- This topic has 10 replies, 4 voices, and was last updated 2 years, 6 months ago by
Zaidi. This post has been viewed 546 times
-
AuthorPosts
-
21 Nov, 2020 at 4:24 am #1
مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے بانی خادم حسین رضوی 55 سال کی عمر میں پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں وفات پا گئے ہیں۔
جماعت کے ترجمان قاری زبیر نے بی بی سی کے اعظم خان کو بتایا ہے کہ ان کے وفات کی وجہ فی الحال معلوم نہیں ہے۔ ان کے مطابق گذشتہ چند روز سے خادم رضوی کی طبیعت خراب تھی۔
بریلوی سوچ کے حامل خادم رضوی اپنے سخت اندازِ بیان کے ساتھ سنہ 2017 کے دوران پاکستان میں توہین رسالت کے متنازع قانون کے ایک بڑے حامی بن کر سامنے آئے تھے۔
لاہور میں شیخ زید ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر اکبر حسین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ رات 8 بج کر 48 منٹ پر خادم رضوی کو مردہ حالت میں ہسپتال کے ایمرجنسی وراڈ لیا گیا تھا اور اس سے قبل وہ یہاں زیر علاج نہیں تھے۔
ڈاکٹر اکبر حسین کے مطابق کسی کو مردہ حالت میں لائے جانے کی صورت میں ہسپتال موت کی وجہ کا تعین نہیں کرسکتا۔
تحریک لبیک کی جانب سے جاری پیغام میں بتایا گیا ہے کہ خادم رضوی کی نمازِ جنازہ سنیچر کی صبح 10 بجے مینارِ پاکستان لاہور میں ادا کی جائے گی۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر خادم رضوری کے خاندان سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے خادم حسین کی موت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
چند روز قبل انھیں میڈیا پر اس وقت دیکھا گیا تھا جب ان کی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے کے لیے ریلی نکالی اور مظاہرے کے بعد فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا تھا۔
بعد ازاں پاکستان کی وفاقی حکومت اور انتظامیہ نے تحریک لبیک کے سربراہ کے ساتھ ’کامیاب مذاکرات‘ کیے اور چار نکاتی معاہدے پر اتفاق ہوا۔
مذاکرات کی کامیابی کے چند گھنٹوں بعد اس دھرنے کو ختم کر دیا گیا تھا۔
مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک کے بانی خادم حسین رضوی کے بارے میں چند برس پہلے تک کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا۔ پھر نومبر 2017 میں انھوں نے ایک ریلی کی قیادت کرتے ہوئے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد پر دھرنا دیا۔ تین برس بعد نومبر 2020 میں ایک مرتبہ پھر ان کی جماعت کے کارکنوں نے اسی مقام پر دھرنا دیا ہے۔
بریلوی سوچ کے حامل خادم حسین رضوی کو ممتاز قادری کے حق میں کھل کر بولنے کی وجہ سے پنجاب کے محکمۂ اوقاف سے فارغ کر دیا گیا تھا جس کے بعد انھوں نے ستمبر 2017 میں تحریک کی بنیاد رکھی اور اسی برس ستمبر میں این اے 120 لاہور میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں سات ہزار ووٹ حاصل کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔
ویل چیئر تک محدود ہونے کے باوجود خادم حسین رضوی پاکستان میں توہین رسالت کے متنازع قانون کے ایک بڑے حامی بن کر سامنے آئے۔ وہ اس قانون کے غلط استعمال کے الزام سے بھی متفق نہیں۔
ان کا انداز بیان کافی سخت ہوتا ہے۔ پاکستانی میڈیا کی جانب سے کوریج نہ ملنے کا حل بظاہر انھوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کر کے نکالا۔ ناصرف اردو اور انگریزی میں ان کی ویب سائٹس بنائی گئیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی کئی اکاؤنٹ بنے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنے سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس فائز عیسی نے کہا تھا کہ ’اربوں کی پراپرٹی تباہ کردی گئی ہے اور ’پریمیئر‘ انٹیلی جنس ایجنسی کو معلوم ہی نہیں کہ خادم رضوی کیا کرتا ہے۔
محکمہ دفاع کے نمائندے کرنل فلک ناز نے عدالت کو بتایا تھا کہ خادم حسین رضوی خطیب ہیں اور ان کی سیاسی جماعت ہے جو چندے سے چلتی ہے۔
اسلام آباد میں انسداد دہشتگری عدالت نے فیض آباد دھرنا کیس میں ان کی گرفتاری کا حکم دیا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں وہ ضمانت پر رہا ہوگئے تھے۔21 Nov, 2020 at 5:05 pm #5Huge gathering at Minar e Pakistan Lahore for the funeral of Allama Khadim Hussain Rizvi majority of people here are without masks media must play a role and request public to at least wear a mask to prevent #COVID19 pic.twitter.com/YhwI0QAtAX
— Hamid Mir (@HamidMirPAK) November 21, 2020
21 Nov, 2020 at 10:27 pm #6ایک سازشی تھیوری گردش میں ہے کہ رضوی صاحب کو جنہوں نے لایا انہوں نے ہی مروایا – دو چیزوں سے اس تھیوری کو تقویت ملتی ہے – ایک تو مولانا صاحب استعمال ہو چکے اور آگے کے لئے کار آمد نہیں تھے -اب وہ انتظامیہ کے لئے دھرنے کر کر کے درد سر بنتے جا رہے تھے – کون نہیں جانتا مولانا صاحب اور ان کی پارٹی کو نواز کا ووٹ توڑنے کے لئے لانچ کیا گیا تھا اور انہوں نے بیس لاکھ ووٹ لے کر یہ فرض بخوبی انجام دیا – دوسری بات یہ ہے کہ مولانا کی بیماری اور موت کافی مشکوک ہے نہ ان کی بیماری اور نہ موت کی وجہ کے بارے میں کچھ زیادہ باہر آ رہا ہے – اگر کرونا کی وجہ سے موت ہوئی تو کرونا اتنی تیزی سے اٹیک نہیں کرتا کہ بندہ دو چار دن میں مر ہی جائے – اگر ہارٹ اٹیک یا دل بند ہونے سے موت ہوئی ہے تو اس کا واضح طور پر بتایا جائے اور ڈاکٹر کا بھی ریفرنس دیا جائے کس نے یہ وجہ قرار دی – مولانا بہت مقبول لیڈر تھے ان کے جنازے میں کم از کم دو لاکھ لوگ شریک تھے – میں نہیں کہتا کہہ یہ سازشی تھیوری درست ہے مگر جو ہمارے اداروں کا ریکارڈ ہے ان سے کچھ بھید نہیں ہے وہ ایسا کر بھی سکتے ہیں –- thumb_up 1
- thumb_up Zaidi liked this post
22 Nov, 2020 at 5:56 pm #9ایک سازشی تھیوری گردش میں ہے کہ رضوی صاحب کو جنہوں نے لایا انہوں نے ہی مروایا – دو چیزوں سے اس تھیوری کو تقویت ملتی ہے – ایک تو مولانا صاحب استعمال ہو چکے اور آگے کے لئے کار آمد نہیں تھے -اب وہ انتظامیہ کے لئے دھرنے کر کر کے درد سر بنتے جا رہے تھے – کون نہیں جانتا مولانا صاحب اور ان کی پارٹی کو نواز کا ووٹ توڑنے کے لئے لانچ کیا گیا تھا اور انہوں نے بیس لاکھ ووٹ لے کر یہ فرض بخوبی انجام دیا – دوسری بات یہ ہے کہ مولانا کی بیماری اور موت کافی مشکوک ہے نہ ان کی بیماری اور نہ موت کی وجہ کے بارے میں کچھ زیادہ باہر آ رہا ہے – اگر کرونا کی وجہ سے موت ہوئی تو کرونا اتنی تیزی سے اٹیک نہیں کرتا کہ بندہ دو چار دن میں مر ہی جائے – اگر ہارٹ اٹیک یا دل بند ہونے سے موت ہوئی ہے تو اس کا واضح طور پر بتایا جائے اور ڈاکٹر کا بھی ریفرنس دیا جائے کس نے یہ وجہ قرار دی – مولانا بہت مقبول لیڈر تھے ان کے جنازے میں کم از کم دو لاکھ لوگ شریک تھے – میں نہیں کہتا کہہ یہ سازشی تھیوری درست ہے مگر جو ہمارے اداروں کا ریکارڈ ہے ان سے کچھ بھید نہیں ہے وہ ایسا کر بھی سکتے ہیں –اعوان صاحب، ان پتلیوں میں سوائے بانسری پر ناچنے کے علاوہ کوئ چارہ نہیں بچتا ۔ موجودہ
حکومت اس کی واضح مثال ہے ۔ جتنی اسپیس ان کٹھ پتلیوں نے موجودہ پھوجیوں کو فراہم کی ہے اس کا تصور کوئ بھی نہیں کرسکتا تھا ۔ یہ ھر مقام سے پیچھے ہٹے ہیں اور آج ہر حکومتی شعبے میں پھوجیوں کا براہ راست دخل ہے ۔ جسکی پوچھل اٹھاؤ وہی مادہ ۔- local_florist 1
- local_florist Awan thanked this post
22 Nov, 2020 at 10:51 pm #10اعوان صاحب، ان پتلیوں میں سوائے بانسری پر ناچنے کے علاوہ کوئ چارہ نہیں بچتا ۔ موجودہ حکومت اس کی واضح مثال ہے ۔ جتنی اسپیس ان کٹھ پتلیوں نے موجودہ پھوجیوں کو فراہم کی ہے اس کا تصور کوئ بھی نہیں کرسکتا تھا ۔ یہ ھر مقام سے پیچھے ہٹے ہیں اور آج ہر حکومتی شعبے میں پھوجیوں کا براہ راست دخل ہے ۔ جسکی پوچھل اٹھاؤ وہی مادہ ۔
جی زیدی صاحب ایسا ہی ہے – اوپر ایک کٹ پتھلی حکمران اور نیچے ساری طاقت فوج کے پاس ، اس سے اچھی ڈیل ہماری فوج کو کیا مل سکتی ہے – ایسا کوئی کٹ پتھلی انہیں اگر پہلے ملتا تو کسی مارشل لاء کی ضرورت ہی نہیں تھی – مارشل لاء کی رسوائی کی کیا ضرورت ہے جب سول مارشل لاء میں سارے مقاصد پورے ہو رہے ہوں – آگے کے لئے بھی یہی سیٹ اپ چلانے کا پکا منصوبہ ہے اور اسے بھانپ کر ہی اپوزیشن اعتجاج کے راستے پر نکلی ہے – سندھ میں پیپلز پارٹی کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے یوں اسے اعتجاج میں اتنی دلچسبی لینے کی ضرورت نہیں تھی ، ان کے آگے بھی مرکزی حکومت ملنے کے کوئی چانس نہیں اور زیادہ سے زیادہ سندھ حکومت ہی دوبارہ مل سکتی ہے جو پہلے ہی ہے وہ پھر بھی حکومت گرانا چاہتے ہیں کیونکے انہیں سن گن مل گئی ہے کہ اگلے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو بھی سندھ سے صاف کیا جائے گا – وہاں کے الیکٹ ایبل اب کہہ رہے ہیں انہیں اشارہ مل چکا ہے مگر ایکشن کا ابھی حکم نہیں – یہی ساری پلاننگ اپنی جگہ مگر خان کی جو مقبولیت اب ہے اگر ایسی ہی اگلے الیکشن میں بھی رہی تو اسٹیبلشمنٹ چوٹی کا زور لگا کر بھی اسے دوبارہ منتخب نہیں کر پائے گی – انہیں یہ سب کچھ حکومت کے آخری سال میں نظر آ جائے گا اور پھر سے وہی پرانا کھیل دوبارہ دوہرایا جائے گا – ایک اور مسلم لیگ بنا کر اور ایک اور پٹھو اوپر بیٹھا کر اس ملک کے ساتھ ایک اور تجربہ کیا جائے گا – کاش پنجاب کی عوام سمجھ لے کہ ان کھیل تماشوں سے ہمیشہ کی طرح انہیں کچھ نہیں ملنا راج پھر سیلیکٹر اور سیلیکٹڈ نے ہی کرنا ہے –
22 Nov, 2020 at 11:56 pm #11جی زیدی صاحب ایسا ہی ہے – اوپر ایک کٹ پتھلی حکمران اور نیچے ساری طاقت فوج کے پاس ، اس سے اچھی ڈیل ہماری فوج کو کیا مل سکتی ہے – ایسا کوئی کٹ پتھلی انہیں اگر پہلے ملتا تو کسی مارشل لاء کی ضرورت ہی نہیں تھی – مارشل لاء کی رسوائی کی کیا ضرورت ہے جب سول مارشل لاء میں سارے مقاصد پورے ہو رہے ہوں – آگے کے لئے بھی یہی سیٹ اپ چلانے کا پکا منصوبہ ہے اور اسے بھانپ کر ہی اپوزیشن اعتجاج کے راستے پر نکلی ہے – سندھ میں پیپلز پارٹی کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے یوں اسے اعتجاج میں اتنی دلچسبی لینے کی ضرورت نہیں تھی ، ان کے آگے بھی مرکزی حکومت ملنے کے کوئی چانس نہیں اور زیادہ سے زیادہ سندھ حکومت ہی دوبارہ مل سکتی ہے جو پہلے ہی ہے وہ پھر بھی حکومت گرانا چاہتے ہیں کیونکے انہیں سن گن مل گئی ہے کہ اگلے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو بھی سندھ سے صاف کیا جائے گا – وہاں کے الیکٹ ایبل اب کہہ رہے ہیں انہیں اشارہ مل چکا ہے مگر ایکشن کا ابھی حکم نہیں – یہی ساری پلاننگ اپنی جگہ مگر خان کی جو مقبولیت اب ہے اگر ایسی ہی اگلے الیکشن میں بھی رہی تو اسٹیبلشمنٹ چوٹی کا زور لگا کر بھی اسے دوبارہ منتخب نہیں کر پائے گی – انہیں یہ سب کچھ حکومت کے آخری سال میں نظر آ جائے گا اور پھر سے وہی پرانا کھیل دوبارہ دوہرایا جائے گا – ایک اور مسلم لیگ بنا کر اور ایک اور پٹھو اوپر بیٹھا کر اس ملک کے ساتھ ایک اور تجربہ کیا جائے گا – کاش پنجاب کی عوام سمجھ لے کہ ان کھیل تماشوں سے ہمیشہ کی طرح انہیں کچھ نہیں ملنا راج پھر سیلیکٹر اور سیلیکٹڈ نے ہی کرنا ہے –اعوان صاحب، ہم سب اپنی خواہشوں کے غلام ہیں ۔ اسی طرح سے سیاستدان بھی ، فوجی بھی اور عوام بھی ، یہ چوں چوں کا مربہ ایک بدلحاظ ھجوم تو ہمیشہ بن سکتا ہے لیکن ایک فکرمند، سلجھی اور دانش مند قوم نہیں بن سکتا ۔ جب تک ہمارے احساسات ، خیالات اپنی ذاتی عنا کی پابندیوں سے آزاد نہیں ہوتے ھم من حیث القوم بگاڑ پیدا کرنے کے علاوہ کوئ اور قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دے سکتے ، ابھی کل ہی آپ نے لاکھوں کا ھجوم الجاھلان دیکھا ہوگا ، ہم ایک بدنظم ، جذباتی رو میں بہکنے والے نا آفریدہ گلشن کے ناھنجار کانٹے ہیں جو جھاڑیوں کی طرح اگ تو آئے ہیں مگر گلشن کے رموز سے واقف نہ ہوئے ۔ پھوجی ، سیاستدان ہمارا احتصال کیوں نہ کریں ؟
- thumb_up 1
- thumb_up Awan liked this post
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.