Thread:
خودکشی کیوں
- This topic has 99 replies, 16 voices, and was last updated 4 years, 7 months ago by
Zinda Rood. This post has been viewed 3805 times
-
AuthorPosts
-
30 Oct, 2018 at 5:56 am #81یہ لمحاتی بہادری بمقابلہ طویل المدت بزدلی (جو باقی ماندہ زندگی، جس کا کہ خاتمہ کیا جا رہا ہے) پر مشتمل ہے کا مسئلہ ہے اور یہ نکتہءنظر (پرسپیکٹو) کا بھی معاملہ ہے، اگر تو یہ آخر الذکر ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں، پرسپیکٹو ہمیشہ منفرد اور ذاتی ہوتا ہے اور میں اس پر بحث نہیں کرتا اوپر پہلا جملہ تھوڑا پیچیدہ ہو گیا ہے لیکن امید ہے آپ بات کو پا لیں گے
اَتھرا sahib
محترم اتھرا صاحب
بہت شکریہ
میرا خیال ہے میں آپکا پہلا جملہ سمجھ گیا ہوں اور اگر نہیں سمجھا تو میری کوتاہی
میں اتفاق کرتا ہوں آپ سے کے نکتہ نظر منفرد اور ذاتی ہوتا ہے
آپ اچھا کرتے ہیں جو نکتہ نظر پر بحث نہیں کرتے گو میری نظر میں ( میرے نکتہ نظر کے حساب سے ) گفتگو نکتہ نظر پر ہی ہو سکتی ہے . نکتہ نظر کو سمھجنا یا نکتہ نظر سے اختلاف کرنا ہی گفتگو (بحث کہہ لینا اگر چاہیں) کے آغاز کا موجب بنتا ہے میری نظر میں . حقیقت یا آفاقی سچ پر گفتگو یا بحث کرنا کچھ لا حاصل لگتا ہے مجھے
شاید میں آپکے باقی جملے کو نہیں سمجھ سکا ہوں
30 Oct, 2018 at 7:41 am #82اَتھرا sahib محترم اتھرا صاحب بہت شکریہ میرا خیال ہے میں آپکا پہلا جملہ سمجھ گیا ہوں اور اگر نہیں سمجھا تو میری کوتاہی میں اتفاق کرتا ہوں آپ سے کے نکتہ نظر منفرد اور ذاتی ہوتا ہے آپ اچھا کرتے ہیں جو نکتہ نظر پر بحث نہیں کرتے گو میری نظر میں ( میرے نکتہ نظر کے حساب سے ) گفتگو نکتہ نظر پر ہی ہو سکتی ہے . نکتہ نظر کو سمھجنا یا نکتہ نظر سے اختلاف کرنا ہی گفتگو (بحث کہہ لینا اگر چاہیں) کے آغاز کا موجب بنتا ہے میری نظر میں . حقیقت یا آفاقی سچ پر گفتگو یا بحث کرنا کچھ لا حاصل لگتا ہے مجھے شاید میں آپکے باقی جملے کو نہیں سمجھ سکا ہوںآفاقی سچ یا حقیقت کیا ہوتی ہے، منافق صاحب؟ جب بھی اس طرح کا جملہ پڑھتا ہوں سوچ میں پڑ جاتا ہوں، آپ شائد راستہ دکھانے میں مدد کر سکیں؟
ہاں، نکتہ نظر پر بھی بات ہو سکتی ہے، لیکن تب جب کسی بالکل نئی شخصیت سے ملاقات ہو، یہاں گنے چنے لوگ ہیں اور گنے چنے ہی موضوعات، سب کو ایک دوسرے کےنکتہ نظر سے کافی آگاہی ہے، سوائے ایک دو ممبران کے میں نے کبھی کسی کو اپنی غلطی یا موقف میں کمزوری تسلیم کرتے نہیں دیکھا، تو ایسے میں نکتہ نظر پر بات چیت/کارِ لاحاصل بن جاتی ہے
- local_florist 1
- local_florist JMP thanked this post
30 Oct, 2018 at 10:07 am #83میرے خیال میں دنیا اب آہستہ آہستہ اس طرف بڑھ رہی ہے، آپ کے علم میں ہوگا کہ سویٹزرلینڈ میں انتہائی علیل یا ذہنی و جسمانی طور پر معذور طویل العمر افراد کو خودکشی کا قانونی حق دیا گیا ہے، ابھی کچھ دن قبل آسٹریلیا کے سائنسدان ڈاکٹر ڈیوڈ گوڈال نے سویٹرزلینڈ کے اس قانون سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں جاکر ایک کلینک میں پرسکون خودکشی کرلی، انہیں پرسکون موت دے دی گئی۔۔
یہ انسان کو خودکشی کا قانونی حق دینے کی طرف پہلا قدم ہے، وہ وقت بھی آئے گا جب ایک صحت مند اور زندگی سے بھرپور شخص کو بھی خودکشی کا قانونی حق مل جائے گا۔۔ انسانی آزادیوں کے ارتقا کا عمل جاری ہے۔۔
حق خود کشی سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ بہت میل کھاتا ہے ریٹایرڈ حضرات جو کہ زندگی میں غیر پیداواری بن چکے ہوں اور جن کی بیماری ور دوائیوں پر بجٹ کی کثیر رقم خرچ ہوجاتی ہو تو انکو ایک وقت میں رضا کارانہ طور پر رخصتی کی طرف مائل کرنے سے بجٹ میں کمی واقع ہوسکتی ہے دوسرا سکون کی موت فراہم کرنا بھی ایک دلچسپ کاروباری آئیڈیا ہوسکتا ہے کہ
“ہمارا ٹیکہ استعمال کریں سکنڈوں میں میٹھی نیند سوجایں ”
حق خود کشی میں قباحت اسکے مجرمانہ استعمال کے امکانات ہیں میرے خیال میں جیسے جیسے اس پہلو پر گرفت بہتر ہوگی دنیا میں قانونی خود کشیاں عام ہوتی چلی جایں گی- thumb_up 1
- thumb_up Zinda Rood liked this post
30 Oct, 2018 at 3:46 pm #84حق خود کشی سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ بہت میل کھاتا ہے ریٹایرڈ حضرات جو کہ زندگی میں غیر پیداواری بن چکے ہوں اور جن کی بیماری ور دوائیوں پر بجٹ کی کثیر رقم خرچ ہوجاتی ہو تو انکو ایک وقت میں رضا کارانہ طور پر رخصتی کی طرف مائل کرنے سے بجٹ میں کمی واقع ہوسکتی ہے دوسرا سکون کی موت فراہم کرنا بھی ایک دلچسپ کاروباری آئیڈیا ہوسکتا ہے کہ “ہمارا ٹیکہ استعمال کریں سکنڈوں میں میٹھی نیند سوجایں ” حق خود کشی میں قباحت اسکے مجرمانہ استعمال کے امکانات ہیں میرے خیال میں جیسے جیسے اس پہلو پر گرفت بہتر ہوگی دنیا میں قانونی خود کشیاں عام ہوتی چلی جایں گیمیرا نہیں خیال کہ یہ سوچ یا خیال اتنا سیدھا ہے۔ اگر کبھی ایسا ہوا تو یہ صرف خود کشی کرنے والے فرد/افراد کی سوچ/اختیار/خودغرضی کا ہی مسئلہ نہیں ہو گا بلکہ اس معاشرے کی خود غرضی کی بھی داستان ہو گی اور زندگی جن چند بنیادی اصولوں/ستونوں پر استوار ہے ان میں سے ایک کا گر جانا بہت دیر اس کائنات میں زندگی کو سنبھالا نہیں دے سکے گا
30 Oct, 2018 at 4:04 pm #85لوگ خود کشی دین اسلام سے دوری کی وجہ سے کرتے ہیں
.
خود کشی تو دور کی بات ہے تمام کے تمام دماغی و جسمانی امراض کا تعلق دین اسلام سے دوری کی وجہ سے ہے
.- thumb_up 1 mood 2
- thumb_up shami11 liked this post
- mood GeoG, BlackSheep react this post
30 Oct, 2018 at 4:48 pm #86لوگ خود کشی دین اسلام سے دوری کی وجہ سے کرتے ہیں . خود کشی تو دور کی بات ہے تمام کے تمام دماغی و جسمانی امراض کا تعلق دین اسلام سے دوری کی وجہ سے ہے .پھر کافر تو ہر وقت سارے بیمار ہی ہونے چاہیئں
- mood 1
- mood Zinda Rood react this post
30 Oct, 2018 at 5:31 pm #87جی گنوائیے ۔ ۔ ۔ ۔ اردو میں دیجئے گا، پھر بات کرتے ہیںکوئی بھی انسان یا گروہ کسی معاملے میں اپنے لئے قانونی تحفظ کا مطالبہ اس لئے کرتے ہیں تاکہ انہیں آسانی میسر ہوسکے، ان کی زندگی آسان ہوسکے، یہاں میں یہ حق موت کو آسان کرنے کے لئے مانگ رہا ہوں۔۔ بہت سے لوگ خودکشی کرنا چاہتے ہیں، لیکن انہیں خودکشی کا کوئی مناسب طریقہ دستیاب نہیں ہوپاتا۔ پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں لوگ خودکشی کے لئے جو طریقے استعمال کرتے ہیں وہ بہت بھیانک اور تکلیف دہ ہیں۔ زیادہ تر لوگ گلے میں رسہ ڈال کر لٹک جاتے ہیں جو کہ بہت سی وجوہات کی بنا پر کافی سے زیادہ اذیت ناک بن جاتا ہے۔ ایک تو وہ کسی عام سے کپڑے کو بطور رسہ استعمال کرتے ہیں اور پھر اس کی گانٹھ بھی صحیح طریقے سے نہیں باندھتے، جیلوں میں پھانسی کے پھندے میں جو گانٹھ باندھی جاتی ہے، وہ ایک خاص طریقے سے باندھی جاتی ہے تاکہ وہ آسانی کے ساتھ پھسل کر وزن کے حساب سے گلے کوگھونٹ سکے، جلاد کے پاس اس گانٹھ کو ٹیڑھا کرنے کا طریقہ بھی ہوتا ہے، اگر وہ چاہے کہ ملزم کو زیادہ تکلیف ہوتو وہ اس گانٹھ کو ٹیڑھا کرکے یہ مقصد سرانجام دے سکتا ہے۔ کہنے کا مقصد ہے کہ پھندے میں گانٹھ کا کردار بہت اہم ہے۔ گھروں میں یونہی کپڑے کا پھندا بنا کر خودکشی کرنے والے یہ گانٹھ یونہی باندھ دیتے ہیں اور پھر انہیں مرتے وقت بہت اذیت جھیلنی پڑتی۔ اور پھر وہ اپنے وجود کے ساتھ کوئی وزن بھی نہیں باندھتے، جیلوں میں ملزم کے وجود کے ساتھ وزن باندھ دیا جاتا ہے تاکہ جب نیچے سے تختہ کھینچا جائے تو وزن کی وجہ سے جھٹکا لگ کر گردن کا منکا ٹوٹ جائے اور وہ جلد اذیت سے نجات پائے۔ گھریلو خودکشی میں یہ بھی نہیں ہوتا، اور خودکشی کرنے والے کو اپنے وزن کے حساب سے پھندے پر جھولنا پڑتا ہے اور جن کا وزن کم ہوتا ہے وہ تو بہت دیر تک جھولتے رہتے ہیں تب جا کر ان کی جان نکلتی ہے۔
پھندے کے علاوہ زہر کھاکر خودکشی کرنے کا رواج بھی عام ہے اور پاکستان جیسے ممالک میں زہر بھی تو خالص نہیں ملتا، پوٹاشیم سائنائڈ وغیرہ ویسے ہی عوام کی رسائی سے دور ہے، آجاکر لوگ چوہے مارنے والی دوا یا پھر گندم میں رکھنے والی گولیاں خرید لیتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کئی دن تک ہسپتال میں اذیت جھیلنے کے بعد جاکر ان کی مکتی ہوتی ہے اور کچھ بدنصیب تو بچ بھی جاتے ہیں۔ کچھ لوگ پانی میں کود کر یا ٹرین کے آگے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلیتے ہیں، انہیں بھی کافی بھیانک موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک اور طریقہ ہے یعنی ہاتھ کی کلائی کاٹ لینا، یہ بھی معقول طریقہ نہیں ہے، ہاتھ کی کلائی کاٹنے کے بعد سے لے کر دماغ کے بند ہونے تک نہ صرف جسمانی درد بلکہ دماغی کرب بھی سہنا پڑتا ہے۔ فی الحال میرےخیال میں خودکشی کا جو سب سے مناسب طریقہ ہے جو بہت سے لوگ استعمال بھی کرتے ہیں، وہ یہ کہ پسٹل اٹھا کر سر پر رکھیں اور گولی داغ دیں، اسی وقت دماغ کا فالودہ اور قصہ ختم۔۔ لیکن اس میں بھی انسان کو پہلے نشانہ بہتر کرنے کی پریکٹس کرلینی چاہئے اور آئینے کے سامنے بیٹھ کر سر، کنپٹی پر دماغ کی درست سمت میں پستول کی نال رکھنے کی بھی مشق کرنی چاہیے کیونکہ کافی عرصہ پہلے ایک شخص نے خودکشی کی کوشش میں دماغ کی بجائے اپنا چہرہ اڑا لیا تھا، وہ مرنے سے بچ گیا اور اس کے بعد کئی سال تک اس کے چہرے کی ان گنت سرجریز ہوتی رہیں اور آخر جاکر مصنوعی قسم کا چہرہ چسپاں کردیا گیا۔
یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے سامنے واضح ہوسکے کہ خودکشی کرنے والوں کے کیا کیا مسائل ہیں اور اگر کوئی خودکشی کرنا چاہے تو اس کے پاس کوئی مناسب طریقہ میسر نہیں۔ موت کا ڈر ایک فطری چیز ہے اور اس قسم کی موتیں اس کو مزید خوفناک بنادیتی ہیں۔ موت کا سہل طریقہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ زندگی کا بوجھ اٹھائے پھرتے رہتے ہیں اور آج کل کرتے رہتے ہیں اور موت کو گلے لگانے کی ہمت نہیں کرپاتے۔ اگر خودکشی کو ہر انسان کا قانونی حق مان لیا جائے تو اس سے ایک نئی انڈسٹری جنم لے گی۔ سوئی سائیڈ انڈسٹری۔ جگہ جگہ سوئی سائیڈ کلینک کھل جائیں گے جو خودکشی پر مائل لوگوں کو پرکشش پیکجز کی آفر کریں گے اور انہیں آسان موت فراہم کریں گے۔ اور جب یہ ایک کامن پریکٹس ہوجائے گی تو ایک خاص وقت کے بعد لوگوں کے دل سے موت کا خوف یونہی نکل جائے گا اور جو لوگ خودکشی نہیں کرنا چاہتے وہ بھی جب اپنی عمر کے اس حصے میں پہنچیں گے جب انہیں لگے گا کہ انہیں اب مزید زندہ رہنے کی ضرورت نہیں تو آسانی سے جاکر کسی سوئی سائیڈ کلینک میں لیٹ جائیں گے اور زندگی سے نجات پائیں گے۔یہ اولڈ ہومز میں کتنے لوگ زندگی سے بیزار زبردستی جی رہے ہیں۔ انہوں نے تو چلو اپنی زندگی گزار لی ہوتی ہے پر بہت سے جوان لوگ بھی اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر زندہ رہنا نہیں چاہتے، ان کے لئے بھی یہ آسان راستہ ہے۔۔
ایک اور موضوع جو میرے لئے کافی اہم ہے اور برمحل بھی ہے، وہ یہ کہ انسانیت کو دکھوں سے نجات آخر کس طرح دلائی جاسکتی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایدھی، مدرٹریسا جیسے لوگ انسانیت کو دکھوں سے نجات دلاتے ہیں، میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ ایدھی اور مدرٹریسا جیسے لوگ یقیناً بہت اچھا کام کرتے ہیں ، ایسے اور لوگ بھی ہونے چاہئیں، لیکن میں اس بات سے اختلاف کرتا ہوں کہ ان کی کوششوں سے انسانوں کی اذیت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے، میری رائے میں انسان اور دکھ تکلیف اذیت لازم و ملزوم ہیں، دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ میری دانست میں انسانیت کی سب سے بہترین خدمت یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کو اس دنیا میں جنم لینے سے روکا جائے۔ زبردستی نہیں، لوگوں کو قائل کرکے۔ لوگوں میں شعور بیدار کیا جائے کہ تم یہ جو بچے پیدا کرتے ہو، یہ ان بچوں پر اور پوری انسانیت پر ظلم ہے۔ اس لئے اس کام سے باز رہو۔ اور دوسری طرف لوگوں کو خودکشی میں آسانی مہیا کرکے جلد از جلد اور سہل انداز میں اس دنیا سے رخصت ہونے کی طرف مائل کیا جائے۔۔ اس سے بڑھ کر انسانیت کی خدمت ہونہیں سکتی۔۔ آخر انسان اس دھرتی پر کرکیا رہا ہے، بے مقصد خوار ہی تو ہورہا ہے۔اس بے مقصد خواری سے نجات ہی انسانیت کی نجات ہے۔
30 Oct, 2018 at 5:35 pm #88حق خود کشی سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ بہت میل کھاتا ہے ریٹایرڈ حضرات جو کہ زندگی میں غیر پیداواری بن چکے ہوں اور جن کی بیماری ور دوائیوں پر بجٹ کی کثیر رقم خرچ ہوجاتی ہو تو انکو ایک وقت میں رضا کارانہ طور پر رخصتی کی طرف مائل کرنے سے بجٹ میں کمی واقع ہوسکتی ہے دوسرا سکون کی موت فراہم کرنا بھی ایک دلچسپ کاروباری آئیڈیا ہوسکتا ہے کہ “ہمارا ٹیکہ استعمال کریں سکنڈوں میں میٹھی نیند سوجایں ” حق خود کشی میں قباحت اسکے مجرمانہ استعمال کے امکانات ہیں میرے خیال میں جیسے جیسے اس پہلو پر گرفت بہتر ہوگی دنیا میں قانونی خود کشیاں عام ہوتی چلی جایں گیویسے یہ سوشلزم / کمیونزم کے بھی کافی مفاد میں ہے۔۔
حقِ خودکشی کے مجرمانہ استعمال کو روکنے کے لئے بہت سے طریقے استعمال کئے جاسکتے ہیں، جیسا کہ گرفتار کرنے کے لئے وارنٹ کی ضرورت ہوتی ہے، ایسے ہی اگر خودکشی کرنے والے کو بھی جج وارنٹ جاری کرے اور خودکشی کرنے والا بذات خود یا اپنے وکیل کے ساتھ جج کے سامنے پیش ہو اور اس کو بتایئے کہ وہ بغیر کسی پریشر کے اپنی رضا و رغبت سے خودکشی کرنا چاہتا ہے، مزید تسلی کے لئے جج کو خودکشی کرنے والے سے اکیلے میں ملاقات بھی کرنی چاہیے تاکہ اگر کوئی اس پر پریشر ڈال رہا ہے یا اس کو بلیک میل کررہا ہے تو وہ جج کو بتاسکے۔ تمام تسلی کرنے کے بعد ہی جج خودکشی کا اجازت نامہ جاری کرے۔۔ اور بھی بہت سے طریقے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے وقت میں انسان خود کو موت کا حق دے گا اور یہ کوئی ٹیبو نہیں رہے گا، خودکشی کی بجائے کوئی اچھی اصطلاح بھی معروف ہوجائے گی۔۔۔ جیسا کہ حق ِموت۔۔ فلاں نے اپنا حقِ موت استعمال کرلیا۔۔
- This reply was modified 53 years, 5 months ago by .
30 Oct, 2018 at 10:24 pm #90کوئی بھی انسان یا گروہ کسی معاملے میں اپنے لئے قانونی تحفظ کا مطالبہ اس لئے کرتے ہیں تاکہ انہیں آسانی میسر ہوسکے، ان کی زندگی آسان ہوسکے، یہاں میں یہ حق موت کو آسان کرنے کے لئے مانگ رہا ہوں۔۔ بہت سے لوگ خودکشی کرنا چاہتے ہیں، لیکن انہیں خودکشی کا کوئی مناسب طریقہ دستیاب نہیں ہوپاتا۔ پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں لوگ خودکشی کے لئے جو طریقے استعمال کرتے ہیں وہ بہت بھیانک اور تکلیف دہ ہیں۔ زیادہ تر لوگ گلے میں رسہ ڈال کر لٹک جاتے ہیں جو کہ بہت سی وجوہات کی بنا پر کافی سے زیادہ اذیت ناک بن جاتا ہے۔ ایک تو وہ کسی عام سے کپڑے کو بطور رسہ استعمال کرتے ہیں اور پھر اس کی گانٹھ بھی صحیح طریقے سے نہیں باندھتے، جیلوں میں پھانسی کے پھندے میں جو گانٹھ باندھی جاتی ہے، وہ ایک خاص طریقے سے باندھی جاتی ہے تاکہ وہ آسانی کے ساتھ پھسل کر وزن کے حساب سے گلے کوگھونٹ سکے، جلاد کے پاس اس گانٹھ کو ٹیڑھا کرنے کا طریقہ بھی ہوتا ہے، اگر وہ چاہے کہ ملزم کو زیادہ تکلیف ہوتو وہ اس گانٹھ کو ٹیڑھا کرکے یہ مقصد سرانجام دے سکتا ہے۔ کہنے کا مقصد ہے کہ پھندے میں گانٹھ کا کردار بہت اہم ہے۔ گھروں میں یونہی کپڑے کا پھندا بنا کر خودکشی کرنے والے یہ گانٹھ یونہی باندھ دیتے ہیں اور پھر انہیں مرتے وقت بہت اذیت جھیلنی پڑتی۔ اور پھر وہ اپنے وجود کے ساتھ کوئی وزن بھی نہیں باندھتے، جیلوں میں ملزم کے وجود کے ساتھ وزن باندھ دیا جاتا ہے تاکہ جب نیچے سے تختہ کھینچا جائے تو وزن کی وجہ سے جھٹکا لگ کر گردن کا منکا ٹوٹ جائے اور وہ جلد اذیت سے نجات پائے۔ گھریلو خودکشی میں یہ بھی نہیں ہوتا، اور خودکشی کرنے والے کو اپنے وزن کے حساب سے پھندے پر جھولنا پڑتا ہے اور جن کا وزن کم ہوتا ہے وہ تو بہت دیر تک جھولتے رہتے ہیں تب جا کر ان کی جان نکلتی ہے۔
پھندے کے علاوہ زہر کھاکر خودکشی کرنے کا رواج بھی عام ہے اور پاکستان جیسے ممالک میں زہر بھی تو خالص نہیں ملتا، پوٹاشیم سائنائڈ وغیرہ ویسے ہی عوام کی رسائی سے دور ہے، آجاکر لوگ چوہے مارنے والی دوا یا پھر گندم میں رکھنے والی گولیاں خرید لیتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کئی دن تک ہسپتال میں اذیت جھیلنے کے بعد جاکر ان کی مکتی ہوتی ہے اور کچھ بدنصیب تو بچ بھی جاتے ہیں۔ کچھ لوگ پانی میں کود کر یا ٹرین کے آگے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلیتے ہیں، انہیں بھی کافی بھیانک موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک اور طریقہ ہے یعنی ہاتھ کی کلائی کاٹ لینا، یہ بھی معقول طریقہ نہیں ہے، ہاتھ کی کلائی کاٹنے کے بعد سے لے کر دماغ کے بند ہونے تک نہ صرف جسمانی درد بلکہ دماغی کرب بھی سہنا پڑتا ہے۔ فی الحال میرےخیال میں خودکشی کا جو سب سے مناسب طریقہ ہے جو بہت سے لوگ استعمال بھی کرتے ہیں، وہ یہ کہ پسٹل اٹھا کر سر پر رکھیں اور گولی داغ دیں، اسی وقت دماغ کا فالودہ اور قصہ ختم۔۔ لیکن اس میں بھی انسان کو پہلے نشانہ بہتر کرنے کی پریکٹس کرلینی چاہئے اور آئینے کے سامنے بیٹھ کر سر، کنپٹی پر دماغ کی درست سمت میں پستول کی نال رکھنے کی بھی مشق کرنی چاہیے کیونکہ کافی عرصہ پہلے ایک شخص نے خودکشی کی کوشش میں دماغ کی بجائے اپنا چہرہ اڑا لیا تھا، وہ مرنے سے بچ گیا اور اس کے بعد کئی سال تک اس کے چہرے کی ان گنت سرجریز ہوتی رہیں اور آخر جاکر مصنوعی قسم کا چہرہ چسپاں کردیا گیا۔
یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے سامنے واضح ہوسکے کہ خودکشی کرنے والوں کے کیا کیا مسائل ہیں اور اگر کوئی خودکشی کرنا چاہے تو اس کے پاس کوئی مناسب طریقہ میسر نہیں۔ موت کا ڈر ایک فطری چیز ہے اور اس قسم کی موتیں اس کو مزید خوفناک بنادیتی ہیں۔ موت کا سہل طریقہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ زندگی کا بوجھ اٹھائے پھرتے رہتے ہیں اور آج کل کرتے رہتے ہیں اور موت کو گلے لگانے کی ہمت نہیں کرپاتے۔ اگر خودکشی کو ہر انسان کا قانونی حق مان لیا جائے تو اس سے ایک نئی انڈسٹری جنم لے گی۔ سوئی سائیڈ انڈسٹری۔ جگہ جگہ سوئی سائیڈ کلینک کھل جائیں گے جو خودکشی پر مائل لوگوں کو پرکشش پیکجز کی آفر کریں گے اور انہیں آسان موت فراہم کریں گے۔ اور جب یہ ایک کامن پریکٹس ہوجائے گی تو ایک خاص وقت کے بعد لوگوں کے دل سے موت کا خوف یونہی نکل جائے گا اور جو لوگ خودکشی نہیں کرنا چاہتے وہ بھی جب اپنی عمر کے اس حصے میں پہنچیں گے جب انہیں لگے گا کہ انہیں اب مزید زندہ رہنے کی ضرورت نہیں تو آسانی سے جاکر کسی سوئی سائیڈ کلینک میں لیٹ جائیں گے اور زندگی سے نجات پائیں گے۔یہ اولڈ ہومز میں کتنے لوگ زندگی سے بیزار زبردستی جی رہے ہیں۔ انہوں نے تو چلو اپنی زندگی گزار لی ہوتی ہے پر بہت سے جوان لوگ بھی اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر زندہ رہنا نہیں چاہتے، ان کے لئے بھی یہ آسان راستہ ہے۔۔
ایک اور موضوع جو میرے لئے کافی اہم ہے اور برمحل بھی ہے، وہ یہ کہ انسانیت کو دکھوں سے نجات آخر کس طرح دلائی جاسکتی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایدھی، مدرٹریسا جیسے لوگ انسانیت کو دکھوں سے نجات دلاتے ہیں، میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ ایدھی اور مدرٹریسا جیسے لوگ یقیناً بہت اچھا کام کرتے ہیں ، ایسے اور لوگ بھی ہونے چاہئیں، لیکن میں اس بات سے اختلاف کرتا ہوں کہ ان کی کوششوں سے انسانوں کی اذیت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے، میری رائے میں انسان اور دکھ تکلیف اذیت لازم و ملزوم ہیں، دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ میری دانست میں انسانیت کی سب سے بہترین خدمت یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کو اس دنیا میں جنم لینے سے روکا جائے۔ زبردستی نہیں، لوگوں کو قائل کرکے۔ لوگوں میں شعور بیدار کیا جائے کہ تم یہ جو بچے پیدا کرتے ہو، یہ ان بچوں پر اور پوری انسانیت پر ظلم ہے۔ اس لئے اس کام سے باز رہو۔ اور دوسری طرف لوگوں کو خودکشی میں آسانی مہیا کرکے جلد از جلد اور سہل انداز میں اس دنیا سے رخصت ہونے کی طرف مائل کیا جائے۔۔ اس سے بڑھ کر انسانیت کی خدمت ہونہیں سکتی۔۔ آخر انسان اس دھرتی پر کرکیا رہا ہے، بے مقصد خوار ہی تو ہورہا ہے۔اس بے مقصد خواری سے نجات ہی انسانیت کی نجات ہے۔
لب لباب اس مقالے کا یہ نکلا کہ خود کشی پر ‘مائل’ شخص کو ایک گاہک مان کر ایک صنعت وجود میں لائی جائے اور وہ خودکشی کے کام کو آسان بنائے
اس مقدمے کے ساتھ دو مسائل ہیں: ایک، کسی وجہ سے خودکشی کا فیصلہ، معذور افراد کو چھوڑ کر، ایک لمحاتی فیصلہ ہوتا ہے، اگر اس مجوزہ صنعت نے اپنی ترقی کیلئے ایسوں پر انحصار کیا تو دوکان کھلنے سے پہلے ہی بند۔ معذور لوگوں میں شائد اس تجویز کی کسی حد تک پذیرائی ہو وہ بھی ان معاشروں میں جہاں ننگی سرمایہ داری (کی پیدا کردہ بے لگام ہوس) اخلاقیات کا جنازہ نکال رہی ہے۔
دو، آپ نے پچھلے بیان میں مراعات کا لفظ استعمال کیا تھا، مراعت کا لفظ زندگی میں کشش کے ساتھ مخصوص ہے، زندگی میں کشش نہیں، تو ثواب کیا، اور عذاب کیا
اس نکتے پر مجھے اب آپ سے اور بحث نہیں کرنی، آپ کو کوئی مزید وضاحت کرنی ہے تو کر سکتے ہیں
- This reply was modified 53 years, 5 months ago by .
30 Oct, 2018 at 10:31 pm #91اس کا جواب میں یہاں دے چکا ہوں۔۔۔
وہاں آپ نے یہ لکھا ہے: جب اس پوری کائنات کا ہی کوئی مقصد نہیں تو انسان بے چارہ کہاں سے کھود کر مقصد نکالے۔۔۔
جب کہ میری دلچسپی آپ کی ذاتی مقصد، ذاتی زندگی کے ذاتی مقصد میں ہے جو میں اپنے جملے وضاحت سے لکھ نہ پایا۔ تو زندہ رود عرف مرتضٰی کی زندگی کا ماضی میں، آجکل اور مستقبل میں یعنی 5-10 بعد کیا مقصد تھا/ہے/ہو گا؟؟
31 Oct, 2018 at 12:52 pm #92لب لباب اس مقالے کا یہ نکلا کہ خود کشی پر ‘مائل’ شخص کو ایک گاہک مان کر ایک صنعت وجود میں لائی جائے اور وہ خودکشی کے کام کو آسان بنائے اس مقدمے کے ساتھ دو مسائل ہیں: ایک، کسی وجہ سے خودکشی کا فیصلہ، معذور افراد کو چھوڑ کر، ایک لمحاتی فیصلہ ہوتا ہے، اگر اس مجوزہ صنعت نے اپنی ترقی کیلئے ایسوں پر انحصار کیا تو دوکان کھلنے سے پہلے ہی بند۔ معذور لوگوں میں شائد اس تجویز کی کسی حد تک پذیرائی ہو وہ بھی ان معاشروں میں جہاں ننگی سرمایہ داری (کی پیدا کردہ بے لگام ہوس) اخلاقیات کا جنازہ نکال رہی ہے۔ دو، آپ نے پچھلے بیان میں مراعات کا لفظ استعمال کیا تھا، مراعت کا لفظ زندگی میں کشش کے ساتھ مخصوص ہے، زندگی میں کشش نہیں، تو ثواب کیا، اور عذاب کیا اس نکتے پر مجھے اب آپ سے اور بحث نہیں کرنی، آپ کو کوئی مزید وضاحت کرنی ہے تو کر سکتے ہیںصرف اتنا کہ بہت سوں کا خودکشی کا فیصلہ لمحاتی نہیں ہوتا، وہ زندگی کے کسی مرحلے پر فیصلہ کرچکے ہوتے ہیں کہ انہیں کیسے مرنا ہے اور بعد میں جاکر اس کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔ اور یہ صنعت بہت پھلے پھولے گی، آپ نہیں جانتے پرسکون موت میں بے وجہ زندگی سے کہیں زیادہ کشش ہے۔۔
- local_florist 1
- local_florist اَتھرا thanked this post
31 Oct, 2018 at 12:56 pm #93وہاں آپ نے یہ لکھا ہے: جب اس پوری کائنات کا ہی کوئی مقصد نہیں تو انسان بے چارہ کہاں سے کھود کر مقصد نکالے۔۔۔ جب کہ میری دلچسپی آپ کی ذاتی مقصد، ذاتی زندگی کے ذاتی مقصد میں ہے جو میں اپنے جملے وضاحت سے لکھ نہ پایا۔ تو زندہ رود عرف مرتضٰی کی زندگی کا ماضی میں، آجکل اور مستقبل میں یعنی 5-10 بعد کیا مقصد تھا/ہے/ہو گا؟؟اتھرا صاحب۔۔ نہ صرف میری زندگی بے مقصد ہے بلکہ آپ کی زندگی کا بھی کوئی مقصد نہیں، یہ الگ بات ہے کہ آپ خوش فہمی پال کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ آپ کی روح میں کوئی مقصد انسٹال کیا گیا ہے۔۔ کیا آپ نے اس انسٹالڈ مقصد کو ڈیٹیکٹ کرلیا ہے یا نہیں؟
31 Oct, 2018 at 3:51 pm #94اتھرا صاحب۔۔ نہ صرف میری زندگی بے مقصد ہے بلکہ آپ کی زندگی کا بھی کوئی مقصد نہیں، یہ الگ بات ہے کہ آپ خوش فہمی پال کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ آپ کی روح میں کوئی مقصد انسٹال کیا گیا ہے۔۔ کیا آپ نے اس انسٹالڈ مقصد کو ڈیٹیکٹ کرلیا ہے یا نہیں؟
آپ کے اس بیان میں سچ صرف اتنا سا جتنا نمایاں کیا گیا ہے، باقی حُسنِ سُوء یا خوش فہمی ہے جو آپ میرے ذات اندر تلاش کر رہے ہیں
سوچ اور احساس ہر انسان کا بہت ذاتی (سا مسئلہ) ہوتے ہیں، ہاں بیان اور عمل پر حکم لگایا جا سکتا ہے۔ جب ایسا ہے تو آپ کو میری خوش فہمی یا زندگی کی بے مقصدیت کا علم کیسے ہوا؟؟
جی ہاں دریافت کر لیا ہے اور وہ اس یقین/احساس کا ایک منطقی نتیجہ ہے کہ یہ زبدگی یا اسکا احساس اخری نہیں ہے، اسکے بعد بھی کچھ ہے، اور یہ وہی یقین ہے جو مجھے لئے لئے پھرتا ہے
1 Nov, 2018 at 2:12 pm #95جی ہاں دریافت کر لیا ہےیہ تو آپ کا بہت بڑی کامیابی ہے۔ ذرا ہمیں تو بھی اپنی اس دریافت سے آگاہ فرمایئے ، آخر آپ کے اس دھرتی پر وجود کا مقصد کیا ہے؟
اور وہ اس یقین/احساس کا ایک منطقی نتیجہ ہے کہ یہ زندگی یا اسکا احساس اخری نہیں ہے، اسکے بعد بھی کچھ ہے، اور یہ وہی یقین ہے جو مجھے لئے لئے پھرتا ہے
اور یہ یقین / احساس اس نونہال سیرپ کا نتیجہ ہے جو آپ کو بچپن سے پلایا جاتا رہا ہے یا پھر اس کی وجہ کوئی اور ہے؟ اگر وجہ کوئی اور ہے تو کیا ہے؟
- This reply was modified 53 years, 5 months ago by .
1 Nov, 2018 at 6:07 pm #96یہ تو آپ کا بہت بڑی کامیابی ہے۔ ذرا ہمیں تو بھی اپنی اس دریافت سے آگاہ فرمایئے ، آخر آپ کے اس دھرتی پر وجود کا مقصد کیا ہے؟
اور یہ یقین / احساس اس نونہال سیرپ کا نتیجہ ہے جو آپ کو بچپن سے پلایا جاتا رہا ہے یا پھر اس کی وجہ کوئی اور ہے؟ اگر وجہ کوئی اور ہے تو کیا ہے؟
اس نونہال سیرپ پر میں پوری غزل لکھ سکتا ہوں، لیکن خیر چھوڑو ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کو پتا نہیں کیوں شوق ہے دونوں کا وقت ضائع کرنے کا
انسان کی سوچ، ضروریات اور فراغت اس کے مقصد،/مقاصدِ زندگی کو تعین کرتے ہیں اور زندگی کے مختلف ادوار میں یہ مختلف ہوتے/ہو سکتے ہیں، تفصیل کیلئے میسلو کی ضروریاتِ زندگی کی درجہ بندی (میسلوز ہائیرآرکی آف نیڈز) کو نیٹ پر تلاش کر لو
میرے مقصدِ زندگی کا تھوڑا بہت عکس آپ کو یہاں میری تحریروں میں نظر آ جائے گا، جتنا میرا آپ سے تعلق ہے اس کے لئے وہ کافی ہے
1 Nov, 2018 at 7:29 pm #97اس نونہال سیرپ پر میں پوری غزل لکھ سکتا ہوں، لیکن خیر چھوڑو ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کو پتا نہیں کیوں شوق ہے دونوں کا وقت ضائع کرنے کا انسان کی سوچ، ضروریات اور فراغت اس کے مقصد،/مقاصدِ زندگی کو تعین کرتے ہیں اور زندگی کے مختلف ادوار میں یہ مختلف ہوتے/ہو سکتے ہیں، تفصیل کیلئے میسلو کی ضروریاتِ زندگی کی درجہ بندی (میسلوز ہائیرآرکی آف نیڈز) کو نیٹ پر تلاش کر لو میرے مقصدِ زندگی کا تھوڑا بہت عکس آپ کو یہاں میری تحریروں میں نظر آ جائے گا، جتنا میرا آپ سے تعلق ہے اس کے لئے وہ کافی ہےآپ سے ایک سیدھا سا سوال پوچھتا ہوں۔۔۔ اگر آپ کسی وجہ سے اس دنیا میں وارد نہ ہوتے تو کیا اس دنیا کو کچھ فرق پڑنا تھا؟
1 Nov, 2018 at 9:38 pm #98ویسے یہ سوشلزم / کمیونزم کے بھی کافی مفاد میں ہے۔۔
حقِ خودکشی کے مجرمانہ استعمال کو روکنے کے لئے بہت سے طریقے استعمال کئے جاسکتے ہیں، جیسا کہ گرفتار کرنے کے لئے وارنٹ کی ضرورت ہوتی ہے، ایسے ہی اگر خودکشی کرنے والے کو بھی جج وارنٹ جاری کرے اور خودکشی کرنے والا بذات خود یا اپنے وکیل کے ساتھ جج کے سامنے پیش ہو اور اس کو بتایئے کہ وہ بغیر کسی پریشر کے اپنی رضا و رغبت سے خودکشی کرنا چاہتا ہے، مزید تسلی کے لئے جج کو خودکشی کرنے والے سے اکیلے میں ملاقات بھی کرنی چاہیے تاکہ اگر کوئی اس پر پریشر ڈال رہا ہے یا اس کو بلیک میل کررہا ہے تو وہ جج کو بتاسکے۔ تمام تسلی کرنے کے بعد ہی جج خودکشی کا اجازت نامہ جاری کرے۔۔ اور بھی بہت سے طریقے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے وقت میں انسان خود کو موت کا حق دے گا اور یہ کوئی ٹیبو نہیں رہے گا، خودکشی کی بجائے کوئی اچھی اصطلاح بھی معروف ہوجائے گی۔۔۔ جیسا کہ حق ِموت۔۔ فلاں نے اپنا حقِ موت استعمال کرلیا۔۔
کیوں نہ یہ حقِ موت پہلے ٹرائل کے طور پر ایک چھوٹے طبقے کو دے کر دیکھا بھالا جائے کہ اس کے سوسائٹی پر کیا اثرات ہوتے ہیں۔
میری تجویز ہوگی کہ پہلا موقع ملحدوں کو دوسرا موقع مُلاؤں کو دیا جائے اور اس کے بعد یہ کہہ کر لامتناعی پابندی لگا دی جائے کہ اب دنیا میں اس کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ اس پراجیکٹ کا نام آپریشن گرینڈ کلین اپ رکھ دیا جائے۔- This reply was modified 53 years, 5 months ago by .
- mood 2
- mood BlackSheep, Zinda Rood react this post
2 Nov, 2018 at 12:41 am #99آپ سے ایک سیدھا سا سوال پوچھتا ہوں۔۔۔ اگر آپ کسی وجہ سے اس دنیا میں وارد نہ ہوتے تو کیا اس دنیا کو کچھ فرق پڑنا تھا؟
مبنی بر مفروصہ (ہائپوتھیٹیکل) سوال کی بھی کوئی حد، کوئی تُک ہوتی ہے یار
- This reply was modified 53 years, 5 months ago by .
- mood 1
- mood Zinda Rood react this post
2 Nov, 2018 at 11:31 am #100مبنی بر مفروصہ (ہائپوتھیٹیکل) سوال کی بھی کوئی حد، کوئی تُک ہوتی ہے یار
ہاہاہا۔۔۔ پھر بھی ذرا سوچنے کی کوشش تو کیجئے۔۔۔
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.