Home Forums Siasi Discussion بلا تبصرہ

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 25 total)
  • Author
    Posts
  • کک باکسر
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #1

    https://jang.com.pk/news/898615

    میاں صاحب پلیز پاکستان تشریف لائیں، آصف زرداری کا مطالبہ

    سابق صدر آصف علی زرداری نے اپوزیشن اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سے پاکستان واپسی کا مطالبہ کردیا۔

    اسلام آباد میں اپوزیشن اتحاد (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی زیر صدارت سربراہی اجلاس سے آصف علی زرداری نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔

    انہوں نے کہا کہ زندگی کے 14 برس جیل میں گزارے ہیں، میاں صاحب پلیز پاکستان تشریف لائیں، ہم نے سینیٹ انتخابات لڑے۔

    آصف زرداری نے نواز شریف سے مکالمے میں کہا کہ سینیٹر اسحاق ڈار ووٹ ڈالنے نہیں آئے، لڑنا ہے تو ہم سب کو جیل جانا ہوگا۔

    اُن کا کہنا تھا کہ جب 1986 اور 2007 میں شہید بی بی وطن آئیں تو ملک کو موبلائز کیا تھا، لانگ مارچ کی ایسی منصوبہ بندی کرنا ہوگی جیسے 1986 اور 2007 میں کی تھی۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ میاں صاحب، آپ نے اپنے دور میں تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا، میں نے اپنے دور میں تنخواہوں میں اضافہ کیا۔

    کک باکسر
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #2
    زرداری نے پی ڈی ایم کے ساتھ نواز شریف والی کردی 

    :hilar:

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #3
    زرداری نے پی ڈی ایم کے ساتھ نواز شریف والی کردی :hilar:

    اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی۔  

      :lol: :lol: :lol:  

    کک باکسر
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #4

    اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی۔

    :lol: :lol: :lol:

    اتنا ٹھس تبصرہ؟

    گنگ ہو کر رہ گئے

    :hilar:

    کک باکسر
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #5
    کسی منچلے نے ازراہ تفنن آج کے پی ڈی ایم کے اجلاس کی روداد ارسال کی ہے 👇

    زرداری :

    میاں صاحب ! مرد بنو ، واپس آؤ ، ہم تمہارے ساتھ ہیں

    میاں صاحب :

    نہیں بھائی نہیں ۔ جیل کاٹنا بڑا مشکل کام ہے ۔ وہاں مچھر ہوتے ہیں۔ تم اپنا مشورہ اپنے پاس رکھو ۔

    مولوی فضل :

    کچھ اور نہیں تو کم از کم استعفے میرے یاتھ میں دو ورنہ میں رو دونگا ۔

    ہرکارے کی آواز :

    اجلاس ختم ۔ لانگ مارچ نہیں ہو گا ۔ چلو اٹھو اور اپنے اپنے گھروں کو جاؤ ۔

    مریم :

    میرا کیا بنے گا ؟؟؟ حمزہ بھی باہر آگیا ہے ۔ آدھی پارٹی وہ لے گیا ہے 😜😜😜

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #6
    اتنا ٹھس تبصرہ؟ گنگ ہو کر رہ گئے :hilar:

    کیا کسی کی ذھنی اختراع پر بھی کوئ عزت دار تبصرہ ہو سکتا ہے ؟ ۔

    دو کوکینی ، نشے کے بعد پیدل چلتے چلتے ایک پل پر پہنچے ۔ رات کا وقت تھا ، اور پل کے نیچے پانی میں چاند کا عکس نظر آیا ۔ ایک کوکینی نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے دوسرے سے پوچھا ۔” وہ کیا ہے ؟ “
    دوسرے کوکینی نے جواب دیا وہ چاند ہے ۔
    پہلے کوکینی نے حیرت سے کہا ۔ ” اچھا ! ہم اتنے اوپر آگئے ہیں ! ”  :lol: :lol: ۔

    حسن داور
    Participant
    Offline
    • Expert
    #7

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #8
    سیاست اپنی بہترین شکل میں.
    حزب اختلاف کے مختلف الخیال اور متصادم نظریات کے حامل رہنما کم سے کم مشترکہ مفاد کے لئے اکھٹا ہوئے . ہر ایک نے اپنے اپنے فائدے اور نقصان کی کیلکو لیشن کی اور اسی کے حساب سے حکمت عملی اپنانے اور اختیار کرنے پر زور دیا سب بظاہر مشترکہ مفاد کے لئے چند قدم تک ساتھ رہے مگر انفرادی طور پر ایسی حکمت عملی کی جانب نہیں گئے جہاں انکے مفاد کو زک پہنچنے کا اندیشہ تھا
    زرداری کو بہت لوگ اوور ریٹ کرتے ہیں اور اسکو سیاسی جوڑ توڑ میں اپنے تئیں پی ایچ ڈی کا حامل بھی قرار دیتے ہیں میری اسکے بارے میں ہمیشہ سے رائے ہے کہ یہ ایک اسٹریٹ کرمنل لیول کا شخص ہے اگر یہ کویی بہت دور اندیشی کا حامل شخص ہوتا تو آج پی پی پی اندرون سندھ تک محدود نہیں ہو نی تھی. مگر ٹی ٹوینٹی میں لوگ اسکے چوکوں چھکوں سے متاثر ہو جاتے ہیں . اسکا بڑا ہدف بلاول کو وزیر اعظم بنوانا ہے مگر یہ بغیر پنجاب کی حمایت کے نہیں ہو سکتا اور پی ڈی ایم نے بلاول کو یہ پلیٹ فارم مہیا کیا تھا. ایک حد تک یہ نون لیگ کی قربانی تھی.
    میاں صاحب کا حدف بھی مریم کو وزیر اعظم بنوانا ہے اور پی ڈی ایم میں دراڑ ایک طرح سے انکے لئے فائدے مند ہے ایک تو طاقت کا منبع پنجاب کی عوامی حمایت انکے سنگ ہے دوسرے میاں صاحب پنجاب کے عوام کو باور کرواسکتے ہیں کہ پی پی پی نے جمہوریت کی جدوجہد میں انکی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے لہذا اگر کچھ مایلج بلاول کو مل بھی رہی تھی وہ زائل ہو جائے گی اور میاں صاحب اور مریم اپنے ووٹرز سپورٹرز کے سامنے اینٹی اسٹبلشمنٹ انقلابی کے طور پر پہچان بڑھانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جسکا فائدہ انکو اگلے انتخابات میں ہونے کا امکان ہے . یہ راستہ مگر کانٹوں سے لیس ہے اور زیادہ خطرناک ہے اور اسکی غیر متوقع قیمت بھی چکانی پڑ سکتی ہے . میاں جاوید لطیف جیسوں کے ہاتھوں “نا کھپے” جیسی بڑھکیں اپنوں کے لہو کو گرمانے اور گردش میں رکھنے کے کام آسکتی ہیں .
    میاں صاحب کے سامنے اصل سوال یہ ہو گا کہ اب سے لے کر انتخابات تک کسطرح حکومت کو دباؤ میں رکھ کر اور اسکی توجہ ہٹاکر اسکی کارکردگی کے خراب ہونے کا تاثر مسلسل اجاگر کیا جائے . انکے لفافہ صحافی یہ کام بخوبی شروع کرچکے ہیں مگر اسکو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے ساتھ میں جسلے جلوس احتجاج دھرنے وغیرہ بھی جاری رکھنا ہیں .
    خان اپنے لحاظ سے بہت عمدہ پتے کھیل رہا ہے وہ اسٹبلشمنٹ کو بھی دباؤ میں رکھ رہا ہے اور اپنے ووٹرز سپورٹرز کو ابھی تک ماضی کی حکومتوں کی خراب کارکردگی اور کرپشن کی بتیوں کے پیچھے لگایا ہوا ہے ، اگلے ایک ڈیڑھ سال میں اگر معیشت میں کچھ بہتری آگئی تو پی ٹی آئ کی پروپیگنڈہ مشینری کسی بھی غبارے میں ہوا بھرنے کی بہت زیادہ صلاحیت کی حامل ہے مجھے جو ممکنہ منصوبہ متاثر کن لگتا ہے اور جسکو کم وقت میں پنجاب کی عوام تک پہنچایا جاسکتا ہے وہ ہے “صحت کارڈ”. اسکی بہت زیادہ تفصیلات تو میرے سامنے نہیں ہیں مگر بظاہر یہ ایک بہت عمدہ انتخابی کارڈ ثابت ہو سکتا ہے اگر اسکو اپنی روایتی نااہلی کے سپرد نہ کیا گیا .
    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #9
    سیاست اپنی بہترین شکل میں. حزب اختلاف کے مختلف الخیال اور متصادم نظریات کے حامل رہنما کم سے کم مشترکہ مفاد کے لئے اکھٹا ہوئے . ہر ایک نے اپنے اپنے فائدے اور نقصان کی کیلکو لیشن کی اور اسی کے حساب سے حکمت عملی اپنانے اور اختیار کرنے پر زور دیا سب بظاہر مشترکہ مفاد کے لئے چند قدم تک ساتھ رہے مگر انفرادی طور پر ایسی حکمت عملی کی جانب نہیں گئے جہاں انکے مفاد کو زک پہنچنے کا اندیشہ تھا زرداری کو بہت لوگ اوور ریٹ کرتے ہیں اور اسکو سیاسی جوڑ توڑ میں اپنے تئیں پی ایچ ڈی کا حامل بھی قرار دیتے ہیں میری اسکے بارے میں ہمیشہ سے رائے ہے کہ یہ ایک اسٹریٹ کرمنل لیول کا شخص ہے اگر یہ کویی بہت دور اندیشی کا حامل شخص ہوتا تو آج پی پی پی اندرون سندھ تک محدود نہیں ہو نی تھی. مگر ٹی ٹوینٹی میں لوگ اسکے چوکوں چھکوں سے متاثر ہو جاتے ہیں . اسکا بڑا ہدف بلاول کو وزیر اعظم بنوانا ہے مگر یہ بغیر پنجاب کی حمایت کے نہیں ہو سکتا اور پی ڈی ایم نے بلاول کو یہ پلیٹ فارم مہیا کیا تھا. ایک حد تک یہ نون لیگ کی قربانی تھی. میاں صاحب کا حدف بھی مریم کو وزیر اعظم بنوانا ہے اور پی ڈی ایم میں دراڑ ایک طرح سے انکے لئے فائدے مند ہے ایک تو طاقت کا منبع پنجاب کی عوامی حمایت انکے سنگ ہے دوسرے میاں صاحب پنجاب کے عوام کو باور کرواسکتے ہیں کہ پی پی پی نے جمہوریت کی جدوجہد میں انکی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے لہذا اگر کچھ مایلج بلاول کو مل بھی رہی تھی وہ زائل ہو جائے گی اور میاں صاحب اور مریم اپنے ووٹرز سپورٹرز کے سامنے اینٹی اسٹبلشمنٹ انقلابی کے طور پر پہچان بڑھانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جسکا فائدہ انکو اگلے انتخابات میں ہونے کا امکان ہے . یہ راستہ مگر کانٹوں سے لیس ہے اور زیادہ خطرناک ہے اور اسکی غیر متوقع قیمت بھی چکانی پڑ سکتی ہے . میاں جاوید لطیف جیسوں کے ہاتھوں “نا کھپے” جیسی بڑھکیں اپنوں کے لہو کو گرمانے اور گردش میں رکھنے کے کام آسکتی ہیں . میاں صاحب کے سامنے اصل سوال یہ ہو گا کہ اب سے لے کر انتخابات تک کسطرح حکومت کو دباؤ میں رکھ کر اور اسکی توجہ ہٹاکر اسکی کارکردگی کے خراب ہونے کا تاثر مسلسل اجاگر کیا جائے . انکے لفافہ صحافی یہ کام بخوبی شروع کرچکے ہیں مگر اسکو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے ساتھ میں جسلے جلوس احتجاج دھرنے وغیرہ بھی جاری رکھنا ہیں . خان اپنے لحاظ سے بہت عمدہ پتے کھیل رہا ہے وہ اسٹبلشمنٹ کو بھی دباؤ میں رکھ رہا ہے اور اپنے ووٹرز سپورٹرز کو ابھی تک ماضی کی حکومتوں کی خراب کارکردگی اور کرپشن کی بتیوں کے پیچھے لگایا ہوا ہے ، اگلے ایک ڈیڑھ سال میں اگر معیشت میں کچھ بہتری آگئی تو پی ٹی آئ کی پروپیگنڈہ مشینری کسی بھی غبارے میں ہوا بھرنے کی بہت زیادہ صلاحیت کی حامل ہے مجھے جو ممکنہ منصوبہ متاثر کن لگتا ہے اور جسکو کم وقت میں پنجاب کی عوام تک پہنچایا جاسکتا ہے وہ ہے “صحت کارڈ”. اسکی بہت زیادہ تفصیلات تو میرے سامنے نہیں ہیں مگر بظاہر یہ ایک بہت عمدہ انتخابی کارڈ ثابت ہو سکتا ہے اگر اسکو اپنی روایتی نااہلی کے سپرد نہ کیا گیا .

    بہت خوب گھوسٹ صاحب، بہت عمدہ تبصرہ ہے

    ۔

    ۔ہوس و وفا کی سیاستوں میں بھی کامیاب نہیں رہا

    کوئی چہرہ ایسا بھی چاہیئے جو پس نقاب نہیں رہا

    تری آرزو سے بھی کیوں نہیں غم زندگی میں کوئی کمی

    یہ سوال وہ ہے کہ جس کا اب کوئی اک جواب نہیں رہا

    تھیں سماعتیں سر ہاؤ ہو چھڑی قصہ خانوں کی گفتگو

    وہی جس نے بزم سجائی تھی وہی باریاب نہیں رہا 

     کم و بیش ایک سے پیرہن کم و بیش ایک سا ہے چلن

    سر رہ گزر کسی وصف کا کوئی انتخاب نہیں رہا

    وہ کتاب دل جسے ربط تھا ترے کیف ہجر و وصال سے

    وہ کتاب دل تو لکھی گئی مگر انتساب نہیں رہا

    میں ہر ایک شب یہی بند آنکھوں سے پوچھتا ہوں سحر تلک

    کہ یہ نیند کس لیے اڑ گئی اگر ایک خواب نہیں رہا

    یہاں راستے بھی ہیں بے شجر ہے منافقت بھی یہاں ہنر

    مجھے اپنے آپ پہ فخر ہے کہ میں کامیاب نہیں رہا

    فقط ایک لمحے میں منکشف ہوئی شمع موسم آرزو

    سحرؔ اس کے چہرے کی سمت جب گل آفتاب نہیں رہا

    • This reply was modified 2 years ago by Zaidi.
    کک باکسر
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #10
    سیاست اپنی بہترین شکل میں. حزب اختلاف کے مختلف الخیال اور متصادم نظریات کے حامل رہنما کم سے کم مشترکہ مفاد کے لئے اکھٹا ہوئے . ہر ایک نے اپنے اپنے فائدے اور نقصان کی کیلکو لیشن کی اور اسی کے حساب سے حکمت عملی اپنانے اور اختیار کرنے پر زور دیا سب بظاہر مشترکہ مفاد کے لئے چند قدم تک ساتھ رہے مگر انفرادی طور پر ایسی حکمت عملی کی جانب نہیں گئے جہاں انکے مفاد کو زک پہنچنے کا اندیشہ تھا زرداری کو بہت لوگ اوور ریٹ کرتے ہیں اور اسکو سیاسی جوڑ توڑ میں اپنے تئیں پی ایچ ڈی کا حامل بھی قرار دیتے ہیں میری اسکے بارے میں ہمیشہ سے رائے ہے کہ یہ ایک اسٹریٹ کرمنل لیول کا شخص ہے اگر یہ کویی بہت دور اندیشی کا حامل شخص ہوتا تو آج پی پی پی اندرون سندھ تک محدود نہیں ہو نی تھی. مگر ٹی ٹوینٹی میں لوگ اسکے چوکوں چھکوں سے متاثر ہو جاتے ہیں . اسکا بڑا ہدف بلاول کو وزیر اعظم بنوانا ہے مگر یہ بغیر پنجاب کی حمایت کے نہیں ہو سکتا اور پی ڈی ایم نے بلاول کو یہ پلیٹ فارم مہیا کیا تھا. ایک حد تک یہ نون لیگ کی قربانی تھی. میاں صاحب کا حدف بھی مریم کو وزیر اعظم بنوانا ہے اور پی ڈی ایم میں دراڑ ایک طرح سے انکے لئے فائدے مند ہے ایک تو طاقت کا منبع پنجاب کی عوامی حمایت انکے سنگ ہے دوسرے میاں صاحب پنجاب کے عوام کو باور کرواسکتے ہیں کہ پی پی پی نے جمہوریت کی جدوجہد میں انکی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے لہذا اگر کچھ مایلج بلاول کو مل بھی رہی تھی وہ زائل ہو جائے گی اور میاں صاحب اور مریم اپنے ووٹرز سپورٹرز کے سامنے اینٹی اسٹبلشمنٹ انقلابی کے طور پر پہچان بڑھانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جسکا فائدہ انکو اگلے انتخابات میں ہونے کا امکان ہے . یہ راستہ مگر کانٹوں سے لیس ہے اور زیادہ خطرناک ہے اور اسکی غیر متوقع قیمت بھی چکانی پڑ سکتی ہے . میاں جاوید لطیف جیسوں کے ہاتھوں “نا کھپے” جیسی بڑھکیں اپنوں کے لہو کو گرمانے اور گردش میں رکھنے کے کام آسکتی ہیں . میاں صاحب کے سامنے اصل سوال یہ ہو گا کہ اب سے لے کر انتخابات تک کسطرح حکومت کو دباؤ میں رکھ کر اور اسکی توجہ ہٹاکر اسکی کارکردگی کے خراب ہونے کا تاثر مسلسل اجاگر کیا جائے . انکے لفافہ صحافی یہ کام بخوبی شروع کرچکے ہیں مگر اسکو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے ساتھ میں جسلے جلوس احتجاج دھرنے وغیرہ بھی جاری رکھنا ہیں . خان اپنے لحاظ سے بہت عمدہ پتے کھیل رہا ہے وہ اسٹبلشمنٹ کو بھی دباؤ میں رکھ رہا ہے اور اپنے ووٹرز سپورٹرز کو ابھی تک ماضی کی حکومتوں کی خراب کارکردگی اور کرپشن کی بتیوں کے پیچھے لگایا ہوا ہے ، اگلے ایک ڈیڑھ سال میں اگر معیشت میں کچھ بہتری آگئی تو پی ٹی آئ کی پروپیگنڈہ مشینری کسی بھی غبارے میں ہوا بھرنے کی بہت زیادہ صلاحیت کی حامل ہے مجھے جو ممکنہ منصوبہ متاثر کن لگتا ہے اور جسکو کم وقت میں پنجاب کی عوام تک پہنچایا جاسکتا ہے وہ ہے “صحت کارڈ”. اسکی بہت زیادہ تفصیلات تو میرے سامنے نہیں ہیں مگر بظاہر یہ ایک بہت عمدہ انتخابی کارڈ ثابت ہو سکتا ہے اگر اسکو اپنی روایتی نااہلی کے سپرد نہ کیا گیا .

    آج کچھ لیگیوں کی پوسٹس دیکھ کر مجھے تو کراچی کے وہ دن یاد آرہے ہیں جب بھائی روز کہتے تھے میں لندن چھوڑ کر پاکستان واپس آرہا ہوں اور سارے کارکن کہتے تھے، نہیں بھائی …نہیں بھائی آپ وہیں رہو  

    :hilar:

    کک باکسر
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #11

    کیا کسی کی ذھنی اختراع پر بھی کوئ عزت دار تبصرہ ہو سکتا ہے ؟ ۔

    دو کوکینی ، نشے کے بعد پیدل چلتے چلتے ایک پل پر پہنچے ۔ رات کا وقت تھا ، اور پل کے نیچے پانی میں چاند کا عکس نظر آیا ۔ ایک کوکینی نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے دوسرے سے پوچھا ۔” وہ کیا ہے ؟ “ دوسرے کوکینی نے جواب دیا وہ چاند ہے ۔ پہلے کوکینی نے حیرت سے کہا ۔ ” اچھا ! ہم اتنے اوپر آگئے ہیں ! ” :lol: :lol: ۔

    مریم نواز زرداری

    :hilar:

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #12
    آج کچھ لیگیوں کی پوسٹس دیکھ کر مجھے تو کراچی کے وہ دن یاد آرہے ہیں جب بھائی روز کہتے تھے میں لندن چھوڑ کر پاکستان واپس آرہا ہوں اور سارے کارکن کہتے تھے، نہیں بھائی …نہیں بھائی آپ وہیں رہو :hilar:

    رفتہ رفتہ منقلب ہوتی گئی رسمِ چمن
    دھیرے دھیرے نغمۂ دل بھی فغاں بنتا گیا

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile:

    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #13
    سانجھے کی ہنڈیاں چوراہے میں پھوٹے

    پی ڈی ایم کی تحریک کیا چلنی تھی اس کو قائم رکھنا ہی مشکل ہو رہا ہے

    صحرائی
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #14

    میرے خیال سے یہ پراجیکٹ تبدیلی دس سال چلے گا ، جس نہج پر حالات آج ہے اس سے آہستہ آہستہ چیزیں بہتری کی طرف جائے گی

    یہ ایک پراجیکٹ ہے نہ کہ عوامی حکومت ، عوام کو قرضوں سے ریلیف دینا مقصود نہیں بلکہ جتنی ویلتھ جینرشن ہو گی اتنا ریلیف ، فلحال تو الٹا عوام سے ہی نکال رہے ہے

    ایک دو چلیجینز تھے جیسے فائز عیسا ، پی ڈی ایم …. ایک سائیکو نکلا ، پی ڈی ایم ٹھس ہو گئی …جنرل فیض اس پراجیکٹ کو کیری آن کرےگا بطور نیکسٹ آرمی چیف

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #15

    میرے خیال سے یہ پراجیکٹ تبدیلی دس سال چلے گا ، جس نہج پر حالات آج ہے اس سے آہستہ آہستہ چیزیں بہتری کی طرف جائے گی

    یہ ایک پراجیکٹ ہے نہ کہ عوامی حکومت ، عوام کو قرضوں سے ریلیف دینا مقصود نہیں بلکہ جتنی ویلتھ جینرشن ہو گی اتنا ریلیف ، فلحال تو الٹا عوام سے ہی نکال رہے ہے

    ایک دو چلیجینز تھے جیسے فائز عیسا ، پی ڈی ایم …. ایک سائیکو نکلا ، پی ڈی ایم ٹھس ہو گئی …جنرل فیض اس پراجیکٹ کو کیری آن کرےگا بطور نیکسٹ آرمی چیف

    جنرل فیض حمید جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے پانچ ماہ پہلے آئی ایس آئی چیف کی حیثیت سے اپنے تین سال پورے کر چکا ہوگا. جب جنرل باجوہ ریٹائر ہوگا تو اس وقت تین جنرلز (جنرل ساحر شمشاد مرزا، جنرل اظہر عباس، جنرل نعمان محمود) جنرل فیض حمید سے سینئیر ہونگے. کیا عمران خان میں اتنی جرات ہوگی کہ تین سینیئر جنرلز کو نظر انداز کرکے فیض حمید کو آرمی چیف بنا سکے؟

    صحرائی
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #16

    باوا جی ، حالات تو یہی بتا رہے ہے کہ جنرل فیض نیکسٹ ان لائن ہے ، لیکن آپ کی بات بھی ٹھیک ہے تین جنرلز کو بائی پاس کرنا آسان نہیں

    بہرحال پاکستانی حالات پر اتنی طویل پیشن گوئی نہیں کرنی چاہئیے ، اگلے چوبیس گھنٹے میں بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے

    جنرل فیض حمید جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے پانچ ماہ پہلے آئی ایس آئی چیف کی حیثیت سے اپنے تین سال پورے کر چکا ہوگا. جب جنرل باجوہ ریٹائر ہوگا تو اس وقت تین جنرلز (جنرل ساحر شمشاد مرزا، جنرل اظہر عباس، جنرل نعمان محمود) جنرل فیض حمید سے سینئیر ہونگے. کیا عمران خان میں اتنی جرات ہوگی کہ تین سینیئر جنرلز کو نظر انداز کرکے فیض حمید کو آرمی چیف بنا سکے؟
    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #17

    باوا جی ، حالات تو یہی بتا رہے ہے کہ جنرل فیض نیکسٹ ان لائن ہے ، لیکن آپ کی بات بھی ٹھیک ہے تین جنرلز کو بائی پاس کرنا آسان نہیں

    بہرحال پاکستانی حالات پر اتنی طویل پیشن گوئی نہیں کرنی چاہئیے ، اگلے چوبیس گھنٹے میں بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے

    صحرائی بھائی

    آپکی بات درست ہے کہ پاکستان میں سسٹم طرح چل رہا ہے اسے مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل کے بارے میں کوئی پشین گوئی کرنا بہت مشکل ہے. ویسے بھی جس مرضی جرنیل کو آرمی چیف بنا دیں، اس نے اپنی فطرت سے مجبور ہو کر جمہوریت کو ڈسنا ہی ہے. میں نے تو دیکھا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں جس جرنیل کو نیچے سے اٹھا کر آرمی چیف بنایا ہے، اس نے اس ملک اور آئین کو ہی نہیں بلکہ اسے نیچے سے اٹھا کر اوپر لانے والوں کو بھی ڈسا ہے

    پاکستان کے آرمی چیفس کی تاریخ بھی بہت دلچسپ ہے. کہنے کو تو چودہ میں سے چار پاکستانی آرمی چیف (جنرل ٹکّا خان، جنرل اسلم بیگ، جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل اشفاق کیانی) سینیئر موسٹ تھے لیکن حقیقت میں ایک ہی سینیئر موسٹ (جنرل جہانگیر کرامت) کو آرمی چیف بنایا گیا تھا جبکہ باقی تین اپنے سے پہلے والے آرمی چیف کو اپنے راستے سے ہٹا کر آرمی چیف بن گئے تھے. جنرل ٹکّا خان کو سپرسیڈ کرکے جنرل گل حسن کو آرمی چیف بنایا گیا تھا لیکن جنرل ٹکّا خان نے بھٹو سے ملکر تین ماہ کے اندر ہی جنرل گل حسن کی چھٹی کروا کر خود آرمی چیف بن گئے. جنرل اسلم بیگ ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے نتیجے میں آرمی چیف بن گئے اور جنرل اشفاق کیانی جنرل پرویز مشرف کی وردی اتروا کر آرمی چیف بن گئے. جنرل ٹکّا خان پاکستان کی تاریخ کے وہ واحد آرمی چیف ہیں جو سپرسیڈ ہو کر بھی آرمی چیف بن گئے

    ملک میں مارشل لا لگانے والے چاروں جرنیل وہ تھے جنھیں نیچے سے اٹھا کر اوپر لایا گیا تھا. جس آرمی چیف کو جتنا نیچے سے اٹھا کر اوپر لایا گیا وہ اتنا ہی خطرناک ثابت ہوا. جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور جنرل پرویز مشرف کو دو، دو سینیئر جرنیلوں کو سپرسیڈ کرکے آرمی چیف بنایا گیا جبکہ جنرل ضیاء الحق کو ساتویں نمبر سے اٹھا کر اوپر لایا گیا تھا. ان فوجی آمروں میں جنرل ایوب خان سات سال، جنرل یحییٰ خان پانچ سال، جنرل ضیاء الحق گیارہ سال اور جنرل پرویز مشرف نو سال آرمی چیف رہے

    جمہوری حکمرانوں میں سے بھٹو نے تین آرمی چیف (جنرل گل حسن، جنرل ٹکّا خان، جنرل ضیاء الحق) بنائے جن میں سے دو جونیئر تھے. نواز شریف نے پانچ آرمی چیف (جنرل آصف نواز جنجوعہ، جنرل وحید کاکڑ، جنرل پرویز مشرف، جنرل راحیل شریف، جنرل باجوہ) بنائے اور پانچوں کے پانچوں جونیئر تھے. بینظیر بھٹو نے ایک ہی آرمی چیف (جنرل جہانگیر کرامت) بنایا اور وہ سینیئر موسٹ تھا

    دو جمہوری حکمرانوں نے آرمی چیف کو اس کی مدت ملازمت کے برابر ایکسٹینشن دی، اس طرح وہ چھ سال آرمی چیف رہے. یوسف رضا گیلانی نے جنرل اشفاق کیانی کو اور عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دی

    فوجی حکمرانوں کے علاوہ جنرل موسیٰ آٹھ سال تک جبکہ جنرل ٹکّا جان چار سال آرمی چیف رہے

    تین آرمی چیف اپنی تین سال کی مدت پوری کرکے ریٹائر ہو گئے جن میں جنرل اسلم بیگ، جنرل وحید کاکڑ اور جنرل راحیل شریف شامل ہیں. جنرل اسلم بیگ اور جنرل وحید کاکڑ نے ایکسٹینشن لینے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی جبکہ جنرل راحیل شریف ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود نواز شریف سے ایکسٹینشن حاصل نہ کر سکے

    تین آرمی چیف اپنی تین سالہ مدت نہ پوری کر سکے ان میں جنرل گل حسن، جنرل آصف نواز جنجوعہ اور جنرل کرامت جہانگیر شامل ہیں. جنرل گل حسن کو آرمی چیف بننے کے صرف تین ماہ بعد حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں بھٹو نے فارغ کر دیا گیا، جنرل آصف نواز جنجوعہ انتقال کی وجہ سے اپنی مدت پوری نہ کر سکے اور جنرل جہانگیر کرامت کو تین سال پورے کرنے سے تین ماہ پہلے نواز شریف نے آستیفہ دے کر گھر جانے پر مجبور کر دیا

    جنرل ضیاء الدین بٹ کو صدر مملکت کی طرف سے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف کے عہدے سے ہٹا کر آرمی چیف بنانے کی نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا اور وزیر اعظم نواز شریف نے وزیر اعظم ہاؤس میں ایک تقریب میں انہیں آرمی چیف کے اسٹارز بھی لگانے لیکن وہ فوج کی طرف سے حکومت سنبھال لینے کی وجہ سے آرمی چیف کا آفس نہ سنبھال سکے. فوج نے منتخب وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت ختم کرکے نواز شریف اور ضیاء الدین بٹ دونوں کو گرفتار کر لیا. ضیاء الدین بٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بعد دوسرے آئی ایس آئی چیف تھے جو آرمی چیف بنائے گئے تھے

    • This reply was modified 1 year, 12 months ago by Bawa.
    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #18
    صحرائی بھائی آپکی بات درست ہے کہ پاکستان میں سسٹم طرح چل رہا ہے اسے مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل کے بارے میں کوئی پشین گوئی کرنا بہت مشکل ہے. ویسے بھی جس مرضی جرنیل کو آرمی چیف بنا دیں، اس نے اپنی فطرت سے مجبور ہو کر جمہوریت کو ڈسنا ہی ہے. میں نے تو دیکھا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں جس جرنیل کو نیچے سے اٹھا کر آرمی چیف بنایا ہے، اس نے اس ملک اور آئین کو ہی نہیں بلکہ اسے نیچے سے اٹھا کر اوپر لانے والوں کو بھی ڈسا ہے پاکستان کے آرمی چیفس کی تاریخ بھی بہت دلچسپ ہے. کہنے کو تو چودہ میں سے چار پاکستانی آرمی چیف (جنرل ٹکّا خان، جنرل اسلم بیگ، جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل اشفاق کیانی) سینیئر موسٹ تھے لیکن حقیقت میں ایک ہی سینیئر موسٹ (جنرل جہانگیر کرامت) کو آرمی چیف بنایا گیا تھا جبکہ باقی تین اپنے سے پہلے والے آرمی چیف کو اپنے راستے سے ہٹا کر آرمی چیف بن گئے تھے. جنرل ٹکّا خان کو سپرسیڈ کرکے جنرل گل حسن کو آرمی چیف بنایا گیا تھا لیکن جنرل ٹکّا خان نے بھٹو سے ملکر تین ماہ کے اندر ہی جنرل گل حسن کی چھٹی کروا کر خود آرمی چیف بن گئے. جنرل اسلم بیگ ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے نتیجے میں آرمی چیف بن گئے اور جنرل اشفاق کیانی جنرل پرویز مشرف کی وردی اتروا کر آرمی چیف بن گئے. جنرل ٹکّا خان پاکستان کی تاریخ کے وہ واحد آرمی چیف ہیں جو سپرسیڈ ہو کر بھی آرمی چیف بن گئے ملک میں مارشل لا لگانے والے چاروں جرنیل وہ تھے جنھیں نیچے سے اٹھا کر اوپر لایا گیا تھا. جس آرمی چیف کو جتنا نیچے سے اٹھا کر اوپر لایا گیا وہ اتنا ہی خطرناک ثابت ہوا. جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور جنرل پرویز مشرف کو دو، دو سینیئر جرنیلوں کو سپرسیڈ کرکے آرمی چیف بنایا گیا جبکہ جنرل ضیاء الحق کو ساتویں نمبر سے اٹھا کر اوپر لایا گیا تھا. ان فوجی آمروں میں جنرل ایوب خان سات سال، جنرل یحییٰ خان پانچ سال، جنرل ضیاء الحق گیارہ سال اور جنرل پرویز مشرف نو سال آرمی چیف رہے جمہوری حکمرانوں میں سے بھٹو نے تین آرمی چیف (جنرل گل حسن، جنرل ٹکّا خان، جنرل ضیاء الحق) بنائے جن میں سے دو جونیئر تھے. نواز شریف نے پانچ آرمی چیف (جنرل آصف نواز جنجوعہ، جنرل وحید کاکڑ، جنرل پرویز مشرف، جنرل راحیل شریف، جنرل باجوہ) بنائے اور پانچوں کے پانچوں جونیئر تھے. بینظیر بھٹو نے ایک ہی آرمی چیف (جنرل جہانگیر کرامت) بنایا اور وہ سینیئر موسٹ تھا دو جمہوری حکمرانوں نے آرمی چیف کو اس کی مدت ملازمت کے برابر ایکسٹینشن دی، اس طرح وہ چھ سال آرمی چیف رہے. یوسف رضا گیلانی نے جنرل اشفاق کیانی کو اور عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دی فوجی حکمرانوں کے علاوہ جنرل موسیٰ آٹھ سال تک جبکہ جنرل ٹکّا جان چار سال آرمی چیف رہے

    باواجی ،آپ کا مطلب ہے باڑ کھیت کو کھانے کی عادی ہے ۔ کوئ تو ہوگا جو اس حرام زدگی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرے گا ۔ وہ کوئ کون ہوگا یہ وقت ہی بتائے گا ۔

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #19

    باواجی ،آپ کا مطلب ہے باڑ کھیت کو کھانے کی عادی ہے ۔ کوئ تو ہوگا جو اس حرام زدگی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرے گا ۔ وہ کوئ کون ہوگا یہ وقت ہی بتائے گا ۔

    فوج سے ملک کا قبضہ چھڑانا بہت مشکل ہے زیدی بھائی. کسی شریف آدمی کے ایک پلاٹ پر کوئی بدمعاش قبضہ کر لے تو وہ ساری عمر اس سے اپنے پلاٹ کا قبضہ نہیں چھڑا سکتا ہے، یہ تو پورے ملک اور اس کے خزانوں پر قبضے کا معاملہ ہے. جدید ترین اسلحہ سے مسلح وردی پوش دہشتگردوں سے اپنے ملک کا قبضہ چھڑانا اب ایک خواب ہی لگتا ہے. بدمعاشوں سے قبضہ چھڑانے کیلیے نہ صرف ان سے بڑے بدمعاشوں سے مدد لینی پڑتی ہے بلکہ ناقابل تلافی جانی و مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا ہے. حتی کہ قابض فوجیوں کے ہاتھوں بے شمار عورتوں کی عصمتیں بھی لٹانی پڑتی ہیں

    کیا ہم بھول گئے ہیں کہ بنگالیوں نے پاکستانی فوج سے اپنے ملک کا قبضہ چھڑانے کی کیا قیمت ادا کی تھی؟ کیا ہم اس کیلیے تیار ہیں؟

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #20
    فوج سے ملک کا قبضہ چھڑانا بہت مشکل ہے زیدی بھائی. کسی شریف آدمی کے ایک پلاٹ پر کوئی بدمعاش قبضہ کر لے تو وہ ساری عمر اس سے اپنے پلاٹ کا قبضہ نہیں چھڑا سکتا ہے، یہ تو پورے ملک اور اس کے خزانوں پر قبضے کا معاملہ ہے. جدید ترین اسلحہ سے مسلح وردی پوش دہشتگردوں سے اپنے ملک کا قبضہ چھڑانا اب ایک خواب ہی لگتا ہے. بدمعاشوں سے قبضہ چھڑانے کیلیے نہ صرف ان سے بڑے بدمعاشوں سے مدد لینی پڑتی ہے بلکہ ناقابل تلافی جانی و مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا ہے. حتی کہ قابض فوجیوں کے ہاتھوں بے شمار عورتوں کی عصمتیں بھی لٹانی پڑتی ہیں کیا ہم بھول گئے ہیں کہ بنگالیوں نے پاکستانی فوج سے اپنے ملک کا قبضہ چھڑانے کی کیا قیمت ادا کی تھی؟ کیا ہم اس کیلیے تیار ہیں؟

    قوموں کی تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ہیں باواجی ، جب لوگوں نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اب بہت ہوگیا۔ اینف از اینف ۔اس بدمعاشی سے نبٹنا نہ تو کسی موجودہ سیاسی لیڈر کے بس کی بات ہے اور نہ ہی اس قوم میں کوئ ایسا دیدہ ور نظر آتا ہے جو اپنی حکمت عملی سے ان قوتوں کو پیچھے دھکیل سکے ۔ لیکن باواجی ، جیسے مایوسی کفر ہے اسی طرح ناامیدی بھی گناہ ہے ۔ اس قوم کو اس درجہ کا شعور آنے میں ابھی کئ نسلوں کا فاصلہ ہے ۔

    شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر ہے
    اپنے حصے کی کوئ شمع جلائے رکھنا ۔

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 25 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi