- This topic has 3 replies, 4 voices, and was last updated 2 years, 8 months ago by
unsafe. This post has been viewed 448 times
-
AuthorPosts
-
23 Jul, 2020 at 2:17 am #1
کبھی کبھی کسی موضوع پر قلم اٹھانے سے پہلے دل کرتا ہے کہ قاری کے سامنے ہاتھ جوڑوں، اس کے پاؤں پکڑوں اور عرض کروں کہ صرف تین منٹ کی بات ہے، سن لیں، گالی دیں، اختلاف کریں، بحث کریں لیکن ایک انٹرنیٹ یا وٹس ایپ پر پڑھا ہوا جھوٹ تاریخی سمجھ کر منہ نہ پھیر لیں۔
خیر پور سے ایک استاد کے ہاتھوں بچوں کے ریپ کی خبر آئی۔ غالباً کچھ تصویریں انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ہیں، ان کو دیکھنے کا حوصلہ ہوا نہ تجسس۔
اس کے بعد ایک تاریخی واقعے کا بیان چھیڑا گیا کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں ایک بچے پپو کا ریپ اور قتل ہوا۔ مجرم کو سر عام پھانسی دی گئی اور اس کے بعد 15 سال تک پاکستان میں کسی بچے کے ساتھ جنسی زیادتی نہیں ہوئی۔
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ہمارا ضمیر اس وقت تک نہیں جاگتا جب تک کوڑے کے ڈھیر سے بچے کی لاش نہ ملے۔ یا بہت ہی ہولناک ویڈیو یا تصویر وائرل نہ ہو جائے۔
پھر ہم سر عام پھانسی کا مطالبہ کرتے ہیں، مجرم کے ٹوٹے ٹوٹے کرنا چاہتے ہیں۔ بچوں کا باپ ہونے کے حوالے سے میں یہ جذبات سمجھتا ہوں۔
میں بھی شاید کسی مجرم کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اور خود تارا مسیح بننے کی آفر کروں۔
جب پپو کے قاتل کو سرِ عام پھانسی ہوئی تو میں خود بچہ تھا اور یہ بات سراسر جھوٹ ہے کہ اس کے بعد 15 سال تک پاکستان میں کسی بچے کے ساتھ جنسی آزاری نہیں ہوئی۔
کچھ مہینے پہلے اسی موضوع پر ایک مضمون لکھنے کے لیے تھوڑی تحقیق کی۔ اپنے ساتھیوں دوستوں جاننے والوں اور ان کے جاننے والوں کی باتیں یاد کیں اور کچھ سے دوبارہ پوچھا۔
ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جس کے ساتھ بچپن میں جنسی زیادتی نہیں ہوئی تھی۔
یا اس کی کوشش نہیں ہوئی۔ گندے طریقے سے چھونے سے لے کر ریپ تک اور یہ جنسی زیادتی کرنے والے وہی تھے جن کو بچے کے والدین قابل اعتبار سمجھتے تھے۔
چاچا، ماما، خانساماں، ڈرائیور، ٹیچر، قاری، ٹیوٹر اور بعض دل دہلا دینے والے واقعات میں باپ اور بھائی کبھی سگے اور کبھی سوتیلے۔
یاد رکھیں میں اس نسل کی بات کر رہا ہوں جو اس وقت بچے تھے جب پپو کے قاتل کو سرِ عام پھانسی ہو چکی تھی۔
اور اب ہمارے سامنے ایک اور نسل ہے۔
ایک طرف لاہور کا گرامر اسکول جہاں مڈل کلاس کی بھاری فیس دینے والے انگریزی میڈیم کے بچے پڑھتے اور اقوام متحدہ طرز کے مباحثوں کا حصہ بنتے ہیں۔
وہ بھی اپنے انگریزی میڈیم استادوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں۔
ایک طرف خیر پور کے غریبوں کے بچے ایک ٹیوٹر کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں۔
مجھے ایک نوجوان لڑکی نے بتایا کہ جب وہ ابھی کم سن تھی تو اپنے والدین کے ساتھ حج کرنے گئی تو وہاں طواف کرتے ہوئے اس کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کی کوشش کی گئی۔ میرے منہ میں خاک ۔
لیکن ہر اس منہ میں بھی خاک جو یہ کہتا ہے کہ پپو کے قاتل کی سر عام پھانسی کے بعد پاکستان میں پندرہ سال تک کسی بچے کے ساتھ جنسی زیادتی نہیں ہوئی۔
چوکوں پر پھانسیاں دیں، مجرموں کی بوٹیاں کر کے چیلوں کو ڈال دیں۔ جو کرنا ہے کر لیں لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ مسئلہ ہمارے گھروں میں، ا سکولوں میں، مدرسوں میں ورکشاپوں میں، ٹرک اڈوں اور بس اڈوں میں، جھونپڑیوں میں اور کوٹھیوں میں ہر جگہ موجود ہے۔
یہ قبیح فعل کرنے والے آپ کے پیارے ماموں بھی ہو سکتے ہیں۔ ایلیٹ اسکول کے انگریزی بولنے والے استاد بھی، قاری بھی اور آپ کے ابو کے دوست بھی۔
ہو سکتا ہے ان میں سے کسی کو آپ جانتے بھی ہوں۔ تو اگر آپ نے اپنے بچوں کو اس زیادتی سے بچانا ہے تو پھانسیوں کے ساتھ ساتھ کچھ مسئلے کی آگاہی کا مطالبہ بھی کریں۔ جن کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے انھیں تماشہ نہ بنائیں۔ لیکن ان کی آواز کو دبائیں بھی نہ۔ اس وقت کا انتظار نہ کریں جب کُوڑے پر ایک اور بچے کی لاش پڑی ہوئی ملے۔بشکریہ ……. محمد حنیف
- local_florist 2 thumb_up 2
- local_florist GeoG, Bawa thanked this post
- thumb_up Atif Qazi, Believer12 liked this post
23 Jul, 2020 at 2:26 am #2یہی سوال کافی مہینوں سے میرے ذہن میں تھا لیکن سوچا کہ لوگ کہیں گے کہ اس کو علم ہی نہیں ہے۔ یہ پپو والی بات مجھے دھندلی دھندلی یاد ہے اور یہ بھی یاد ہے کہ اس کے بعد جو افغانی پاکستان آئے ان میں یہ غلیظ لت بکثرت موجود تھی۔ میں نے انہی دنوں یعنی شائید 82 یا پھر 83 میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک لڑکے کے ساتھ چند بدقماش زبردستی ایک باغ میں بدفعلی کررہے تھے اور یہ منظر ایسا تھا کہ میرے اوسان خطا ہوگئے ۔ آج تک دل میں یہ خلش ہے کہ کاش میں اس بچے کو بچا سکتا لیکن اس وقت میں خود بھی بچہ تھا اور شکر بھی کرتا ہوں کہ مجھ پر ان کی نظر نہیں پڑی۔یہ پندرہ سال تک ریپ نہ ہونے والی گپ پتہ نہیں کس احمق نے ماری ہے لیکن یہ سراسر جھوٹ ہے۔
- thumb_up 5
- thumb_up SaleemRaza, حسن داور, Bawa, Believer12, unsafe liked this post
23 Jul, 2020 at 6:02 am #3ایک پپو کے درندہ صفت گندے غلیظ انسان کو پھانسی دے کر بلے بلے کروا لی اور پانچ ملین افغانیوں کو کھلی چھٹی دے دی کہ آو اور باقی کے پپووں کی زندگی اجیرن کرواب ادھر آگ سینک رہا ہوگا اپنے ہمرکابوں و ہم پیالوں کے ساتھ
23 Jul, 2020 at 8:13 am #4پاکستان میں ہر روز کسی نہ کسی موہلے گلی مسجد اور مدرسے میں چھوٹے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات ھوتے ھیں جن میں سے کوئی خاص واقعہ میڈیا تک پونچ جاے تو اس پر ایکشن ہوتا ہے ورنہ مذھبی لیڈر اور سرکاری حکام بچوں پر ھونے والے جنسی حملوں کو نظرانداز کر دیتے ھیں اور ایسے واقعات کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ھے جیسے اوپر والے واقعہ میں لکھا ہے .. مرے خیال ہے ایسے واقعات پاکستان میں کبھی کم نہیں ہو سکتے جب تک حکومت مولوی سے شادی والا سسٹم لے کر ایک باقاعدہ قانون نہیں بناتی …. … اور حکومت کو دو سے زیادہ بچے رکھنے پر ٹیکس لگانا پڑے گا …. کیوں کہ مولوی اپنی فیس کے لئے شادیاں تو کروا رہے ہیں اور وہ شادیاں رجسٹر بھی نہیں ہوتی …. اور ملک کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے … روزگار لوگوں کو میسر نہیں .. .پھر غریب ہونے کے ناطے ماں باپ اپنے بچوں کی جنسی ضرورتوں کے لئے ( ان کی میٹنگ) کے لئے کوئی پروپر بندوبست نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے وہ بچوں کے پیچھے پر جاتے ہیں
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.