- This topic has 1 reply, 2 voices, and was last updated 2 years, 9 months ago by
unsafe. This post has been viewed 384 times
-
AuthorPosts
-
22 Jun, 2020 at 5:23 pm #1
پاکستانی کرکٹ ٹیم جہاں میدان میں غیرمعمولی کارکردگی دکھاتی رہی ہے وہیں میدان سے باہر کے تنازعات بھی اسے ہر دور میں گھیرے میں لیتے رہے ہیں۔
ان تنازعات نے اکثر بغاوت کا روپ دھارا ہے۔
کبھی کپتانوں کا سخت رویہ اس کا سبب بنا تو کبھی معاوضوں میں اضافے کا معاملہ اتنی گمبھیر صورتحال اختیار کر گیا کہ کھلاڑیوں نے نہ کھیلنے تک کی دھمکی دے ڈالی۔جب بھٹو نے کاردار سے آنکھیں پھیر لیں
یہ 1976 کی بات ہے۔ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی۔
اس وقت عبدالحفیظ کاردار پاکستان کرکٹ بورڈ کے صدر تھے۔ وہ پاکستانی کرکٹ میں سیاہ سفید کے مالک تھے۔
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ان کے برسوں پرانے تعلقات سب کو اچھی طرح معلوم تھے۔ وہ پنجاب کی حکومت میں وزیرخوراک بھی رہے اور بھٹو کے کہنے پر ہی انھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔
یہ وہ دور تھا جب پاکستانی کرکٹرز کی اکثریت کاؤنٹی کرکٹ بھی کھیل رہی تھی جہاں انھیں اچھا معاوضہ مل رہا تھا۔
سینئر کرکٹرز چاہتے تھے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ان کے یومیہ الاؤنس کا ازسرنو جائزہ لے۔ عبدالحفیظ کاردار اس بات کو نظرانداز کیے ہوئے تھے کہ وقت پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔ حالانکہ جب وہ خود کپتان تھے تو انھوں نے بورڈ سے کھلاڑیوں کے معاوضوں، رہائش اور ٹرانسپورٹ کے لیے لڑائی لڑی تھی۔
کرکٹرز کا اہم مطالبہ لانڈری کی مد میں 10 ڈالرز الاؤنس دینے کا تھا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ 1973 کے آسٹریلیا کے دورے میں کھلاڑی شام کو اپنی کٹس خود دھونے پر مجبور ہوتے تھے۔
کاردار یہ الاؤنس دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔
ایک سینئر کرکٹر کے مطابق 1975 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ میچ کا معاوضہ 1500 روپے تھا لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے موقع پر اسے کم کر کے ایک ہزار روپے کردیا گیا تھا۔
ابھی یہ بحث جاری تھی کہ عبدالحفیظ کاردار نے نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز کے بعد ہونے والے آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے دورے کے لیے کھلاڑیوں سے معاہدوں پر دستخط کرانے چاہے لیکن سینیئر کرکٹرز کو یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ چار سال پہلے کے آسٹریلوی دورے میں پنتیس ڈالر فی ہفتہ کے حساب سے دیے گئے۔
الاؤنس کو بھی کم کر کے پچیس ڈالرز فی ہفتہ کردیا گیا تھا جبکہ کھلاڑیوں کا مطالبہ یہ تھا کہ انھیں پچاس ڈالرز فی ہفتہ دیے جائیں۔
ان کرکٹرز میں مشتاق محمد، آصف اقبال، ماجد خان، صادق محمد، عمران خان اور وسیم باری شامل تھے۔
یہ معاملہ حل نہ ہوسکا اور نیوزی لینڈ کے خلاف حیدر آباد ٹیسٹ سر پر آ گیا اور ان سینیئر کرکٹرز نے حیدر آباد ٹیسٹ کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔
کاردار نے صورتحال دیکھ کر متبادل ٹیم میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا اور انتخاب عالم کو کپتان بنانے کا اعلان کردیا۔
تاہم میچ سے قبل مشتاق محمد اور کاردار کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں کاردار نے کھلاڑیوں کے مطالبات ماننے کا وعدہ کر لیا
حتمی معاہدہ میچ کی صبح ٹاس سے کچھ دیر پہلے جا کر ممکن ہوسکا۔ اس وقت نیاز سٹیڈیم حیدرآباد کے ڈریسنگ روم میں پاکستان کے دو درجن کھلاڑی اور دو کپتان موجود تھے۔
مشتاق محمد اپنی کتاب انسائیڈ آؤٹ میں لکھتے ہیں کہ اس صورتحال میں سب سے زیادہ حیران نیوزی لینڈ کے کپتان گلین ٹرنر تھے جو یہ پوچھ رہے تھے کہ ’ان کے ساتھ ٹاس کون کرے گا، انتخاب یا مشتاق؟
جب مشتاق محمد گلین ٹرنر کے ساتھ ٹاس کے لیے جارہے تھے تو انھوں نے کہا ’ ُمشی کیا آپ مجھے یہ میچ کھیلنے والے 11 پاکستانی کھلاڑیوں کے ناموں کی فہرست دیں گے؟
پاکستانی کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری ڈاکٹر ظفر الطاف نے ٹیم کی آسٹریلیا روانگی سے قبل کھلاڑیوں کو جب کنٹریکٹ دیے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان پر پچاس کے بجائے پچیس ڈالرز فی ہفتہ درج تھا۔
ان کھلاڑیوں کو غصہ اس بات پر تھا کہ کاردار نے ان سے کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا۔
کاردار نے سینیئر کرکٹرز کو دھمکی دی کہ اگر انھوں نے کنٹریکٹ پر دستخط نہیں کیے تو ان کا ٹیسٹ کریئر ختم کر دیا جائے گا۔
انھوں نے انتخاب عالم کو کپتان اور ظہیر عباس کو نائب کپتان بنانے کا فیصلہ بھی کر ڈالا۔
سینئر کھلاڑیوں نے اس صورتحال میں مرکزی وزیر عبدالحفیظ پیرزادہ سے رابطہ کیا جو انھیں وزیراعظم بھٹو کے پاس لے گئے۔
اس وقت تک بھٹو اور کاردار کے تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی نہیں رہی تھی۔
بھٹو نے پیرزادہ کو کھلاڑیوں کا مسئلہ فوری حل کرنے کی ہدایت کی۔ ایک سینیئر کرکٹر کے بقول یہ سارا معاملہ صرف پانچ منٹ میں حل ہوگیا۔
نہ صرف یہ بلکہ کاردار کی تشکیل کردہ سلیکشن کمیٹی، کپتان اور منیجر بھی تبدیل کردیے گئے جو ان کے لیے بڑا دھچکہ تھا۔
انھوں نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ انھیں اس طرح کی خفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسرے لفظوں میں انھوں نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا تھا۔میانداد کپتان کی حیثیت سے ناقابل قبول
سنہ 1980 میں انڈیا کے دورے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ لیفیٹننٹ جنرل کے ایم اظہر، آصف اقبال کی جگہ مشتاق محمد کو دوبارہ کپتان بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔
لیکن بورڈ میں تبدیلی آگئی اور کے ایم اظہر کی جگہ ایئر مارشل نور جان بورڈ کے سربراہ بن گئے۔
انھوں نے نوجوان جاوید میانداد کے کاندھوں پر قیادت کی ذمہ داری ڈالنے کا فیصلہ کرلیا۔ مشتاق محمد کو نہ چاہتے ہوئے ان کا یہ فیصلہ قبول کرنا پڑا۔
میانداد خداداد صلاحیتوں سے مالا مال کرکٹر تھے لیکن وہ جس ٹیم کے کپتان بنے تھے اس میں ماجد خان، ظہیرعباس، عمران خان، وسیم باری اور سرفراز نواز ان سے سینیئر تھے۔
پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کے دورے میں پرتھ اور برسبین کے ٹیسٹ میچز ہارنے کے بعد میلبورن ٹیسٹ جیتنے میں کامیاب ہوگئی لیکن میانداد کے خلاف سینیئر کھلاڑی اپنا ذہن بنا چکے تھے کہ وہ کپتان کی حیثیت سے ان کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔
آسٹریلوی دورے کے بعد پاکستان کو سری لنکا کی ٹیم کی میزبانی کرنی تھی جو ٹیسٹ رکنیت ملنے کے بعد پہلے غیر ملکی دورے پر آرہی تھی کہ اچانک سینیئر کھلاڑیوں نے اعلان کردیا کہ وہ میانداد کی کپتانی میں کھیلنے کے لیے تیار نہیں۔
سینئر کرکٹرز کی میانداد کے خلاف بغاوت کی چند وجوہات میں سے ایک وجہ ایک کرکٹر کی زبانی یہ معلوم ہوئی کہ میانداد نے وطن واپسی پر ایک اخباری بیان میں سینئر کرکٹرز کو سیریز کی شکست کا ذمہ دار قرار دے دیا تھا جس پر یہ کرکٹرز ناراض تھے۔
ایئرمارشل نور خان نظم و ضبط کے معاملے میں سخت گیر واقع ہوئے تھے اور اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کے لیے مشہور تھے۔
انھوں نے سینیئر کھلاڑیوں پر واضح کر دیا کہ وہ ان کا مطالبہ کسی صورت میں تسلیم نہیں کریں گے۔ سینیئر کھلاڑیوں میں ماجدخان، ظہیرعباس، عمران خان، وسیم باری اور سرفراز نواز کے علاوہ مدثر نذر، اقبال قاسم، وسیم راجہ، سکندر بخت اور محسن خان بھی شامل تھے۔
کراچی ٹیسٹ سے پہلے اقبال قاسم اور وسیم راجہ باغی کرکٹرز سے الگ ہو کر پاکستانی ٹیم میں شامل ہوگئے۔ کراچی ٹیسٹ پاکستان جیت گیا۔ لاہور ٹیسٹ سے قبل سینیئر کرکٹرز اور پاکستان کرکٹ بورڈ میں مذاکرات کے نتیجے میں ماجد خان، ظہیرعباس، عمران خان، مدثر نذر اور محسن خان کی بھی ٹیم میں واپسی ہوگئی۔
سری لنکا کے خلاف سیریز کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم کو انگلینڈ کا دورہ کرنا تھا۔
جاوید میانداد نے کپتانی سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کرلیا اور ایئرمارشل نورخان نے قیادت عمران خان کو سونپ دی۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ مایوس ظہیر عباس تھے جو کپتان بننے کی خواہش دل میں رکھے ہوئے تھے۔
ایئر مارشل نور خان نے بی بی سی اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یہ تسلیم کیا تھا کہ انھوں نے سینیئر کرکٹرز کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا تھا جو ان کی غلطی تھی۔
جاوید میانداد جب ٹیم کے کوچ بنے اس وقت بھی انھیں ایک سے زائد مرتبہ ٹیم کے کھلاڑیوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔وسیم اکرم کے ساتھی ہی ان کے مخالف
سنہ 1993 میں جاوید میانداد ایک بار پھر شہ سرخیوں میں آئے جب پاکستان کرکٹ بورڈ نے انھیں کپتانی سے ہٹا کر ویسٹ انڈیز کے دورے کے لیے وسیم اکرم کو کپتان بنانے کا فیصلہ کیا۔
حالانکہ پاکستانی ٹیم نیوزی لینڈ کے خلاف واحد ٹیسٹ میں ان کی کپتانی میں جیتی تھی جس میں میانداد نے 92 رنز کی اہم اننگز کھیلی تھی۔
یہ وہی ویسٹ انڈیز کا دورہ ہے جس میں وسیم اکرم، وقار یونس، عاقب جاوید اور مشتاق احمد کو گرینیڈا کے ساحل پر منشیات کے ساتھ پولیس نے حراست میں لیا تھا۔
ویسٹ انڈیز کے دورے کے بعد ٹیم کے کھلاڑیوں نے وسیم اکرم کی کپتانی کے خلاف بغاوت کردی جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ان کا رویہ کھلاڑیوں کے ساتھ ہتک آمیز ہے۔
اس بغاوت کا اہم پہلو یہ ہے کہ دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ وسیم اکرم کی جگہ وقار یونس کپتان بنا دیے جائیں گے لیکن سلیم ملک درمیان میں سے نکل کر آئے اور کپتان بن گئے۔
اس بغاوت میں بھی پاکستان کرکٹ بورڈ، جس کے سربراہ اس وقت جاوید برکی تھے، نے کھلاڑیوں کو یہ پیغام بھیجا کہ اگر وہ نہیں مانتے تو ایک دوسری ٹیم بنالی جائے گی۔
جب یہ کھلاڑی جاوید برکی اور عارف عباسی سے ملنے گئے تو جاوید برکی نے کھلاڑیوں کو مخاطب کر کے کہا کہ ’ہم نے تو ٹیم بنا لی ہے۔ آپ لوگ کیوں آئے ہیں۔
اس پر راشد لطیف نے کہا کہ ’اگر ایسا ہے تو ہم کیوں آئے ہیں۔ ہمیں ہارون رشید کے ذریعے کیوں پیغام بھجوایا گیا کہ آپ لوگ آکر مل لیں۔
اس بغاوت کے بارے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ اس وقت کچھ کھلاڑی فارم میں نہیں تھے اور ٹیم سے ڈراپ ہوچکے تھے یا ڈراپ ہونے کے خطرے سے دوچار تھے۔ لہذا انہوں نے اس وقت وقار یونس کا کندھا استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔
ان کھلاڑیوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ وسیم اکرم سخت گیر کپتان ہیں اور وہ ’دوسرا عمران خان‘ بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
راشد لطیف کا کہنا ہے کہ جاوید میانداد کو کپتانی سے ہٹائے جانے کا فیصلہ غلط تھا کیونکہ اس کے بعد ٹیم سنبھل نہ سکی اور اس میں عدم استحکام پیدا ہوا۔
وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وسیم اکرم کے خلاف ہونے والی بغاوت غلط تھی جس کا وہ بھی حصہ بنے تھے۔یونس خان کے خلاف قرآن پر حلف
یونس خان کے ورلڈ کلاس بلے باز ہونے پر کوئی دو آرا نہیں ہوسکتیں لیکن ان کی کپتانی کے ادوار ہمیشہ ہنگامہ خیز رہے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم نے یونس خان کی قیادت میں 2009 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتا لیکن اسی سال ٹیم کے کئی کھلاڑی ان کے مبینہ سخت رویے کو بنیاد بنا کر انھیں کپتان کے طور پر مسترد کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔
اطلاعات کے مطابق ان کھلاڑیوں میں محمد یوسف، شعیب ملک، شاہد آفریدی، مصباح الحق، رانا نویدالحسن، کامران اکمل اور سعید اجمل شامل تھے۔
یہ کھلاڑی ٹیم کے منیجر یاور سعید کے توسط سے بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ سے بھی ملے تھے اور یونس خان کے سخت رویے کی شکایت کی تھی کہ وہ بھی ’وسیم اکرم کی طرح عمران خان بننے کی کوشش‘ کر رہے ہیں۔
یونس خان کے سخت رویے سے ناراض کھلاڑیوں نے جوہانسبرگ میں قرآن پر حلف بھی اٹھایا تھا۔
یونس خان نے اسی سال نیوزی لینڈ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں ہونے والی ون ڈے سیریز کے بعد کپتانی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے دورے کے لیے محمد یوسف کپتان بنے لیکن اس دورے میں ٹیم کی خراب کارکردگی کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں محمد یوسف اور یونس خان پر غیرمعینہ مدت کے لیے پابندی عائد کردی تھی۔
دونوں پر ٹیم میں انتشار پھیلانے کا الزام تھا تاہم 10 ماہ بعد یونس خان کو دوبارہ پاکستانی ٹیم میں شامل کرلیا گیا تھا۔22 Jun, 2020 at 8:15 pm #2کرکٹ ایک بہت ہی فضول سی گیم ہے یہ گیم پاکستانی حکوممت نے ویسے ہی اپنے سر پر ایک بوجھ بنایا ہوا .. کرکٹز جو دو ٹکے کے بھی نہیں ہوتے .. نہ ہی کوئی ان کی اچھی پرفارمنس ہوتی ہے اور نا ہی کوئی اوقات بس سفارش سے بھرتی ہو جاتے ہیں … ان کو اگر میریٹ پہ رکھا جاے تو شائد کوئی چپڑاسی اور خاکروب بھی نہ رکھے ….. ان پہ اتنا خرچہ کیا جاتا ہے …. اب عمران خان یو ٹرن کو ہی دیکھ لو کرکٹ سے آج پاکستان کا وزیر اعظم بن چکا ہے ..-
This reply was modified 2 years, 9 months ago by
unsafe.
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.