Home Forums Hyde Park / گوشہ لفنگاں ترسیلات زر اور معیشت پر پڑنے والےاسکے اثرات

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 22 total)
  • Author
    Posts
  • Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1
    ٹائٹل پڑھ کر تو دوستوں کو شائد محسوس ہو کہ کویی ثقیل قسم کا مقالہ لکھا ہو گا مگر یہ صرف میری معاشی باریکیوں سے نابلد عام سے شہری کی آلو چاٹ ہے
    درمیانہ طبقہ کے عام سے گھرانے میں آنکھ کھول کر اسی گھرانے میں لڑکپن سے جوانی کے زینوں پر قدم رکھتے وقت شائد دنیا کی تعیشات سے کبھی واسطہ نہ پڑا ہو مگر چھت اپنی ہی تھی والد صاحب نےکراچی میں ہی سرکاری نوکری کرتے ہوے شبانہ روز محنت سے ایک پلاٹ خرید کر گھر قسطوں میں ہی سہی تعمیر کرلیا تھا . یہی صورتحال دیگر رشتہ داروں اور احباب کی بھی تھی تقریبا سبھی اپنی اپنی چھتوں کے مالک بن گئے تھے اس چھت نے مکینوں کو ایک قسم کے تحفظ اور خود اعتمادی عطا کی ہویی تھی جس نے آگے جاکر انکی نسلوں پر مثبت اثرات چھوڑے تھے
    آج جب مکانوں، خالی پلاٹ اور اپارٹمنٹس کی قیمتیں دیکھتا ہوں تو سر یہ سوچ کر ہی گھوم جاتا ہے کہ یہ اچھے سے اچھے عہدے پر فائز اعلی سرکاری اور درمیانہ طبقہ کے کاروباری حضرات کی پہنچ سے کہیں بہت دور نکل گئیں ہیں-کچھ اسی قسم کی صورتحال انتہائی بنیادی تعلیمی اور صحت کی سہولتوں کے حوالے سے بھی درپیش ہے
    آخر یہ سب کچھ کسطرح ہوا اور وہ کونسے عوامل ہیں جو اس صورتحال میں تسلسل کے ساتھ خرابی کا موجب بن رہے ہیں؟ ان سوالوں کا جواب تو ماہرین کا کام ہے مگر جو دو عوامل میری سمجھ میں آتے ہیں ایک تو وہ آبادی کا بے تحاشہ پھیلاؤ ہے جو یقینا ضروریات زندگی کی طلب میں اضافہ کا باعث ہے مگر جو پہلو میرے خیال میں سب سے زیادہ اس صورتحال کا موجب بنا ہے وہ بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات ذر کا پراپرٹی مارکٹ میں پارک ہونا اور قیاس پر مبنی نفع اندوزی میں حصہ لینا ہے .
    مثالی طور پر کسی ملک کی پراپرٹی کی قیمتیں اس جگہ کے زمینی حقائق اور آبادی کے معاشی صورتحال کی عکاس ہونی چاہئیں مگر جب ترسیلات زر کی شکل میں آنے والا سرمایہ جو کہ اس خطہ کی معاشی حقائق سے ماورا ہو اس کے اثرات معیشت پر خصوصا پراپرٹی پر منفی انداز میں پڑتے ہیں. اور قیمتیں مقامی آبادی کی پہنچ سے باہر نکل جاتی ہیں
    اسی طرح جو ترسیلات زر اربوں ڈالر کی صورت میں بیرون ملک مقیم لوگوں کے مقامی رشتہ داروں کی جیبوں میں جاتی ہیں اور اشیا کی کھپت میں غیر فطری اضافہ کا با عث بنتی ہیں یہ بھی اشیا اور خدمات کی قیمتوں میں گرانی با عث بنتی ہیں اور وہ مقامی افراد جنکی آمدنی میں ترسیلات زر کا کویی حصہ نہیں ہوتا انکے لئے چیزوں کو پہنچ سے دور کردیتی ہیں اس کھپت سے معیشت میں موجود چند طبقات کو فائدہ بھی ہوتا ہے جیسے نجی تعلیمی ادارے، صحت کے مراکز، چھوٹے اور بڑے تاجر، ریسٹورانٹ اونرز وغیرہ . مگر اسکی بہت بھاری قیمت عام آدمی کو ادا کرنی پڑتی ہے خصوصا جب آپ کی معیشت کا انحصار درآمدات پر ہو جسکے لئے حکومت کو ڈالروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور جسطرح مشرف اور بعد کی حکومتوں نے ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور کنٹرول میں رکھنے کے لئے مارکٹ میںقرض میں لئے گئے ڈالر کی غیر فطری سپلائی بڑھائی جسکا سب سے زیادہ خمیازہ موجودہ دور میں اس طبقہ کو ادا کرنا پڑرہا ہے جسکی آمدنی میں بیرونی ڈالروں کا کویی حصہ نہیں ہے .
    موجودہ حکومت کے معاشی ماہرین نے بھی غیر ملکی سرمایہ کو متوجہ کرنے کے لئے پراپرٹی کے جیک پاٹ کو ہٹ کرنے کی کوشش کی ہے اور کررہی ہے اس کے نتیجہ میں بھی معاشرے کے چند طبقات کو تو بہت زیادہ فائدہ کا احتمال ہے مگر اپنی چھت کا خواب جو کہ ایک آدمی کی پہنچ میں چند دھائیوں قبل تھا وہ اب خواب ہی رہے گا
    اگر میں یہ کہوں کے میں نے ذاتی طور پر اس گنگا میں ہاتھ نہیں دھوے تو یقینا یہ جھوٹ ہوگا اور اگر یہ دعوی کروں کہ موقع ملنا پر پھر ایسا نہیں کروں گا تو یہ اس سے بھی بڑا جھوٹ ہوگا چونکہ انفرادی لحظ سے فرد قانونی طور جائز کام اپنے مفاد میں کرنے کا حق رکھتا ہے یہ حکومتوں اور پالیسی سازوں کا کم ہے کہ میکرو لیول پر ایسی پالیسی سازی کریں کہ جو ملک کے مجموعی مفاد میں ہو
    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2
    پراپرٹی میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی نسبت بیسیوں گنا پیسہ مقامی کالے دھن کا ہے۔ اس کے علاوہ انڈسٹریالسٹ نے بھی پچھلے پندرہ سال میں اپنا پیسہ انڈسٹری سے نکال کر ریل سٹیٹ میں انویسٹ کیا ہے۔ مثلا اگر خورشید شاہ سکھر شہر کی ہر بڑی پراپرٹی کا مالک ہے اور اس کی ورتھ پانچ سو ارب بتائی جاتی ہے تو میٹر ریڈر سے یہاں تک کا سفر ایک کھلی کتاب مانند ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ سب سیاست دان، بیوروکریٹ ،جج اور جنرلز مل کر تقریبا ۸۰۰۰ ارب کی پراپرٹی کنٹرول کرتے ہیں۔
    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    پراپرٹی میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی نسبت بیسیوں گنا پیسہ مقامی کالے دھن کا ہے۔ اس کے علاوہ انڈسٹریالسٹ نے بھی پچھلے پندرہ سال میں اپنا پیسہ انڈسٹری سے نکال کر ریل سٹیٹ میں انویسٹ کیا ہے۔ مثلا اگر خورشید شاہ سکھر شہر کی ہر بڑی پراپرٹی کا مالک ہے اور اس کی ورتھ پانچ سو ارب بتائی جاتی ہے تو میٹر ریڈر سے یہاں تک کا سفر ایک کھلی کتاب مانند ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ سب سیاست دان، بیوروکریٹ ،جج اور جنرلز مل کر تقریبا ۸۰۰۰ ارب کی پراپرٹی کنٹرول کرتے ہیں۔

    ویسے تو مجھے آپ کو قوٹ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ آپ جواب دینا پسند نہیں کرتے شائد آپ اب کوی شے بن چکے ہیں مگر پھر بھی پوچھنے میں حرج نہیں کہ این آر او ملنے کے بعد بھی خورشید شاہ کی پانچ سو ارب کی پراپرٹی پر کوی پکڑ ہوگی یا نہیں؟

    زرداری کے سوئس اکاونٹس اور اور سرے محل کا کھوج لگایا جاے گا یا نہیں؟؟

    جہانگیر ترین کتنے آرام سے گھوم رہا ہے اسے بھی کٹہرے میں لایا جاے گا یا نہیں؟

    ڈالر اگلے ڈھای سال میں ایک سو کا ہوگا یا نہیں؟

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #4
    گھوسٹ صاحب میں نے آج سے پی ٹی آی جائین کرلی ہے لہذا میرا شمار اب دانشوران میں سمجھ لیں،،،،اسی تناظر میں مجھے غور و فکر کے بعد معلوم ہوا کہ آپ پرلے درجے کے جھوٹے ہیں۔ آپ کذب بیانی کررہے ہیں آپ کےوالد صاحب کا کوی پلاٹ ہی نہیں تھا تو اس پر گھر کیسے تعمیر ہوگیا؟

    اگر آپ سچے ہیں تو اپنا ایڈریس مجھے دیں میں فون کرکے پتا کرتا ہوں کہ وہان آپ کا گھر موجود ہے یا نہیں؟

    مجھے معلوم ہے کہ آپ سرٹیفائیڈ جھوٹے ہیں اس لئے کبھی بھی اپنا ایڈریس شئیر نہیں کریں گے

    پاکستان میں تو ہرطرف خوشحالی ہے۔ وزیراعظم کی اپنا گھر اسکیم کی بدولت لوگوں کو سستے گھر مل رہے ہیں  اور پراپرٹی کی قیمتیں بھی گر رہی ہیں

    آپ سوچنا بند کریں اور آرام سے سو جائیں

    :yapping: :yapping: :cwl: :doh: :doh: :tape: :swear: :hilar: :hilar: ;-) :clap:

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #5
    گھوسٹ صاحب۔۔۔۔۔

    آپ کے معاشی مقالے یا آپ کے الفاظ میں آلو چاٹ میں کافی اجزاء جعلی ہیں۔۔۔۔۔ بلکہ اِس آلو چاٹ کا بنیادی جُز، یعنی آلو ہی دو نمبر ہے۔۔۔۔۔

    سب سے پہلے تو یہ آپ نے اپنے مقالے کا بنیادی جوہر، جو کہ آپ کے مقالے کے عنوان سے ہی واضح ہوتا ہے، وہ آپ نے شاید غلط فرض کرلیا ہے، کہ بیرونِ مُلک رہنے والے جو زرِ مبادلہ بھیجتے ہیں وہ ملک کی پراپرٹی مارکیٹ میں انویسٹ ہورہا ہے جس کی وجہ سے پراپرٹی کی قیمتوں میں اِضافہ ہورہا ہے۔۔۔۔۔

    میرے خیال میں یہ آپ نے غلط فرض کرلیا ہے۔۔۔۔۔ اور شاہد صاحب نے بھی آپ کی توجہ اِسی نکتے کی طرف دلائی ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ اگر اعداد و شمار دیکھے جائیں تو یہ وجہ کافی بودی معلوم ہوتی ہے۔۔۔۔۔

    بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں کی جانب سے بھیجا جانے والا زرِ مبادلہ کوئی بیس سے تئیس ارب ڈالر کے آس پاس ہوتا ہے۔۔۔۔۔

    اب یہ ساری کی ساری رقم پراپرٹی مارکیٹ میں نہیں جارہی۔۔۔۔۔ اِس رقم کا اچھا خاصہ حصہ گھر والوں کے خرچوں پر جائے گا۔۔۔۔۔ اب اگر ہم انتہاء درجہ کی سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ فرض کرلیں کہ اِس میں سے آدھی رقم، یعنی دس ارب ڈالر، پراپرٹی مارکیٹ میں جارہا ہے تو یہ کُل پراپرٹی مارکیٹ کا کتنے فیصد ہوگا۔۔۔۔۔

    میرے خیال میں پاکستان کی رئیل اسٹیٹ کی ویلیو کوئی پانچ سو ارب سے آٹھ سو ارب ڈالر کے قریب تو ہوگی۔۔۔۔۔ رئیل اسٹیٹ کی مارکیٹ کیپیٹلائزیشن کا اندازہ آپ نئی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائیٹیز، بحریہ اسکیمز میں زمین کی قیمت سے بھی لگا سکتے ہیں۔۔۔۔۔ اور جنرل ہیڈ کوارٹر و آپبارہ کے پُر اَسرار و غازی بندوں کے بعد اب تو نیوی کے غوطہ خور و فضائیہ کے شاہین بھی اِس رئیل اسٹیٹ میں اپنی چونچ گیلی کرنے لگ پڑے ہیں۔۔۔۔۔

    تو اب خود ذرا حساب لگالیں کہ باہر سے آنے والے کُل بیس بائیس ارب ڈالر بھی اِس رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کا کتنے فیصد بنتا ہے۔۔۔۔۔ اونٹ میں بھی زیرہ۔۔۔۔۔

    پس ثابت ہوا کہ آپ کی آلو چاٹ کا آلو ہی دو نمبر ہے۔۔۔۔۔

    جیسا کہ شاہد صاحب نے بھی کہا کہ باہر سے آنے والے زرِ مبادلہ کے مقابلے میں بیسیوں گُنا زیادہ پیسہ پاکستان کے اندر سے ہی پیدا ہو کر اِس مارکیٹ میں جارہا ہے۔۔۔۔۔ اور میری نظر میں یہ ایک کافی خطرناک رجحان ہے۔۔۔۔۔

    اور میرے خیال میں اِس ٹرینڈ کی وجوہات کچھ اور ہیں۔۔۔۔۔ جن پر موقع ملا تو لکھنے کی کوشش کروں گا۔۔۔۔۔

    • This reply was modified 2 years, 4 months ago by BlackSheep.
    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #6
    اسی تناظر میں مجھے غور و فکر کے بعد معلوم ہوا کہ آپ پرلے درجے کے جھوٹے ہیں۔

    نہیں، نہیں، نہیں۔۔۔۔۔

    گھوسٹ صاحب پرلے درجے کے جھوٹے نہیں ہیں۔۔۔۔۔

    وہ جھوٹ صرف مخصوص حالات میں بولتے ہیں۔ جیسے کہ اپنے مذہب(ایم کیو ایم) کی تبلیغ کے سلسلے میں۔۔۔۔۔

    :cwl: ;-) :cwl: ™©

    کک باکسر
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #7
    گھوسٹ صاحب میں نے آج سے پی ٹی آی جائین کرلی ہے لہذا میرا شمار اب دانشوران میں سمجھ لیں،،،،اسی تناظر میں مجھے غور و فکر کے بعد معلوم ہوا کہ آپ پرلے درجے کے جھوٹے ہیں۔ آپ کذب بیانی کررہے ہیں آپ کےوالد صاحب کا کوی پلاٹ ہی نہیں تھا تو اس پر گھر کیسے تعمیر ہوگیا؟ اگر آپ سچے ہیں تو اپنا ایڈریس مجھے دیں میں فون کرکے پتا کرتا ہوں کہ وہان آپ کا گھر موجود ہے یا نہیں؟ مجھے معلوم ہے کہ آپ سرٹیفائیڈ جھوٹے ہیں اس لئے کبھی بھی اپنا ایڈریس شئیر نہیں کریں گے پاکستان میں تو ہرطرف خوشحالی ہے۔ وزیراعظم کی اپنا گھر اسکیم کی بدولت لوگوں کو سستے گھر مل رہے ہیں اور پراپرٹی کی قیمتیں بھی گر رہی ہیں آپ سوچنا بند کریں اور آرام سے سو جائیں :yapping: :yapping: :cwl: :doh: :doh: :tape: :swear: :hilar: :hilar: ;-) :clap:

    پلاسٹکی انصافی المعروف جھوٹ کا پلندہ 

    :hilar:

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #8
    ویسے تو مجھے آپ کو قوٹ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ آپ جواب دینا پسند نہیں کرتے شائد آپ اب کوی شے بن چکے ہیں مگر پھر بھی پوچھنے میں حرج نہیں کہ این آر او ملنے کے بعد بھی خورشید شاہ کی پانچ سو ارب کی پراپرٹی پر کوی پکڑ ہوگی یا نہیں؟ زرداری کے سوئس اکاونٹس اور اور سرے محل کا کھوج لگایا جاے گا یا نہیں؟؟ جہانگیر ترین کتنے آرام سے گھوم رہا ہے اسے بھی کٹہرے میں لایا جاے گا یا نہیں؟ ڈالر اگلے ڈھای سال میں ایک سو کا ہوگا یا نہیں؟

    بلیور جگر،جواب نہی دیا تو معذرت۔ وجہ بداخلاقی نہی بلکہ صرف یہ ہے کہ میں کافی عرصہ ہوا فورمز کم ہی دیکھتا ہوں۔ باقی رہا آپ کا سوال تو کوئی سیاست دان، جج یا جنرل کبھی نہی پکڑا جائے گا،یہ ان کا ملک ہے اور باقی رعایا۔ ویسے بھی ان میں سے کسی کو پکڑنے کا فائدہ؟ حکومت تبدیل یا ڈیل ہوتے ہی وہ اپنا اپنا بندہ چھڑوا کر لے جائیں گے۔

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #9
    گھوسٹ صاحب۔۔۔۔۔ آپ کے معاشی مقالے یا آپ کے الفاظ میں آلو چاٹ میں کافی اجزاء جعلی ہیں۔۔۔۔۔ بلکہ اِس آلو چاٹ کا بنیادی جُز، یعنی آلو ہی دو نمبر ہے۔۔۔۔۔ سب سے پہلے تو یہ آپ نے اپنے مقالے کا بنیادی جوہر، جو کہ آپ کے مقالے کے عنوان سے ہی واضح ہوتا ہے، وہ آپ نے شاید غلط فرض کرلیا ہے، کہ بیرونِ مُلک رہنے والے جو زرِ مبادلہ بھیجتے ہیں وہ ملک کی پراپرٹی مارکیٹ میں انویسٹ ہورہا ہے جس کی وجہ سے پراپرٹی کی قیمتوں میں اِضافہ ہورہا ہے۔۔۔۔۔ میرے خیال میں یہ آپ نے غلط فرض کرلیا ہے۔۔۔۔۔ اور شاہد صاحب نے بھی آپ کی توجہ اِسی نکتے کی طرف دلائی ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ اگر اعداد و شمار دیکھے جائیں تو یہ وجہ کافی بودی معلوم ہوتی ہے۔۔۔۔۔ بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں کی جانب سے بھیجا جانے والا زرِ مبادلہ کوئی بیس سے تئیس ارب ڈالر کے آس پاس ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اب یہ ساری کی ساری رقم پراپرٹی مارکیٹ میں نہیں جارہی۔۔۔۔۔ اِس رقم کا اچھا خاصہ حصہ گھر والوں کے خرچوں پر جائے گا۔۔۔۔۔ اب اگر ہم انتہاء درجہ کی سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ فرض کرلیں کہ اِس میں سے آدھی رقم، یعنی دس ارب ڈالر، پراپرٹی مارکیٹ میں جارہا ہے تو یہ کُل پراپرٹی مارکیٹ کا کتنے فیصد ہوگا۔۔۔۔۔ میرے خیال میں پاکستان کی رئیل اسٹیٹ کی ویلیو کوئی پانچ سو ارب سے آٹھ سو ارب ڈالر کے قریب تو ہوگی۔۔۔۔۔ رئیل اسٹیٹ کی مارکیٹ کیپیٹلائزیشن کا اندازہ آپ نئی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائیٹیز، بحریہ اسکیمز میں زمین کی قیمت سے بھی لگا سکتے ہیں۔۔۔۔۔ اور جنرل ہیڈ کوارٹر و آپبارہ کے پُر اَسرار و غازی بندوں کے بعد اب تو نیوی کے غوطہ خور و فضائیہ کے شاہین بھی اِس رئیل اسٹیٹ میں اپنی چونچ گیلی کرنے لگ پڑے ہیں۔۔۔۔۔ تو اب خود ذرا حساب لگالیں کہ باہر سے آنے والے کُل بیس بائیس ارب ڈالر بھی اِس رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کا کتنے فیصد بنتا ہے۔۔۔۔۔ اونٹ میں بھی زیرہ۔۔۔۔۔ پس ثابت ہوا کہ آپ کی آلو چاٹ کا آلو ہی دو نمبر ہے۔۔۔۔۔ جیسا کہ شاہد صاحب نے بھی کہا کہ باہر سے آنے والے زرِ مبادلہ کے مقابلے میں بیسیوں گُنا زیادہ پیسہ پاکستان کے اندر سے ہی پیدا ہو کر اِس مارکیٹ میں جارہا ہے۔۔۔۔۔ اور میری نظر میں یہ ایک کافی خطرناک رجحان ہے۔۔۔۔۔ اور میرے خیال میں اِس ٹرینڈ کی وجوہات کچھ اور ہیں۔۔۔۔۔ جن پر موقع ملا تو لکھنے کی کوشش کروں گا۔۔۔۔۔

    سر جی، ۱۳ بلین ڈالر مشرقِ وسطی سے آتا ہے جہاں ۹۰ فیصد مزدور چالیس سے بچاس ہزار روپئہ مہینے کا کماتے ہیں اور ان ہی لوگوں کے آٹھ آٹھ بچے بیوی اور ماں باپ کے علاوہ بہن بھائی بھی ہوتے ہیں جن کا پیٹ پالنا ان مزدوروں کی ذمہ داری ہے۔ پھر آجائیں یورپ، آپ انگلینڈ میں رہتے ہیں خود ہی دیکھ لیں وہاں پاکستانی اوسطا کتنا کماتے ہیں۔ جسے دیکھو اپنا گھر چلانے کے لئے دو دو جاب کر رہا ہوتا ہے۔ کیا یہ ریل اسٹیٹ میں انویسٹ کریں گے۔ کتنے لوگ ہیں جو گھوسٹ صاحب کی طرح تعلیم یافتہ اور اچھے جابس پر ہیں۔ شاید ایک فیصد۔

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #10
    پراپرٹی میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی نسبت بیسیوں گنا پیسہ مقامی کالے دھن کا ہے۔ اس کے علاوہ انڈسٹریالسٹ نے بھی پچھلے پندرہ سال میں اپنا پیسہ انڈسٹری سے نکال کر ریل سٹیٹ میں انویسٹ کیا ہے۔ مثلا اگر خورشید شاہ سکھر شہر کی ہر بڑی پراپرٹی کا مالک ہے اور اس کی ورتھ پانچ سو ارب بتائی جاتی ہے تو میٹر ریڈر سے یہاں تک کا سفر ایک کھلی کتاب مانند ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ سب سیاست دان، بیوروکریٹ ،جج اور جنرلز مل کر تقریبا ۸۰۰۰ ارب کی پراپرٹی کنٹرول کرتے ہیں۔

    شاہد بھائی،
    پاکستان کی پراپرٹی سیکٹر کے حوالے سے حتمی اعداد و شمار تو شائد فرشتوں کے پاس ہی ہوں گے جو بات سامنے کی ہے کہ پراپرٹی مارکٹ میں بوم مشرف کے دور سے شروع ہوا یہ وہ وقت ہے جب منی لانڈرنگ ، حوالہ وغیرہ پر سختیاں شروع ہو گئیں اور ترسیلات زر میں بے تحاشا اضافہ ہوا میں نے اپنی آنکھوں سے دبئی میں بحریہ ٹاون کے شروع کے پراجیکٹس میں لوگوں کی قطاریں دیکھیں تھیں .
    مشرق وسطی میں کام کرنے والے محنت کشوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ایک دن انکو واپس اپنے وطن جانا ہے لہذا انکی اولین ترجیح اپنی چھت کی تعمیر ہوتی ہے عموما لوگوں کو بینکوں کی طرف سے آسان شرائط اور پاکستان کے مقابلہ میں کہیں کم سود پر قرضوں کی سہولت مل جاتی ہے جو وہ اس مد میں بھی استعمال کرتے ہیں
    اگر آپ نمبرز کو بھی دیکھیں تو اگر فرض کریں کہ پچھلے ٢٠ سالوں میں ١٥٠ ارب ڈالر بھی پراپرٹی میں آیا ہے تو آج کی مالیت کے اعتبار سے یہ رقم ٢٠ ہزار ارب روپوں سے زیادہ کی بنتی ہے جو کہ ایک انتہائی سائز ایبل نمبر ہے
    آپ کی یہ بات مجھے درست لگتی ہے کہ کالا دھن بھی اس کھیل کا بڑا حصہ بنا ہو گا مگر یہ کالا دھن ٢٠٠٢ سے قبل کہاں تھا؟ کیا لوگوں گدوں کے نیچے کیش کی صورت میں چھپا کر سوتے تھے ا؟
    معیشت سے تو ظاہر ہے میری شد بدھ معمولی سی ہے مگر ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ بیرون عامل کے بغیر مقامی مارکٹ کسطرح اتنی دولت پیدا کرسکتی ہے؟ مقامی دولت تو ہم پیدا کرتے نہیں ہیں سارا انحصار تو درآمدات پر ہے اور مقامی بینکوں کا بھی اس سلسلے میں قابل ذکر کردار نہیں ہے .

    آپکے خیال میں جن دو بڑے پراپرٹی کے پراجیکٹس کا وزیر اعظم صاحب ذکر کرتے ہیں کیا وہ مقامی سرمایہ کاری کے لئے ہے یا بیرون سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لئے ہے؟
    میرا اصل نکتہ جو میں زیر بحث لانا چا رہا تھا وہ مقامی آبادی کے ایک بہت وسیع طبقہ کے کی پہنچ سے انکی چھت کا خواب صرف ایک خواب ہی رہ گیا ہے اور اگر اس پہلو پر توجہ نہیں دی گئی تو اس کے انتہائی دور رس اثرات مرتب ہوں گے
    ویسے بہت سارے عناصر اس طرف بھی اشارہ کررہے ہیں کہ پراپرٹی میں بہت بڑا ببل موجود ہے جو کہ بڑھتا ہی جارہا ہے یہ قیمتیں غیر فطری ہیں اور جب یہ ببل پھٹے گا تو بہت سارے لوگ اپنی عمر بھی کی جمع پونجی سے محروم ہو جائیں گے
    آپ کے خیال میں حکومت اس صورتحال کو بہتر کرنے کے لئے کیا اقدامات کرسکتی ہے یا اسکو کرنا چا ہئے؟

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #11
    گھوسٹ صاحب میں نے آج سے پی ٹی آی جائین کرلی ہے لہذا میرا شمار اب دانشوران میں سمجھ لیں،،،،اسی تناظر میں مجھے غور و فکر کے بعد معلوم ہوا کہ آپ پرلے درجے کے جھوٹے ہیں۔ آپ کذب بیانی کررہے ہیں آپ کےوالد صاحب کا کوی پلاٹ ہی نہیں تھا تو اس پر گھر کیسے تعمیر ہوگیا؟ اگر آپ سچے ہیں تو اپنا ایڈریس مجھے دیں میں فون کرکے پتا کرتا ہوں کہ وہان آپ کا گھر موجود ہے یا نہیں؟ مجھے معلوم ہے کہ آپ سرٹیفائیڈ جھوٹے ہیں اس لئے کبھی بھی اپنا ایڈریس شئیر نہیں کریں گے پاکستان میں تو ہرطرف خوشحالی ہے۔ وزیراعظم کی اپنا گھر اسکیم کی بدولت لوگوں کو سستے گھر مل رہے ہیں اور پراپرٹی کی قیمتیں بھی گر رہی ہیں آپ سوچنا بند کریں اور آرام سے سو جائیں :yapping: :yapping: :cwl: :doh: :doh: :tape: :swear: :hilar: :hilar: ;-) :clap:

    بیلیور بھیا،
    آپ اپنا کام جاری رکھیں اور نظر انداز کرنا سیکھیں .
    وہ شعر تو آپ کو یاد ہی ہوگا جو میں نے خاص آپکے لئے کہا تھا وہ “تندی باد مخالف والا”

    :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile:

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #12
     کتنے لوگ ہیں جو گھوسٹ صاحب کی طرح تعلیم یافتہ اور اچھے جابس پر ہیں۔ شاید ایک فیصد۔

    ارے یہ افواہ کس دشمن کی پھیلائی ہوئی ہے؟ کہیں پہلے بھی لکھا تھا کہ جے بھیا کی پان کی دکان کے ساتھ ہی گٹکے کا کھوکھا ہے اللہ کا شکر ہے مارگیج وغیرہ ادا کرکے دال روٹی مل جاتی ہے

    JMP

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #13
    بیلیور بھیا، آپ اپنا کام جاری رکھیں اور نظر انداز کرنا سیکھیں . وہ شعر تو آپ کو یاد ہی ہوگا جو میں نے خاص آپکے لئے کہا تھا وہ “تندی باد مخالف والا” :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile:

    اپنی حالت تو مرزا غالب کے اس شعر جیسی ہے

    کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

    گالیاں  کھا  کے   بے  مزہ   نہ  ہوا

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #14

    ستم تو یہ کہ ہماری صفوں میں شامل ہیں

    چراغ بجھتے ہی خیمہ بدلنے والے لوگ

    ہمارے  دور کا  فرعون  ڈوبتا  ہی  نہیں

    کہاں چلے گئے پانی پہ چلنے والے لوگ

    اقبال اشہر

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #15
    بلیور جگر،جواب نہی دیا تو معذرت۔ وجہ بداخلاقی نہی بلکہ صرف یہ ہے کہ میں کافی عرصہ ہوا فورمز کم ہی دیکھتا ہوں۔ باقی رہا آپ کا سوال تو کوئی سیاست دان، جج یا جنرل کبھی نہی پکڑا جائے گا،یہ ان کا ملک ہے اور باقی رعایا۔ ویسے بھی ان میں سے کسی کو پکڑنے کا فائدہ؟ حکومت تبدیل یا ڈیل ہوتے ہی وہ اپنا اپنا بندہ چھڑوا کر لے جائیں گے۔

    شاہد بھای آپ کو غصہ دلا کر جواب اس لئے لینا پڑا کہ مجھے کچھ عرصے سے خدشہ پیدا ہورہا تھا کہ شائد سیاسی اختلافات کی وجہ سے دوستی متاثر ہوچکی ہے۔ سایستدان تو آتے جاتے رہتے ہیں دوست وہیں رہتے ہیں۔ ویسے مجھے سیاسی اختلاف بھی اتنا نہیں سب ایک جیسے ہیں ابھی آپ نے بھی نشاندہی کی ہے کہ کسی کو پکڑنے کا فائدہ ہی نہیں ڈیل ہوجاتی ہے اور بندہ باہر

    جزاک اللہ خوش رہیں اور کبھی اوسلو آنا ہوا تو ملیں

    :bigthumb:

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #16
    نہیں، نہیں، نہیں۔۔۔۔۔ گھوسٹ صاحب پرلے درجے کے جھوٹے نہیں ہیں۔۔۔۔۔ وہ جھوٹ صرف مخصوص حالات میں بولتے ہیں۔ جیسے کہ اپنے مذہب(ایم کیو ایم) کی تبلیغ کے سلسلے میں۔۔۔۔۔ :cwl: ;-) :cwl: ™©

    چلئے گھوسٹ صاحب جس مٹی میں پلے بڑھے اسی کی تبلیغ کرتے ہیں آپ کی طرح کسی انگریز کی تبلیغ تو نہیں کررہے

    :bigthumb:

    Awan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #17
    گھوسٹ بھائی یہی باتیں دوسرے لوگ بھی کر چکے کہ بیرونی ترسیلات سے پراپرٹی کی قیمتیں بڑھتی ہیں مگر اس کے محیشت پر مجموشی طور پر مثبت اثرات پڑتے ہیں – موجودہ حکومت جو مورٹگیج سسٹم لا رہی ہے ائستہ ائستہ اسی سے گھر بمعہ پلاٹ خریدے جائیںگے – ویسے پنجاب میں پراپرٹی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے پچھلے کچھ سالوں سے پروپرٹی کو بار بار بیچنے کی صورت میں خصوصی ٹیکس کی وجہ سے پروپرٹی کو ہاٹ ایٹم بنا کر سیل کرنے میں کمی ہوئی ہے اور پروپرٹی ڈیلروں کا کام مندا مگر اصلی خریدار کے لئے بہتری ہوئی ہے – محلوم نہیں باقی صوبوں میں یہ ہے کہ نہیں مگر پنجاب میں یہ کامیابی سے چل رہا ہے اور بظاھر چور دروازے نہیں ہیں – پرانے مالک اور نئے مالک کی پروپرٹی پر تصویر جو دفتر والوں نے خود لی ہو بھی پپرز میں ہوتی ہے اس سے جھلسازی میں کافی کمی ہوئی ہے -اسی طرح کرائے دار کے کوائف تھانے میں جمع کرنے سے سیفٹی اور سیکورٹی ہے یوں گھر سے متعلقہ سب چیزیں ایک سسٹم کے اندر آ رہی ہیں کمرشل گاڑیوں کی مکمل انسپکشن ہر چھ مہینے بھد اور سفیٹی پاس نہ کرتی دھوئیں والی گاڑی ریجیکٹ ہو جاتی ہے – لوگوں کا کہنا ہے ہمیں پتا ہی نہیں ہوتا گاڑی رکشہ کہاں گیا ہے اور کون پاس فیل کر رہا ہے تو رشوت کیسے دیں – لاہور کافی حد تک ایک ماڈل شہر بنتا جا رہا ہے کومپٹرائز ڈرائیونگ لائسنس تو بیس سال پہلے ہی بنتے تھے اور بینک بھی اس وقت بھی ابھی صرف پنجاب کے ڈیجیٹل یا کمپیوٹرائزڈ ہوئے تھے – سوری پروپرٹی سے موضوع ہٹا کر میں نے لاہور کا اشتہار چلا دیا مگر یہ باتیں بہت سے دوستوں نے نہیں سنی ہونگیں جو لاہور نہیں جاتے – ایسے ہی تو نہیں کہتے جنے لاہور نی ویکھیا او جمیا ہی نہیں –

    :lol: :lol:

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #18
    گھوسٹ بھائی یہی باتیں دوسرے لوگ بھی کر چکے کہ بیرونی ترسیلات سے پراپرٹی کی قیمتیں بڑھتی ہیں مگر اس کے محیشت پر مجموشی طور پر مثبت اثرات پڑتے ہیں –  – :lol: :lol:

    اعوان بھائی،
    آپ ہمیشہ دلچسپ نکتہ نگاہ سامنے لاتے ہیں. آپ نے فرمایا ہے کہ پراپرٹی کی قیمتیں بڑھنے سے معیشت پر مثبت اثرات پڑتے ہیں ، اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہم لوگوں کی معلومات میں بھی بیش بہا اضافہ ممکن ہو سکے.

    باقی یہ کہاوت ہم نے بھی سنی تھی کہ جس نے لاھور نہیں دیکھا وہ جمیا نہیں . اسی سلسلے میں بچپن میں لاھور جاکر جمنے کی اس شرط کو پورا کیا مگر جب ڈومیسائل کا مطالبہ کیا تو جواب میں ٹھینگا ملا .
    خوشقسمتی سے اسی دورہ میں مرد مومن مرد حق جناب ضیاء الحق اور انکے منہ بولے سیاسی فرزند ارجمند کی زیارت نصیب ہویی الحمدوللہ

    :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile:

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #19
    اپنی حالت تو مرزا غالب کے اس شعر جیسی ہے کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا

    جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
    اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا

    Awan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #20
    اعوان بھائی، آپ ہمیشہ دلچسپ نکتہ نگاہ سامنے لاتے ہیں. آپ نے فرمایا ہے کہ پراپرٹی کی قیمتیں بڑھنے سے معیشت پر مثبت اثرات پڑتے ہیں ، اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہم لوگوں کی معلومات میں بھی بیش بہا اضافہ ممکن ہو سکے. باقی یہ کہاوت ہم نے بھی سنی تھی کہ جس نے لاھور نہیں دیکھا وہ جمیا نہیں . اسی سلسلے میں بچپن میں لاھور جاکر جمنے کی اس شرط کو پورا کیا مگر جب ڈومیسائل کا مطالبہ کیا تو جواب میں ٹھینگا ملا . خوشقسمتی سے اسی دورہ میں مرد مومن مرد حق جناب ضیاء الحق اور انکے منہ بولے سیاسی فرزند ارجمند کی زیارت نصیب ہویی الحمدوللہ :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile:

    گھوسٹ بھائی شاید میں اپنی بات سمجھا نہیں پایا – بیرونی سرمایہ آنے کا ایک منفی پہلو ہے کہ پراپرٹی کی قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں جو لوکل آبادی کی مشکلات میں اضافہ کرتی ہیں مگر اس کے مثبت ثمرات زیادہ ہیں – باہر سے آنے والا سرمایہ ملک میں خرچ ہوتا ہے جس سے سب کے کاروبار صنحت وغیرہ چلتی ہے – اس سرمایہ میں ڈالر آنے سے امپورٹ کے لئے ڈالر میسر ہوتے ہیں – ہر حکومت کے لئے اس کی آبادی کی بہتری اس کا ٹارگٹ ہوتا ہے اور یہ سرمایہ ان فیملیوں کو آسانیاں فراہم کر کے حکومت کے سر سے یہ بوجھ ہٹاتا ہے – ویسے تو اور بہت فائدے ہونگے جو شاہد عباسی صاحب جیسے محیشت دان سمجھا سکتے ہیں –
    پس تحریر : چھ مہینے پہلے اسٹاک کی خرید و فروخت کا کام شروع کیا تھا – ائستہ ائستہ کافی سرمایہ بھی اس میں لگا دیا اور شام کا زیادہ و قت اس کی ریسرچ اور آرٹیکل ریڈنگ میں گزرتا ہے اسلئے فورم پر حاضری کافی کم ہے – امید ہے دو چار مہینے میں بنیادی تربیت مکمل ہو جائے گی اور باقی کاموں کے لئے زیادہ وقت ملے گا

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 22 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi