Home Forums Non Siasi تیس برس میں کاٹن کی کم ترین پیداوار

Viewing 3 posts - 1 through 3 (of 3 total)
  • Author
    Posts
  • Believer12
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1
    تیس برس میں کاٹن کی کم ترین پیداوار

    مرزا اختیار بیگ

    2020ء کاسال کاٹن کاشتکاروں کیلئے مشکل ترین رہا اور اس سال جولائی 2020ء سے مئی 2021ء تک کاٹن کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے میں 60 فیصد کم ہوئی ہے جو 11 ملین بیلز سے کم ہوکر 11 مہینوں میں صرف 5.6 ملین بیلز رہ گئی۔ اس سال زیادہ سے زیادہ 7 ملین بیلز پیداوار کی توقع ہے جو ہماری ٹیکسٹائل صنعت کی طلب کا صرف 60 فیصد ہے جبکہ گزشتہ سال کاٹن کی پیداوار 8.5 ملین بیلز تھی۔ کاٹن کی پیداوار میں کمی کی وجوہات میں کاٹن سیڈز میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (R&D) کا نہ ہونا، جعلی اور غیر معیاری بیج اور ادویات، درجۂ حرارت میں تبدیلی، امریکی سنڈیوں کا فصل پر حملہ، غیر متوقع بارشیں اور کاٹن کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی تھی جس کے باعث کاشتکاروں نے کاٹن کے بجائے گنے کی کاشت کو ترجیح دی جسے شوگر انڈسٹریز کے بااثر خاندانوں کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ اس طرح کاٹن کی کاشت کا رقبہ 3.4 ملین ہیکڑ سے کم ہوکر 2.2 ملین ہیکڑ تک محدود ہوگیا جو گزشتہ 30 برسوں میں سب سے کم ہے۔ اس سال کاٹن 8ملین ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی جس میں پنجاب کا 6.2ملین ایکڑ اور سندھ کا 1.8 ملین ایکڑ رقبہ شامل ہے۔

    حکومت پاکستان نے ’’کاٹن وژن 2015ء‘‘ میں کاٹن پیداوار کا ہدف 20 ملین بیلز سالانہ رکھا تھا جبکہ ہمیں اس سال گزشتہ 30 برسوں میں کاٹن کی کم ترین پیداوار حاصل ہوئی ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں بی ٹی کاٹن کے بیج کے کامیاب استعمال سے کاٹن کی پیداوار38 ملین بیلز تک پہنچ گئی ہے اور بھارت دنیا میں کاٹن پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ کاٹن کی پیداوار میں مسلسل کمی سے ملک کو جی ڈی پی میں سالانہ 6 ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔ انٹرنیشنل کاٹن ایڈوائزری کمیٹی (ICAC) کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 4 ممالک امریکہ، بھارت، چین اور برازیل دنیا کی کاٹن کا 73 فیصد پیدا کررہے ہیں جس میں بھارت 25 فیصد کے ساتھ پہلے، چین 23 فیصد کے ساتھ دوسرے، امریکہ 15فیصد کے ساتھ تیسرے اور برازیل 10فیصد کیساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2019-20ء میں دنیا میں کاٹن کی پیداوار 22.9ملین ٹن رہی جبکہ 2020-21ء میں 25 ملین ٹن پیداوار متوقع ہے جس سے بھارت 12 ملین ہیکڑ کاٹن کی کاشت کے ساتھ دنیا میں کپاس پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک بن جائے گا جبکہ پاکستان میں کاٹن کی پیداوار 14 ملین بیلز سے کم ہوکر 7 سے 8 ملین بیلز رہ جائے گی اور ہمیں ہر سال تقریباً 4 ملین بیلز کاٹن امپورٹ کرنا پڑے گی جس سے ہماری ٹیکسٹائل صنعت بری طرح متاثر ہوگی۔ کاٹن ہماری ٹیکسٹائل صنعت کا خام مال ہے اور درآمدی کاٹن مقامی کاٹن کے مقابلے میں 15 فیصد مہنگی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ اتنی بڑی مقدار میں کاٹن کی امپورٹ سے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر پر ناقابل برداشت بوجھ پڑرہا ہے بلکہ درآمد شدہ کاٹن سے ہماری پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے جو بین الاقوامی منڈی میں ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات کو غیر مسابقتی بنارہا ہے کیونکہ پاکستان دنیا میں چین اور بھارت کے بعد کاٹن کی کھپت کا تیسرا بڑا ملک ہے اور کاٹن پیداوار میں مسلسل کمی سے ہماری13 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ متاثر ہوسکتی ہے۔

    پاکستان کا زرعی شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی ہم زرعی شعبے کا ہدف حاصل نہیں کرسکے جس کی ایک وجہ کاٹن کی فصل کا کم ہونا بھی ہے۔ رواں مالی سال حکومت نے 7.5 ارب ڈالر کی زرعی اجناس امپورٹ کیں جن میں 1.2 ارب ڈالر یعنی 192 ارب روپے کی کاٹن، 160ارب روپے کی گندم، 100ارب روپے کی دالیں، 90ارب روپے کی چائے، 35 ارب روپے کے مصالحہ جات اور25 ارب روپے کی چینی شامل ہے۔

    چند سال پہلے ہم یہ تمام زرعی اجناس ایکسپورٹ کرتے تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے اپنے زرعی شعبے کو نظر انداز کیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زرخیز زمین، چاروں موسم، محنت کش کسان اور دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام عطا کیا ہے جو پاکستان کے زرعی شعبے کی طاقت ہیں اور ہم ان کو استعمال کرکے نہ صرف ملک کو فوڈ سیکورٹی فراہم کرسکتے ہیں بلکہ خطے میں زرعی اجناس ایکسپورٹ کرنے والا ایک اہم ملک بن سکتے ہیں۔ قائداعظم نے ایک زرعی اور صنعتی پاکستان کا خواب دیکھا تھا لیکن آج ہم نے ملک کو ایک ٹریڈنگ اسٹیٹ بنادیا ہے جو پاکستان کا مقدر نہیں۔

    اسٹیٹ بینک کے مطابق کاٹن کی فصل گنے اور دیگر بڑی فصلوں کے مقابلے میں مسابقت کھوچکی ہے جس کی وجہ سے کاشتکار گنے اور دیگر متبادل فصلوں کی کاشت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ 80ء کی دہائی میں پاکستان دنیا میں کاٹن کی پیداوار میں دوسرا بڑا ملک تھا لیکن کاٹن کی پیداوار میں مسلسل کمی سے 90ء کی دہائی میں تیسرے نمبر اور کچھ سال پہلے چوتھے نمبر پر آگیا تھا اور اب پانچویں نمبر پر آگیا ہے۔ میری، حکومت، اپٹما اور دیگر ٹیکسٹائل صنعتوں کو تجویز ہے کہ وہ کاٹن کی دم توڑتی فصل کو بچانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اپنا اپنا کردار ادا کریں، نہیں تو پاکستان کاٹن پیدا کرنے والے اہم ممالک میں اپنا مقام کھودے گا جس کا سب سے زیادہ نقصان ہماری ٹیکسٹائل صنعت کو ہوگا کیونکہ یہ ملک کے اہم ترین ٹیکسٹائل شعبے کا خام مال ہے۔

    سورس

    Believer12
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #2

    پنجاب اور سندھ کاٹن کی پیداوار کے سب سے بڑے علاقے رکھتے ہیں افسوس کہ سابقہ حکومت کی طرح موجودہ وزیراعلی پنجاب اور سندھ نے شوگر انڈسٹری کے ساتھ میٹنگز کرکے ان کو بہت زیادہ سہولیات مہیا کردیں مگر کاٹن انڈسٹری کیلئے کچھ نہیں کیا

    ہمارے حاکم پچاس کروڑ ڈالر کیلئے ترلے کرنا پسند کرلیں گے مگر کاٹن جو انہیں بارہ ارب ڈالر سالانہ دے سکتی ہے کی کاشت کو بڑھانے کیلئے ہاتھ نہین ہلائیں گے

    ویسے بنگلہ دیش جہاں کپاس اگ ہی نہیں سکتی نے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کا ایک ارب ڈالر ٹارگٹ رکھا اور اسے ایک سال میں پورا کرنے کے بعد پانچ ارب ڈالر کا ٹارگٹ رکھ لیا وہ بھی پورا کرلیا تو دس ارب ڈالر کا رکھ لیا جو پاکستان کی کاٹن سے ہونے والی آمدن سے بھی تین ارب ڈالر زیادہ تھا۔ جب پانچ سال میں یہ بھی پورا ہوگیا تو انہوں نے ٹارگٹ بیس ارب ڈالر رکھ لیا اور آج  ان کا نیا ٹارگٹ پچیس ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔ کپاس اور ٹیکسٹائل جو دراصل پاکستان کی مشہور ہے اتنی آمدن دیتی ہے کہ سو ارب ڈالر قرضہ تو پانچ سال کی مار ہے پتا نہیں کیوں ہم کچھ کرتے ہی نہیں

    پاکستان میں کوی وزیر زراعت وغیرہ بھی ہے وہ کہاں سویا ہوا ہے۔ کاٹن کی فصل ایک ہی سال میں پاکستان کو آی ایم ایف اور بہت سارے دیگر قرضوں کے بوجھ سے نکال سکتی ہے

    بھارت فوج کوی نیا میزائل فائر کرے تو ہم اس سے دوگنی رینج کا میزائل بہتر ٹیکنالوجی کے ساتھ تجربہ کرلیتے ہیں مگر جب بھارت زراعت میں ہم سے آگے نکل جاتا ہے اس میدان میں غصہ دکھانے کی بجاے ہم چپ سادھ لیتے ہیں۔ چاہئے تو تھا کہ یہاں بھی بہتر سٹریٹیجی بناتے جس سے پاکستانی کپاس کو ایکدم بوسٹ مل سکے اور ہم دوبارہ دوسرا بڑا کاٹن پیدا کرنے والا ملک بن سکیں؟

    ویسے یہ نااہلی ہے یا محض اتفاق کے تمام ریکارڈ اسی دور حکومت میں ٹوٹ رہے ہیں؟ تیس برس میں تو نواز ، زرداری ،مشرف ،ق لیگ ، بے نظیر سب آجاتے ہیں؟ اب اتنی بھی کیا شخصیت پرستی کہ میں نہ مانوں کی رٹ؟ باتیں اور دعوی جتنے مرضی کرلیں پہلے سے بہت بہتر کرپشن فری انتظامیہ ہونے کا دعوی بھی کرلیں مگر دنیا تو رزلٹ دیکھتی ہے

    ایک طالبعلم گھر والوں کو پڑھنے کا کہہ کر صبح سویرے چھت پر چڑھ جاے اور شام ڈھلے واپس اترے مگر جب رزلٹ ملے تو ہر مضمون میں فیل ہوجاے، کیا گھر والے اس کی زبان پر اعتبار کریں یا رزلٹ پر؟

    shahidabassi

    shami11

    نادان

    Atif Qazi

    Bawa

    Guilty

    GeoG

    Ghost Protocol

    • This reply was modified 1 year, 11 months ago by Believer12.
    Muhammad Hafeez
    Participant
    Offline
    • Professional
    #3

    پنجاب اور سندھ کاٹن کی پیداوار کے سب سے بڑے علاقے رکھتے ہیں افسوس کہ سابقہ حکومت کی طرح موجودہ وزیراعلی پنجاب اور سندھ نے شوگر انڈسٹری کے ساتھ میٹنگز کرکے ان کو بہت زیادہ سہولیات مہیا کردیں مگر کاٹن انڈسٹری کیلئے کچھ نہیں کیا

    ہمارے حاکم پچاس کروڑ ڈالر کیلئے ترلے کرنا پسند کرلیں گے مگر کاٹن جو انہیں بارہ ارب ڈالر سالانہ دے سکتی ہے کی کاشت کو بڑھانے کیلئے ہاتھ نہین ہلائیں گے ویسے بنگلہ دیش جہاں کپاس اگ ہی نہیں سکتی نے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کا ایک ارب ڈالر ٹارگٹ رکھا اور اسے ایک سال میں پورا کرنے کے بعد پانچ ارب ڈالر کا ٹارگٹ رکھ لیا وہ بھی پورا کرلیا تو دس ارب ڈالر کا رکھ لیا جو پاکستان کی کاٹن سے ہونے والی آمدن سے بھی تین ارب ڈالر زیادہ تھا۔ جب پانچ سال میں یہ بھی پورا ہوگیا تو انہوں نے ٹارگٹ بیس ارب ڈالر رکھ لیا اور آج ان کا نیا ٹارگٹ پچیس ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔ کپاس اور ٹیکسٹائل جو دراصل پاکستان کی مشہور ہے اتنی آمدن دیتی ہے کہ سو ارب ڈالر قرضہ تو پانچ سال کی مار ہے پتا نہیں کیوں ہم کچھ کرتے ہی نہیں

    پاکستان میں کوی وزیر زراعت وغیرہ بھی ہے وہ کہاں سویا ہوا ہے۔ کاٹن کی فصل ایک ہی سال میں پاکستان کو آی ایم ایف اور بہت سارے دیگر قرضوں کے بوجھ سے نکال سکتی ہے

    بھارت فوج کوی نیا میزائل فائر کرے تو ہم اس سے دوگنی رینج کا میزائل بہتر ٹیکنالوجی کے ساتھ تجربہ کرلیتے ہیں مگر جب بھارت زراعت میں ہم سے آگے نکل جاتا ہے اس میدان میں غصہ دکھانے کی بجاے ہم چپ سادھ لیتے ہیں۔ چاہئے تو تھا کہ یہاں بھی بہتر سٹریٹیجی بناتے جس سے پاکستانی کپاس کو ایکدم بوسٹ مل سکے اور ہم دوبارہ دوسرا بڑا کاٹن پیدا کرنے والا ملک بن سکیں؟ ویسے یہ نااہلی ہے یا محض اتفاق کے تمام ریکارڈ اسی دور حکومت میں ٹوٹ رہے ہیں؟ تیس برس میں تو نواز ، زرداری ،مشرف ،ق لیگ ، بے نظیر سب آجاتے ہیں؟ اب اتنی بھی کیا شخصیت پرستی کہ میں نہ مانوں کی رٹ؟ باتیں اور دعوی جتنے مرضی کرلیں پہلے سے بہت بہتر کرپشن فری انتظامیہ ہونے کا دعوی بھی کرلیں مگر دنیا تو رزلٹ دیکھتی ہے ایک طالبعلم گھر والوں کو پڑھنے کا کہہ کر صبح سویرے چھت پر چڑھ جاے اور شام ڈھلے واپس اترے مگر جب رزلٹ ملے تو ہر مضمون میں فیل ہوجاے، کیا گھر والے اس کی زبان پر اعتبار کریں یا رزلٹ پر؟ shahidabassi shami11 نادان Atif Qazi Bawa Guilty GeoG Ghost Protocol

    کاٹن کی کم پیداوار میں گنے کا قصور کم اور مکئی کا زیادہ ہے ، کاٹن پیدا کرنے والے علاقوں میں اب کاٹن کی جگہ مکئی پیدا کی جاتی ہے اس میں خرچہ کم اور یہ کم مدت میں تیار ہوجاتی ہے ، پہلے ربیع اور خریف کی فصلوں کے درمیان اسے کاشت کرلیا جاتا تھا چارے کیلئے لیکن اب صرف مکئی کے سٹے برداشت کئے جاتے ہیں بدلے میں ٹانڈے مفت دے دئے جاتے ہیں اور سال میں تین تین بار مکئی کاشت کی جاتی ہے ، رہی سہی کسر حکومت نے 2019 میں دس فیصد سیلز ٹیکس لگا کرپوری کرلی پچھلے دس سالوں میں اوسط 3 فیصد کی کمی آرہی تھی لیکن 2019 سے 24 فیصد کی کمی آرہی ہے

    https://www.brecorder.com/news/40080212

    https://www.dawn.com/news/1598112

Viewing 3 posts - 1 through 3 (of 3 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi