Home › Forums › Siasi Discussion › رہنماؤں کے اختلافات نے پی ٹی آئی کے سیاسی لوگوں کو باہر کردیا، فواد چوہدری
- This topic has 6 replies, 5 voices, and was last updated 2 years, 9 months ago by
حسن داور. This post has been viewed 345 times
-
AuthorPosts
-
23 Jun, 2020 at 3:12 pm #1
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سینئر قیادت کے باہمی اختلافات پارٹی کے اصلاحی ایجنڈے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
اس بات کا اعتراف وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فود چوہدری نے وائس آف امریکا کو ایک انٹریو دیتے ہوئے کیا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے پانامہ کے کیس کے بعد عمران خان کے ساتھ نتھیا گلی میں کافی وقت گزارا اور کئی امور کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کراچی میں وزیراعلیٰ کو ڈکٹیٹر کہنے کا حوالہ دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ قومی مالیاتی کمیشن(این ایف سی) اور عدالتی، پولیس اصلاحات پر وزیراعظم کے آئیڈیاز بہت واضح تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام کو حکومت نے بہت زیادہ توقعات ہیں اور عمران خان کو لوگوں نے نظام کی اصلاح کے لیے منتخب کیا لیکن ہماری اپنی بھی کوتاہیاں ہیں جس کی وجہ سے تبدیلی نہیں آسکی۔
فواد چوہدری نے کہا کہ صرف آئیڈیا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس پر عملدرآمد کے لیے ایک ٹیم بھی بنانی پڑتی ہے اور جب عمران خان کی بنیادی ٹیم ہل گئی تو نئے لوگ ان آئیڈیاز سے مطابقت نہیں رکھتے تھے اور شاید صلاحیت بھی نہیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ میرے تجزیے کے مطابق حکومت بننے کے بعد جہانگیر ترین، اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کی آپس کی رسہ کشی کی وجہ سے سیاسی لوگ کھیل سے باہر ہوگئے اور اس سے پیدا ہونے والے خلا کو نئے لوگوں نے پر کیا جن کا سیاست سے تعلق نہیں تھا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ٹیم بھی لیڈر نے ہی منتخب کرنی ہوتی ہے اور میں بھی بہت حیران ہوں کہ یہ کیوں نہیں کرسکے ان سے چاہے جو اختلاف ہو لیکن مسلم دنیا میں ان کی سطح کا کوئی رہنما نہیں ہے۔
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ کہا جاتا ہے فوج کا بہت کردار ہوگیا ہے لیکن آپ پارلیمانی اور صوبائی قیادت کو دیکھیں اور خود بتائیں کہ اس قیادت کے ساتھ سویلین سپرمیسی کس طرح ہو؟
انہوں نے کہا کہ عمران کو بہترین لوگوں کو عہدے دینے چاہیے تھے لیکن جس نے بھی ان کو یہ مشورہ دیا کہ کمزور اور ڈکٹیشن لینے والے افراد کو عہدے دیے جائیں اس سے ان کی ذات کو سب سے بڑا نقصان پہنچا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے بہت کوشش کی اور سمجھانے کی بھی کوشش لیکن بات نہیں بنی جب اسد عمر وزیر خزانہ تھے تو جہانگیر ترین نے زور لگا کر انہیں وزارت سے فارغ کروایا پھر اسد عمر نے دوبارہ آنے کے بعد کوششیں کر کے جہانگیر ترین کو فارغ کروادیا۔
اسی طرح شاہ محمود قریشی کی بھی جہانگیر ترین سے ملاقاتیں ہوئی لیکن بات نہیں بنی، انہوں نے کہا کہ پارٹیوں میں اختلافات، گروہ بندی عام بات لیکن آپ جس شاخ پر بیٹھے ہوں اس کو تو نہیں کاٹا جاتا۔
اس لیے مجھے محسوس ہوتا کہ پارٹی کے سینئر رہنماؤں میں اندرونی اختلافات نےنہ صرف پارٹی کو بہت نقصان پہنچایا بلکہ ’پوری سیاسی کلاس آؤٹ ہوگئی‘ اور ان کی جگہ بیوروکریٹس نے لے لی۔
وزیر سائنس نے کہا حکومت کو 2 سال ہوگئے ہیں لیکن ہم ابھی تک دھرنے میں شریک نوجوانوں کے اوپر بننے والے مقدمات ختم نہیں کرسکے، اسی طرح پولیس، عدالتی اصلاحات پر تمام بنیادی چیزیں رکی ہوئی ہیں اور ہم صرف ایک معمول کے مطابق حکومت چلا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقتدار سیاست اور حکومت پر چلتا ہے اور اگر یہ متوازن نہ ہوں تو کسی بھی وقت چیزیں سرک جاتی ہیں، عمران خان کو اس کا احساس ہے اس لیے انہوں نے کابینہ کے آخری اجلاس میں وزرا سے کہا کہ آ پ کے پاس کارکردگی دکھانے کے لیے ساڑھے 5 ماہ ہیں اس کے بعد وقت آپ کے ہاتھ سے نکلنا شروع ہوجائے گا۔
کیا ہم صدارتی نظام حکومت کی جانب چلے گئے ہیں کہ جواب میں فواد چوہدری نے کہا کہ اگر اتنے مشیر، معاون خصوصی ہوں گے اور منتخب اراکین ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہوں گے اور انہیں فیصلہ سازی میں شامل نہیں کیا جائے گا تو ظاہر پارلیمانی نظام حکومت پر سوال کھڑا ہوجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کی ناکامی صرف فرد واحد کی ناکامی نہیں بلکہ یہ پورے پاکستان کے عوام کی خواہشوں کی ناکامی ہے فوج اور دیگر ادارے بھی عمران خان کو اس لیے سپورٹ کررہے ہیں کہ اس وقت سیاسی آپشنز ہی نہیں۔- local_florist 1
- local_florist JMP thanked this post
23 Jun, 2020 at 9:31 pm #3گھر کا بھیدی لنکا ڈھانے پہنچ گیا؟؟عامر بھائی ناتجربہ کار ی بی آرٹی میں یا پاکستان چلانے میں نہ تجربہ کار؟؟؟
رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہنمائی کا سوال ہے؟
ناکام کپتان کی ناکام ٹیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- mood 1
- mood Aamir Siddique react this post
24 Jun, 2020 at 12:05 am #5ایک مرحلے پر یہ ہوا ،تلخی اتنی بڑھ گئی کے فیصل ووڈا نے کہا میرا ہاتھ بھی چلتا ہے ،جب سی سی فوٹیج کے زریعے دیکھا گیا تو چہرے کا رخ اسد عمر کی طرف تھا ، ڈاکٹر شاہد مسعود pic.twitter.com/viVZUd6cub
— Ahmed Waqar Bibi (@Ahmed_WB) June 23, 2020
24 Jun, 2020 at 2:03 am #6گھر کا بھیدی لنکا ڈھانے پہنچ گیا؟؟ Aamir Siddique عامر بھائی ناتجربہ کار ی بی آرٹی میں یا پاکستان چلانے میں نہ تجربہ کار؟؟؟ رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہنمائی کا سوال ہے؟ ناکام کپتان کی ناکام ٹیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ ٹینشن نا لیں کپتان کو آتا ہے ٹیم کنٹرول کرنا
24 Jun, 2020 at 3:08 pm #7وزیراعظم عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی ) کے اندرونی اختلافات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے رہنماؤں کو پارٹی کے اندرونی معاملات کھلے عام بیان کرنے سے گریز کرنے کی ہدایت کردی۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز ہونے والے کابینہ اجلاس کے دوران پاکستان تحریک انصاف حکومت کے اندرونی اختلافات ایک مرتبہ پھر سامنے آئے تھے جس کے بعد وزیراعظم عمران خان کو مداخلت کرکے وفاقی وزرا کو ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی سے روکنا پڑا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کابینہ اجلاس میں اس وقت غیر معمولی صورتحال دیکھی گئی جب ایک وزیر نے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے وائس آف امریکا (وی او اے) کو دیے گئے انٹرویو کا معاملہ اٹھایا۔
مذکورہ انٹرویو میں فواد چوہدری نے کہا تھا کہ پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے غیر منتخب اراکین کو کابینہ کا حصہ بننے کی اجازت ملی جو وزیراعظم کے وژن سے لاعلم تھے۔
تاہم کابینہ اجلاس کے دوران جب فواد چوہدری غیر منتخب اراکین کے خلاف اپنے بیان پر قائم رہے تو وفاقی وزیر برائے آبی وسائل نے ان کے غم و غصے میں کچھ سینئر رہنماؤں کے کردار پر افسوس کا اظہار کیا۔
اندرونی ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان، انٹرویو پر برہم تھے اور انہوں نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو پارٹی کے اندرونی معاملات کھلے عام بیان کرنے سے گریز کی ہدایت کی۔
اس حوالے سے کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ فواد چوہدری کا معاملہ اجلاس میں زیر غور آیا تھا اور وزیراعظم نے اس پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی رائے ہے کہ پارٹی کے اندرونی معاملات پر ایسے بات چیت نہیں ہونی چاہیے۔
خیال رہے کہ انٹرویو میں فواد چوہدری نے کہا تھا کہ میرے تجزیے کے مطابق حکومت بننے کے بعد جہانگیر ترین، اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کی آپس کی رسہ کشی کی وجہ سے سیاسی لوگ کھیل سے باہر ہوگئے اور اس سے پیدا ہونے والے خلا کو نئے لوگوں نے پُر کیا جن کا سیاست سے تعلق نہیں تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے بہت کوشش کی اور سمجھایا بھی لیکن بات نہیں بنی، ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ جب اسد عمر وزیر خزانہ تھے تو جہانگیر ترین نے زور لگا کر انہیں وزارت سے فارغ کروایا پھر اسد عمر نے دوبارہ آنے کے بعد کوششیں کر کے جہانگیر ترین کو فارغ کروادیا۔
فواد چوہدری کے مطابق اسی طرح شاہ محمود قریشی کی بھی جہانگیر ترین سے ملاقاتیں ہوئی لیکن بات نہیں بنی، پارٹیوں میں اختلافات، گروہ بندی عام بات لیکن آپ جس شاخ پر بیٹھے ہوں اس کو تو نہیں کاٹا جاتا۔
دوران انٹرویو انہوں نے کہا تھا کہ مجھے محسوس ہوتا کہ پارٹی کے سینئر رہنماؤں میں اندرونی اختلافات نے نہ صرف پارٹی کو بہت نقصان پہنچایا بلکہ ’پوری سیاسی کلاس آؤٹ ہوگئی‘ اور ان کی جگہ بیوروکریٹس نے لے لی۔
خیال رہے کہ ماضی میں بھی منتخب اور غیر منتخب کابینہ اراکین کا معاملہ میڈیا میں سامنے آیا تھا جب پارٹی رہنماؤں نے مختلف فورمز پر وزیراعظم کے معاونین خصوصی اور مشیروں کے کردار پر تنقید کی تھی۔
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق کابینہ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے وزیراعظم سے شکایت کی تھی کہ فواد چوہدری نے ان (اسد عمر) پر جہانگیر ترین کو پارٹی سے ہٹانے کا الزام لگایا تھا۔
جس پر فواد چوہدری نے کہا کہ اگر یہ سچ نہیں تو وہ (اسد عمر) خود وفاقی کابینہ کو بتادیں کہ ان کا اس میں کوئی کردار نہیں تھا۔
علاوہ ازیں وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واڈا نے بھی وزیراعظم سے اپنی وزارت میں کچھ سینئر پارٹی رہنماؤں کی مداخلت کی شکایت کی۔
اس حوالے سے جب ڈان نے فواد چوہدری سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وزیراعظم، وائس آف امریکا کو ان کے دیے گئے انٹرویو سے خوش نہیں تھے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم کا خیال تھا کہ اختلافات ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن ان پر ایسے بات چیت نہیں کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے وزیراعظم کو بتایا تھا کہ انٹرویو کے دوران میں نے صرف اپنا تجزیہ دیا تھا اور جو کہا تھا اس پر قائم ہوں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ فیصل واڈا نے بھی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیراعظم کے معاونین عبدالززاق داؤد اور ندیم بابر کے خلاف بات کی تھی۔
فیصل واڈا کے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ ‘ہم کسی وزیر اور مشیر کو جوابدہ نہیں ہیں’۔
بعدازاں ایک نجی ٹی وی کے ٹاک شو میں فیصل واڈا نے بھی کہا تھا کہ ہم عمران خان کے علاوہ پارٹی میں کسی کو جوابدہ نہیں۔ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ فواد چوہدری نے بھی کابینہ اجلاس میں یہ کہا تھا۔
فیصل واڈا نے انکشاف کیا کہ وزیراعظم کو بدنام کرنے کے لیے کسی وزارت کی جانب سے اہم دستاویزات میڈیا میں لیک کی گئی تھیں تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ایسی دستاویزات کس نے جاری کی تھیں۔
وفاقی وزیر آبی وسائل نے کہا کہ ایسی چیزیں لیک ہوتی ہیں اور سیاست میں ایسا ہوتا ہے، تاہم اپنے ساتھیوں کے خلاف بیان سے متعلق وزیراعظم کی جانب سے روکنے کے سوال پر فیصل واڈا نے کہا کہ وزیراعظم نے مجھے نہیں روکا تھا۔
علاوہ ازیں ڈان کی جانب سے رابطے کی کئی کوششوں کے باوجود اس حوالے سے بیان دینے کے لیے اسد عمر اور شاہ محمود قریشی دستیاب نہ تھے۔- local_florist 1
- local_florist JMP thanked this post
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.