامیاں ہیں البتہ مجہت کوئی اعتراض نہیں اگر کوئی دو بالغ اشخاص ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہیں شادی یا بغیر شادی کے

      جناب، محبت کی اچھی کہی۔ کیا محبت وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے ؟ کیا یہ عمر کے تقاضوں کی طرح ، مختلف سہاروں کی محتاج ہوتی ہے ؟ کیا محبت ، عقل وشعور ، سوچ بچار کے بعد ہوجاتی ہے / کی جاتی ہے ؟ وہ کونسے انسانی جسمانی تقاضے ہیں جب کے پس منظر میں محبت ہوجاتی ہے ؟ کیا محبت کے جذبےکی شدت کے پیش نظر اپنے ہمسفر کو بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل کردینا چاھیے ؟ کیا یہ صرف ایک پوٹینک رشتہ ہے جو انسانی جبلی تقاضوں کی روغیدگی سے پاک ہوتا ہے ؟ امید ہے اپنی پوسٹ کے تناظر میں ، آپ ان سوالوں کے جوابات سے نوازیں گے ۔ نیاز مند۔

      محبت تو ہے ایک کاغذ کی ناؤ
      ادُھر بہتی ہے جس طرف ہو بہاؤ

      • This reply was modified 1 year, 11 months ago by Zaidi.
      JMP
      Participant
      Offline
      Thread Starter
      • Professional
      #17

      جناب، محبت کی اچھی کہی۔ کیا محبت وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے ؟ کیا یہ عمر کے تقاضوں کی طرح ، مختلف سہاروں کی محتاج ہوتی ہے ؟ کیا محبت ، عقل وشعور ، سوچ بچار کے بعد ہوجاتی ہے / کی جاتی ہے ؟ وہ کونسے انسانی جسمانی تقاضے ہیں جب کے پس منظر میں محبت ہوجاتی ہے ؟ کیا محبت کے جذبےکی شدت کے پیش نظر اپنے ہمسفر کو بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل کردینا چاھیے ؟ کیا یہ صرف ایک پوٹینک رشتہ ہے جو انسانی جبلی تقاضوں کی روغیدگی سے پاک ہوتا ہے ؟ امید ہے اپنی پوسٹ کے تناظر میں ، آپ ان سوالوں کے جوابات سے نوازیں گے ۔ نیاز مند۔

      محبت تو ہے ایک کاغذ کی ناؤ ادُھر بہتی ہے جس طرف ہو بہاؤ

      Zaidi sahib

      نادان sahiba

      Believer12 sahib

      محترم
      بہت شکریہ

      گو میں نے محبت کی نہیں بلکہ ہم آہنگی کی بات کی تھی جس میں محبت شامل ہو سکتی ہے اور نہیں بھی پھر بھی محبت ایک عنصر ہو سکتا ہے دو انسانوں کو قریب لانے میں

      جہاں تک آپ کے پوچھے سوالوں کا تعلق ہے میں ہمیشہ کی طرح کوئی جاندار جواب نہیں دے سکوں گا مگر میری حقیر اور ممکن ہے غلط راۓ میں :

      ١) ہاں محبت وقت کے ساتھ بدل سکتی ہے اور یہ ایک بنیادی فرق ہے عشق اور محبت میں کہ عشق اٹل ہے اور محبت کم یا زیادہ یس شروع یا ختم ہو سکتی ہے
      ٢) جی ہاں محبت مختلف تقاضوں کی محتاج ہوتی ہے جس میں اکثر کچھ بدلے میں چاہیے ہوتا ہے چاہے وہ دوسرے کی محبت ہو، جسم ہو یا کچھ اور ہو جبکہ عشق بے لوث ہوتا ہے اور کسی تقاضہ کا محتاج نہیں ہوتا
      ٣) محبت گو شعور کے منافی ہو سکتی ہے مگر محبت شعور سے مستفید بھی ہوسکتی ہے . عشق شعور کو گھس بھی نہیں ڈالتا اور شعور عشق کی معراج تک نہیں پہنچ سکتا
      ٤) اگر کسی اور سے محبت ہو جاۓ تو ہم سفر بھی تبدیل ہو سکتا ہے اگر محبت ہونے والے شخص کی مرضی شامل ہو. اگر یک طرفہ محبت ہے تو شاید ایسا ممکن نہیں کہ موجودہ ہم سفر تبدیل کیا جا سکے
      ٦) آخری سوال نہیں سمجھ پایا

      اکثر زندگی میں ایک شخص کسی سے محبت کرتا ہے مگر اس کو اپنا نہیں سکتا اور کسی اور کو اپنا لیتا ہے اور ضروری نہیں کے جس کو اپنائے اس سے محبت بھی کرے .

      اس موضوع پر میرے خیال میں اس محفل کے کسی بھی محترم ہستی اور سب محترم ہستیوں کے لئے بات کرنا انتہائی مشکل ہے اور مجھے کوئی امید نہیں تھی کے کوئی اس موضوع پر بات آگے بڑھاے گا اور آپ اور محترمہ نادان صاحبہ اور محترم بلیور صاحب نے کچھ بات کی جس کی مجھے امید نہیں تھی

      میں ایک بار پھر کہوں گا کے اگر مذہب اور مشرق کی اقدار جو تبدیل ہو رہی ہیں ان کو صرف ایک لمحہ کے لئے دور رکھیں تو وہ کونسی قباحت ہے جو کسی بالغ مرد اور عورت کو اپنی مرضی سے ساتھ رہینے میں رکاوٹ ہے . ایک اور بات یہ ہے کہ فطرت کی ضروریات مرد اور خاتوں دونوں میں ہوتی ہیں مگر ساتھ رہنے کا مقصد سرف وہ ایک فطری ضرورت نہیں ہے. ساتھ رہنے کی کچھ اور اہم وجوہات یا تقاضے ہو سکتے ہیں

      ایک دو پہلو ہیں میری نظر میں اور ان کو میں بیان کر سکتا ہوں مگر میں دوسروں کی راۓ جاننا چاہوں گا

      Zaidi
      Participant
      Offline
      • Advanced
      #18
      Zaidi sahib نادان sahiba Believer12 sahib

      محترم بہت شکریہ

      گو میں نے محبت کی نہیں بلکہ ہم آہنگی کی بات کی تھی جس میں محبت شامل ہو سکتی ہے اور نہیں بھی پھر بھی محبت ایک عنصر ہو سکتا ہے دو انسانوں کو قریب لانے میں

      جہاں تک آپ کے پوچھے سوالوں کا تعلق ہے میں ہمیشہ کی طرح کوئی جاندار جواب نہیں دے سکوں گا مگر میری حقیر اور ممکن ہے غلط راۓ میں :

      ١) ہاں محبت وقت کے ساتھ بدل سکتی ہے اور یہ ایک بنیادی فرق ہے عشق اور محبت میں کہ عشق اٹل ہے اور محبت کم یا زیادہ یس شروع یا ختم ہو سکتی ہے ٢) جی ہاں محبت مختلف تقاضوں کی محتاج ہوتی ہے جس میں اکثر کچھ بدلے میں چاہیے ہوتا ہے چاہے وہ دوسرے کی محبت ہو، جسم ہو یا کچھ اور ہو جبکہ عشق بے لوث ہوتا ہے اور کسی تقاضہ کا محتاج نہیں ہوتا ٣) محبت گو شعور کے منافی ہو سکتی ہے مگر محبت شعور سے مستفید بھی ہوسکتی ہے . عشق شعور کو گھس بھی نہیں ڈالتا اور شعور عشق کی معراج تک نہیں پہنچ سکتا ٤) اگر کسی اور سے محبت ہو جاۓ تو ہم سفر بھی تبدیل ہو سکتا ہے اگر محبت ہونے والے شخص کی مرضی شامل ہو. اگر یک طرفہ محبت ہے تو شاید ایسا ممکن نہیں کہ موجودہ ہم سفر تبدیل کیا جا سکے ٦) آخری سوال نہیں سمجھ پایا

      اکثر زندگی میں ایک شخص کسی سے محبت کرتا ہے مگر اس کو اپنا نہیں سکتا اور کسی اور کو اپنا لیتا ہے اور ضروری نہیں کے جس کو اپنائے اس سے محبت بھی کرے .

      اس موضوع پر میرے خیال میں اس محفل کے کسی بھی محترم ہستی اور سب محترم ہستیوں کے لئے بات کرنا انتہائی مشکل ہے اور مجھے کوئی امید نہیں تھی کے کوئی اس موضوع پر بات آگے بڑھاے گا اور آپ اور محترمہ نادان صاحبہ اور محترم بلیور صاحب نے کچھ بات کی جس کی مجھے امید نہیں تھی

      میں ایک بار پھر کہوں گا کے اگر مذہب اور مشرق کی اقدار جو تبدیل ہو رہی ہیں ان کو صرف ایک لمحہ کے لئے دور رکھیں تو وہ کونسی قباحت ہے جو کسی بالغ مرد اور عورت کو اپنی مرضی سے ساتھ رہینے میں رکاوٹ ہے . ایک اور بات یہ ہے کہ فطرت کی ضروریات مرد اور خاتوں دونوں میں ہوتی ہیں مگر ساتھ رہنے کا مقصد سرف وہ ایک فطری ضرورت نہیں ہے. ساتھ رہنے کی کچھ اور اہم وجوہات یا تقاضے ہو سکتے ہیں

      ایک دو پہلو ہیں میری نظر میں اور ان کو میں بیان کر سکتا ہوں مگر میں دوسروں کی راۓ جاننا چاہوں گا

      بہت اعلی جناب، آپ نے تو بہت عمدہ اور مدلل جواب دیا ہے ۔ میری بہت سی کوتاہیوں میں ایک یہ کوتاہی بھی شامل ہے کہ میں بات کو سمجھے بغیر ، سوالات کی قطار لگا دیتا ہوں ۔ حالانکہ واقعی آپ نے محبت کا تذکرہ ضمنی کیا تھا ۔

      Zaidi
      Participant
      Offline
      • Advanced
      #19

      Zaidi sahib نادان sahiba Believer12 sahib

      محترم بہت شکریہ

      گو میں نے محبت کی نہیں بلکہ ہم آہنگی کی بات کی تھی جس میں محبت شامل ہو سکتی ہے اور نہیں بھی پھر بھی محبت ایک عنصر ہو سکتا ہے دو انسانوں کو قریب لانے میں

      جہاں تک آپ کے پوچھے سوالوں کا تعلق ہے میں ہمیشہ کی طرح کوئی جاندار جواب نہیں دے سکوں گا مگر میری حقیر اور ممکن ہے غلط راۓ میں :

      ١) ہاں محبت وقت کے ساتھ بدل سکتی ہے اور یہ ایک بنیادی فرق ہے عشق اور محبت میں کہ عشق اٹل ہے اور محبت کم یا زیادہ یس شروع یا ختم ہو سکتی ہے ٢) جی ہاں محبت مختلف تقاضوں کی محتاج ہوتی ہے جس میں اکثر کچھ بدلے میں چاہیے ہوتا ہے چاہے وہ دوسرے کی محبت ہو، جسم ہو یا کچھ اور ہو جبکہ عشق بے لوث ہوتا ہے اور کسی تقاضہ کا محتاج نہیں ہوتا ٣) محبت گو شعور کے منافی ہو سکتی ہے مگر محبت شعور سے مستفید بھی ہوسکتی ہے . عشق شعور کو گھس بھی نہیں ڈالتا اور شعور عشق کی معراج تک نہیں پہنچ سکتا ٤) اگر کسی اور سے محبت ہو جاۓ تو ہم سفر بھی تبدیل ہو سکتا ہے اگر محبت ہونے والے شخص کی مرضی شامل ہو. اگر یک طرفہ محبت ہے تو شاید ایسا ممکن نہیں کہ موجودہ ہم سفر تبدیل کیا جا سکے ٦) آخری سوال نہیں سمجھ پایا

      اکثر زندگی میں ایک شخص کسی سے محبت کرتا ہے مگر اس کو اپنا نہیں سکتا اور کسی اور کو اپنا لیتا ہے اور ضروری نہیں کے جس کو اپنائے اس سے محبت بھی کرے .

      اس موضوع پر میرے خیال میں اس محفل کے کسی بھی محترم ہستی اور سب محترم ہستیوں کے لئے بات کرنا انتہائی مشکل ہے اور مجھے کوئی امید نہیں تھی کے کوئی اس موضوع پر بات آگے بڑھاے گا اور آپ اور محترمہ نادان صاحبہ اور محترم بلیور صاحب نے کچھ بات کی جس کی مجھے امید نہیں تھی

      میں ایک بار پھر کہوں گا کے اگر مذہب اور مشرق کی اقدار جو تبدیل ہو رہی ہیں ان کو صرف ایک لمحہ کے لئے دور رکھیں تو وہ کونسی قباحت ہے جو کسی بالغ مرد اور عورت کو اپنی مرضی سے ساتھ رہینے میں رکاوٹ ہے . ایک اور بات یہ ہے کہ فطرت کی ضروریات مرد اور خاتوں دونوں میں ہوتی ہیں مگر ساتھ رہنے کا مقصد سرف وہ ایک فطری ضرورت نہیں ہے. ساتھ رہنے کی کچھ اور اہم وجوہات یا تقاضے ہو سکتے ہیں

      ایک دو پہلو ہیں میری نظر میں اور ان کو میں بیان کر سکتا ہوں مگر میں دوسروں کی راۓ جاننا چاہوں گا

        آپ کے تھریڈ کی کڑیاں ملالہ یوسف زئ کے اس مبینہ بیان کی طرف لے جاتی ہیں جس میں بظاھر اس نے ازدواجی زندگی کے بدھن میں بندھے بغیر مرد اور عورت کے تعلقات پر اپنا خیال ظاہر کیا ہے ۔

      میرے نذدیک تو بھیا ، اللہ کی کچھ مقرر کی ہوئ حدود ہیں جس کی خوربین سے میں ھر بات کا تعین کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ میں اپنی اس کوشش میں بارہا ناکام رہا ہوں اور رب کریم کی عنایت ہے کہ اس نے ھر بار پہلے سے بڑھکر میری راہ نمائ کی ہے ۔

      ھرچند کہ میری رائے میرے عقیدے کی پختگی کی بنا پر متعصب ہوسکتی ہے ، اور ایک متعصب رائے کی اھمیت کم ہوجاتی ہے ، میں اگر اپنے عقائد کی پوشاک اتار بھی دوں ، تب بھی میری پرورش اور تربیت مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ عورت اور مرد کے اس طرح کے ملاپ کو بغیر کسی عہد اور پیمان ، کسی اصولوں کی پابندی سے یکسر انحراف ، اور ایک خاندان کی تشکیل کے نظریے کو کسی بھی موثر منصوبہ بندی کے بغیر، اپنانے کی اجازت نہیں دیتی ۔

      عہد وپیمان یا اقرار نامے کی مختلف مذاھب کے نزدیک مختلف قسمیں ہوسکتی ہیں ۔ ازدواجی تعلقات ، ایک خاندان کی تشکیل کا بنیادی عمل ہے ، اور یہ عمل بغیر کسی حلف ، کسی عہد اور کسی وعدے کے محض ایک کھیل تماشہ تو ہوسکتا ہے ، معاشرے میں استحکام ، رواداری اور تہذیب کا محافظ نہیں ہو سکتا ۔ ضروری نہیں کہ ایسے معائدے سو فیصد اپنے مقاصد حاصل کرتے ہوں ، بہت سی مثالوں میں حرفین کی اپنی کمزوریاں ، حالات کی ستم کاری ،ان معائدے کی ناکامی کی صورت میں بھی سامنے آتی ہیں۔ لیکن چونکہ ایسا ہوتا رہا ہے ، ہم ان تعلقات کی بنیادی شرائط سے حرف نظر نہیں کرسکتے ۔

      • This reply was modified 1 year, 11 months ago by Zaidi.
      نادان
      Keymaster
      Offline
        #20

        آپکو کیسے خبر ہوئ ؟ کہیں کلیفورنیا والے جج کی رولنگ تو نہیں پڑھ لی، آپ ایسی خبریں نہ پڑھا کریں ، منہ کا ذائقہ خرا ب ہو جاتا ہے ۔ ویلکم بیک آفٹراے لونگ پاز ۔

        کہاں خبر ہوئی ..خبر ہوتی تو ” شاید ” لکھتی

      Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 47 total)

      You must be logged in to reply to this topic.

      ×
      arrow_upward DanishGardi