Home Forums Siasi Discussion رمضان کا بقیہ حصہ عید کے بعد

  • This topic has 3 replies, 2 voices, and was last updated 2 years ago by Believer12. This post has been viewed 473 times
Viewing 4 posts - 1 through 4 (of 4 total)
  • Author
    Posts
  • Atif Qazi
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1
    جمعے کے دن دو خطبوں کا وزن یعنی عید اگر جمعہ کو آرہی ہو تو سنا ہے یہ حکمرانوں کیلئے شروع سے ہی بھاری سمجھا جاتا ہے۔ خدا جانے یہ خیال کارپروازان حکومت کے تخیل میں کہاں سے در آیا کہ اچھے بھلے وہابی نظریات کے حامل حکمران بھی اس خیال سے نہ بچ سکے۔ غالبا” ایوب خان کے دور کا واقعہ ہے کہ جمعرات کو نماز عید پڑھانے کیلئے تمام مولوی و علماء نے معذرت کرلی کہ ہم جمعہ کے بجائے جمعرات کو نماز عید پڑھا کر یہ گناہ اپنے سر مول نہیں لے سکتے۔ لہذا محکمہ سیرو سیاحت برائے شمالی علاقہ جات نے اسلام آباد کے ایک مولوی صاحب کو جاپکڑا اور انہیں دھند پڑنے یا انکا آرٹی ایس بٹھائے جانے کے عواقب سے آگاہ کیا۔ ابھی تک سعودی ریالوں کی آمد شروع نہ ہو پائی تھی اسلئے وہ مولوی صاحب کافی شریف آدمی تھے، زن و بچہ کولہو میں پلوا دینے قسم کے لالچ کو برداشت نہ کرپائے سو ہاں کردی۔ اس وقت کے شہباز گل و شبلی فراز نے خوب بغلیں بجائی کہ دیکھا اپوزیشن کی عید نہ منانے کی سازش ہم نے کیسے ناکام بنا دی ہے۔

    خیر اگلے روز علی الصبح امام صاحب اپنے گھر کے ارد گرد تعینات محکمہ زراعت کے جلو میں عید گاہ پہنچے جہاں بیان کے بعد نماز شروع ہوئی۔ پہلی رکعت میں امام صاحب نے سجدہ طویل کیا دوسرا سجدہ پہلے سے بھی زیادہ طویل فرمایا اسکے بعد دوسری رکعت میں تیسرا سجدہ پہلے دونوں سجود سے زیادہ طویل کیا۔ ظاہر ہے مقتدین چوتھے سجدے کے بہت زیادہ طویل ہونے کیلئے دماغی طور پر تیار تھے سو چوتھا سجدہ جب شروع ہوگیا اور پانچ منٹ تک امام صاحب کی اللہ اکبر کی خوش کن آواز نہ آئی تو نمازیوں میں بےچینی پھیلی۔ مجبور ہوکر کسی نمازی نے سر اٹھایا تو امام صاحب غائب ہوچکے تھے۔ خوب شور مچا ، اپوزیشن کی اس گھٹیا کوشش کو موقع پر ہی مذمت کی گئی اور امام صاحب کی تلاش میں ہرکارے دوڑائے تو معلوم ہوا اہل خانہ کو علی الصبح کسی بس پر سوار کروا کر موصوف سجدے کے دوران خود بھی کسی نامعلوم مقام پر کھسک لئے تھے۔  جمعرات کو ہونے والا یہ تماشہ بھی ایوب خان کے خلاف تحریک یا اسے پڑنے والی گالیاں نہ روک سکا اور آخرکار ان تمام تدابیر کے باوجود ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔

    اب زمانہ ترقی کرگیا ہے اب امام صاحب ایسے رسک نہیں مول لیتے بلکہ جمعرات کو عید پڑھا کر آخری روزے کی قضا کے طور پر ایک روزہ عید کے بعد رکھنے کی تاکید کردیتے ہیں۔ ابن انشاء مرحوم نے اردو کی آخری کتاب میں اسلام کے سانچے کے بارے میں خوب لکھا تھا کہ اسلام کا سانچا چونکہ کچھ لوگوں کی زندگیوں کے لئے بڑا یا چھوٹا پڑا جاتا ہے لہذا لوگوں نے اپنی زندگیوں کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کے بجائے اس سانچے کو اپنی زندگیوں کے مطابق ڈھال لیا ہے۔

    عرصہ پہلے عمران خان صاحب کی توہم پرستی کے بارے میں اڑتی اڑتی جناتی خبریں سنیں تو مخالفین کا پروپیگنڈہ سمجھ کر انہیں دوسرے کان سے باہر نکال دیا لیکن اس بار عید پر جو تماشہ رچایا گیا اسکے بعد کالی دال، کچا گوشت، انگوٹھی پہننا مزار کو سجدہ کرنا اور درختوں پر سرخ ربن باندھنے جیسی تمام وارداتیں بجا معلوم ہونے لگی ہیں۔  چونکہ خان صاحب کے وزیراعظم بن جانے یا پھر ان اسباب یا اشخاص کے مطیع ہوجانے کو ذہن تسلیم نہیں کرتا جن کی وجہ سے یہ وزیراعظم بنے ہیں اسلئے یہی گمان کیا جاسکتا ہے کہ کالی دال جسم پر ملنے یا جنات ڈھونڈ کر انہیں گوشت کھلانے اور سرخ ربن وغیرہ باندھنے میں واقعی کوئی حکمت ضرور ہے۔ ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دماغ سے ایک بالکل فارغ بندہ حکومت کررہا ہو اور کئے ہی جارہا ہو اور اس کے روائیتی حریف بھی اس کی قلابازیوں پر دَم سادھے اسے تکتے ہوں؟

    بہرحال ہم ایک اسلامی نظام حکومت میں رہ رہے ہیں اور ریاست کا یہ حکم ماننے پر مجبور ہیں لہذا دوستوں آپ سب کو عید مبارک۔ ایک دوسرے سے گلے ملیں مبارکباد دیں اور سویاں اُڑائیں، عید کے بعد رمضان کا بقیہ حصہ جو ایک روزے پر مشتمل ہے اسے ہر صورت رمضان کا حصہ سمجھ کر مکمل کریں۔ اپنا باقی روزہ رکھیں اور حسن داور جیسے دوست جو اس بار اعتکاف میں بیٹھے تھے اپنے اعتکاف کی ایک دن کی قضا مسجد میں ادا کریں۔

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2
    بہت خوب عاطف بھای بڑی دیر کے بعد ایک اچھا مضمون پڑھنے کو ملا اور سب سے بڑی خوشی اس بات کی ہے کہ عید کے عید آنے کی روایت آپ دل و جان سے نبھا رہے ہیں

    جہاں تک عید کا تعلق ہے تو وزیرستانی مولوی سب سے آگے نکل گیا اور عید بدھ کے روز ہی پڑھا دی کسی نے پوچھا کہ ستائیسویں رات جسے درمیانی رات کہا جاتا ہے وہ کدھر گئی تو مولوی نے جواب دیا کہ اس حساب سے چھبیسویں رات ہی ستائیسویں تھی

    عوام نے بہت اچھا کیا کہ ریاست نے اپنے سر لیے گئے گناہ کا بھرپور انجواے مینٹ کیا ایک روزہ کم رکھا جس سے انکی عید کا مزہ بھی دوبالا ہوگیا اور گناہ بھی حکومت کے سر چڑھا جس مولوی کو رویت ہلال یعنی چاند دیکھنے کا ہیڈماسٹر بنایا گیا ہے اس کا باپ بادشاہی مسجد کا خطیب اور لیڈی ڈیانا کے دورے پر شہزادی کو اس کے یورپین سکرٹ پر چنری اڑانے والا شخص تھا۔ اسٹیبلشمینٹ کی گڈ بک میں تھا لہذا اسے ریگارڈ دینا بھی بنتا تھا جو دیا گیا ویسے بھی بادشاہی محلے کے پہلو میں شاہی محلہ بھی ہے جہاں چاند اکثر مغلئی طرز کی بنی بالکونیوں پر طلوع ہوتے رہتے ہیں جنہیں ظاہری آنکھ سے دیکھنا مشکل نہیں اور مولانا آزاد تو اس کام کے جدی پشتی تجربہ کار تھے لہذا چاند دیکھنے کی ذمہ داری کیلئے اس سے بہتر بندہ ملنا ہی نہیں تھا

    میرا ایک دوست دعوی کرتا تھا کہ دو سے زیادہ عیدیں پاکستان میں ممکن ہی نہیں کیونکہ چھوٹا ملک ہے مگر میری بہادر قوم نے یہ ریکارڈ بھی بنا دیا ہے اب کوی مای کی لال دوسری قوم میں ہمت ہے تو اسے توڑ کر دکھاے؟

    Atif Qazi
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #3
    بہت خوب عاطف بھای بڑی دیر کے بعد ایک اچھا مضمون پڑھنے کو ملا اور سب سے بڑی خوشی اس بات کی ہے کہ عید کے عید آنے کی روایت آپ دل و جان سے نبھا رہے ہیں جہاں تک عید کا تعلق ہے تو وزیرستانی مولوی سب سے آگے نکل گیا اور عید بدھ کے روز ہی پڑھا دی کسی نے پوچھا کہ ستائیسویں رات جسے درمیانی رات کہا جاتا ہے وہ کدھر گئی تو مولوی نے جواب دیا کہ اس حساب سے چھبیسویں رات ہی ستائیسویں تھی عوام نے بہت اچھا کیا کہ ریاست نے اپنے سر لیے گئے گناہ کا بھرپور انجواے مینٹ کیا ایک روزہ کم رکھا جس سے انکی عید کا مزہ بھی دوبالا ہوگیا اور گناہ بھی حکومت کے سر چڑھا جس مولوی کو رویت ہلال یعنی چاند دیکھنے کا ہیڈماسٹر بنایا گیا ہے اس کا باپ بادشاہی مسجد کا خطیب اور لیڈی ڈیانا کے دورے پر شہزادی کو اس کے یورپین سکرٹ پر چنری اڑانے والا شخص تھا۔ اسٹیبلشمینٹ کی گڈ بک میں تھا لہذا اسے ریگارڈ دینا بھی بنتا تھا جو دیا گیا ویسے بھی بادشاہی محلے کے پہلو میں شاہی محلہ بھی ہے جہاں چاند اکثر مغلئی طرز کی بنی بالکونیوں پر طلوع ہوتے رہتے ہیں جنہیں ظاہری آنکھ سے دیکھنا مشکل نہیں اور مولانا آزاد تو اس کام کے جدی پشتی تجربہ کار تھے لہذا چاند دیکھنے کی ذمہ داری کیلئے اس سے بہتر بندہ ملنا ہی نہیں تھا میرا ایک دوست دعوی کرتا تھا کہ دو سے زیادہ عیدیں پاکستان میں ممکن ہی نہیں کیونکہ چھوٹا ملک ہے مگر میری بہادر قوم نے یہ ریکارڈ بھی بنا دیا ہے اب کوی مای کی لال دوسری قوم میں ہمت ہے تو اسے توڑ کر دکھاے؟

    مجھے یاد پڑتا ہے ایکبار پہلے بھی تین عیدین ہوئی تھیں اور بیرون ملک بہت مذاق بنا تھا پاکستان کا۔ شائید پچیس تیس برس پہلے کا قصہ ہے اور باوا بھائی کو یقینا” یاد ہوگا کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ سینئیر ہیں۔

    بیلیور بھائی! یہ روئیت ہلال کمیٹی کے چئیرمین کے بارے آپ نے جو انکشاگ کیا ہے میرے لئے واقعی حیرت انگیز ہے، میں اس کے باپ کا آج تک مذاق اڑاتا رہا ہوں اسی ڈیانا والی تصویر پر۔

    اب سمجھ آئی کہ یہ چاپلوسی کے جراثیم کا ماخذ کیا ہے۔ اس کے علاوہ کل ایک اور ویڈیو بھی دیکھی جس میں ایک شعلہ بیان مولوی صاحب نے بتایا ہے کہ غوث پاک کی محفل میں ایک انتہائی خوبصورت نوجوان شریک تھا جو جب چلا گیا تو راوی نے حسن سے مرعوب ہوکر تجسس سے پوچھا کہ یہ کون تھا تو غوث پاک نے جواب دیا کہ یہ چاند تھا جو نکلنے کی اجازت لینے آیا تھا۔

    اب جس قوم میں چاند بھی نوخیز لڑکا بن کر اترتا ہو وہاں منطق اور سائینس کی ایسی ہی ماں بہن کی سری ہوسکتی ہے۔

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #4
    مجھے یاد پڑتا ہے ایکبار پہلے بھی تین عیدین ہوئی تھیں اور بیرون ملک بہت مذاق بنا تھا پاکستان کا۔ شائید پچیس تیس برس پہلے کا قصہ ہے اور باوا بھائی کو یقینا” یاد ہوگا کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ سینئیر ہیں۔ بیلیور بھائی! یہ روئیت ہلال کمیٹی کے چئیرمین کے بارے آپ نے جو انکشاگ کیا ہے میرے لئے واقعی حیرت انگیز ہے، میں اس کے باپ کا آج تک مذاق اڑاتا رہا ہوں اسی ڈیانا والی تصویر پر۔ اب سمجھ آئی کہ یہ چاپلوسی کے جراثیم کا ماخذ کیا ہے۔ اس کے علاوہ کل ایک اور ویڈیو بھی دیکھی جس میں ایک شعلہ بیان مولوی صاحب نے بتایا ہے کہ غوث پاک کی محفل میں ایک انتہائی خوبصورت نوجوان شریک تھا جو جب چلا گیا تو راوی نے حسن سے مرعوب ہوکر تجسس سے پوچھا کہ یہ کون تھا تو غوث پاک نے جواب دیا کہ یہ چاند تھا جو نکلنے کی اجازت لینے آیا تھا۔ اب جس قوم میں چاند بھی نوخیز لڑکا بن کر اترتا ہو وہاں منطق اور سائینس کی ایسی ہی ماں بہن کی سری ہوسکتی ہے۔

    اس ایریا میں آج بھی آپ گھومیں تو مغلوں کےدور میں پنہچ جاتے ہیں جوں جوں اندر کی جانب قدم بڑھاتے ہیں تو دل کے جلترنگ بجنے لگتے ہیں۔ یہیں پر علامہ اقبال کا گھر بھی ہے جس کی چھت سے پورا شاہی محلہ دیکھا جاسکتا تھا اب تو اونچی بلڈنگز سد راہ ہیں پھر بھی کافی کچھ موجود ہے

    کوی بھی سرکاری مولوی علمی بنیاد پر منتخب نہیں کیا جاتا بلکہ حکومتی کارندے سرجوڑ کر مشورہ کرتے ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ طارق جمیل کو بنا دو تو دوسرا کہتا ہے رہنے دو یہ بندہ بڑا سخت ہے۔ عید آگے پیچھے کروانی پڑ گئی تو اس نے اکڑ جانا ہے۔ دوسرا کہتا ہے کہ پھر مولانا آزاد یا مولوی اشرفی میں سے کسی کو بنا دو ولایتی کا ایک کریٹ ساتھ بھیج دو مولانا آپ کی بات کو ہی کسی ولی اللہ کا قول بنادیا کریں گے۔یہاں ضمیروں کے سودے ہوتے ہیں اور بولیاں لگتی ہیں ۔ مولانا آزاد نے اب تک گورنمنٹ پر احسان چڑھا بھی دیا ہوگا اور کافی کچھ انہیں مل گیا ہوگا باقی ملتا رہے گا یہ کوی چھوٹا کام نہیں کیا کہ دین کو بیچ دیا چیرمینی کیلئے۔

Viewing 4 posts - 1 through 4 (of 4 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi