Thread:
انگور کا دانہ
- This topic has 0 replies, 1 voice, and was last updated 1 year, 9 months ago by
حسن داور. This post has been viewed 251 times
-
AuthorPosts
-
8 Jun, 2021 at 12:23 am #1
دروازے پہ دستک ہوئی- ماں نے دروازہ کھولا تو سامنے تھکّی ہاری سویرا کھڑی تھی
خیریت بیٹا؟ اکیلی؟ وقار کہاں ہے؟
اماں نے پے درپے کئی سوال جڑ دیے- معاملہ ہی کچھ ایسا تھا- ابھی دو روز پہلے ہی تو سویرا کی رخصتی ہوئی تھی- اماں کے ذہن میں بے شمار خدشات سنپولوں کی طرح سر اٹھانے لگے- اگرچہ مکلاوا کی رسم ابھی باقی تھی، مگر اس کےلیے بھی میاں بیوی کا ساتھ آنا ضروری تھا
سویرا نے روہانسی ہو کر اماں کی طرف دیکھا ، پھر اپنا بیگ وہیں چھوڑ ، آنسوؤں کو پیتی اپنے کمرے میں چلی گئی
اگلے دو گھنٹے تک ماں نے بیٹی سے کچھ بات نہ کی- بس خاموشی سے دودھ اور پائن کیک کمرے میں پہنچا کر بال اس کے سہلا کر لوٹ آئی
اماں عصمت ایک جہاندیدہ خاتون تھیں اور اس بات سے خوب آشنا تھیں کہ گرہستی کے نئے سفر میں بیٹی کو کیا کیا مسائل درپیش ہو سکتے ہیں- ان نازک گتھیوں کو جتنا کھینچا جائے یہ اتنی ہی الجھتی جاتی ہیں
شام 5 بجے تک بیگ صاحب عموماً دفتر سے آ جایا کرتے تھے- عصمت یہ معاملہ شوہر کے سامنے ہرگز نہ رکھنا چاہتی تھیں مبادا مزید الجھ جائے- ٹھیک 3 بجے وہ بیٹی کے کمرے میں آئیں تو وہ بستر پہ چت لیٹی چھت کو گھور رہی تھی
اماں خاموشی سے اس کے سرہانے بیٹھ گئیں پھر بڑی محبت سے سر اس کا گود میں لے کر پوچھا
بتاؤ بٹیا کیا ہوا؟
سویرا کی نگاہیں بدستور چھت پہ گڑھی تھیں- وہ نہایت حفیف آواز میں بولی، کچھ نہیں
پھر بھی؟ کچھ بتاؤ تو؟ سویرا کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے انہوں نے پوچھا
کیا بتاؤں اماں؟ سویرا نے تڑپ کر کہا اور اٹھ کے بیٹھ گئی- آپ نے مجھے ایک نلیق کے پلّے باندھ دیا- کسی کام کا نہیں ہے وہ
اس کے بعد سویرا نے اماں کو وہ سب کچھ کھل کے بتا دیا جو وہ کسی اور کو نہیں بتلا سکتی تھی
تو فکر نہ کر بیٹی- میں ہوں ناں- سب سنبھال لیتی ہوں
امّاں عصمت کمرے سے نکلیں تو چہرے پہ بلا کا اطمینان تھا- بیگ صاحب کے دفتر سے آنے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا اور یہی فیصلہ کن گھڑی تھی
اگلے 20 منٹ میں وہ وقار کو فون کال کر کے اپنے گھر پہ بلا چکی تھیں
٢٨ سالہ وقار بظاہر ٹھیک ٹھاک ہینڈسم نوجوان تھا- شادی میں ماں باپ اور ان دونوں کی پسند شامل رہی تھی- دونوں خاندانوں نے بچت کمیٹیوں کی گولک توڑ کر شادی کا فریضہ ادا کیا تھا مگر ایک رات میں ہی سب سپنے ٹوٹ چکے تھے
وقار، شرمسار ، سر جھکائے ان کے سامنے بیٹھا چائے کی چسکیاں لیتا رہا- آخر ساسو ماں نے خاموشی توڑی
بیٹا جب طاقت نہ تھی تو کچّی ہوّس کیوں پکائی؟
یہ سن کر اس مردِ بیمار نے سر اٹھایا اور کہا، خدا کی قسم لے لو اماں- ایسا کچھ نہیں- بس ماں باپ کی تربیّت ہی ایسی تھی کہ پڑھائی کے سوا کچھ سوچنے کا موقع ہی نہ ملا- فرسٹ پوزیشن کے چکر میں کتابی کیڑا بنا رہا- یقین کیجیے ، لائف میں پہلی بار کسی لڑکی کو چھوا ہے …. اور چھوتے ہی ….. بس ایک موقع اور دیجیے مجھے- خدارا
شام 5 بجے بیگ صاحب کے گھر پہنچنے سے پہلے ہی سارا معاملہ درست ہو چکا تھا- سویرا اپنے شوہر وقار کے ساتھ واپس جا چکی تھی اور مکلاوہ اگلے دن تک ملتوی ہو چکا تھا
وقار ، سویرا کو اپنے گھر ڈراپ کر کے سیدھا حکیم عادل کے مطب پہ گیا- حکیم صاحب ایک نیک خو اور انتہائی دیانت دار انسان تھے- انہوں نے مریض کی بپتا سنی اور کہا ، فکر نہ کرو بیٹا- تم بالکل ٹھیک ہو- معمولی سا مسئلہ ہے- خدا نے چاہا تو آج رات ہی حل ہو جائے گا
وقار نے غیر یقینی کے عالم میں حکیم صاحب کے نورانی چہرے کو دیکھا- وہ مسکرائے اور وقار کی پیٹھ تھپتھپا کر بولے ، اب اٹھو اور کسی پھل فرش سے ایک پاؤ انگور اچھے والے لے کر آؤ- ابھی کشتہ بناتے ہیں
کچھ ہی دیر میں وقار ، انگور لیے واپس آیا- حکیم صاب نے گچھّے سے ایک پکّا ہوا انگور توڑ کر پانی سے دھویا ، پھر وقار سے کہا، اس دانے کو سامنے والے دو دانتوں میں اس طرح دبا کے رکھو کہ پچکنے نا پائے
اس کے بعد حکیم صاحب دیگر کاموں میں مصروف ہو گئے اور وقار دانہ دانتوں میں دبائے بیٹھا رہا- گویا کوئی بخار کا مریض تھرمامیٹر لیے بیٹھا ہو- حکیم صاحب کبھی کبھار اس کی طرف دیکھتے پھر دوکان پہ لٹکے کلاک کی طرف دیکھ کر بڑے اطمینان سے سر ہلاتے اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو جاتے
ٹھیک پانچ منٹ بعد جب مطب خالی ہوا تو حکیم صاحب وقار کی جانب متوجہ ہوئے اور کھنگار کر کہا ، “ٹھیک ہے- انگور کھا لو
وقار نے سکھ کا ایک طویل سانس لیا اور انگور کی کھٹاس سے دل کو بہلانے لگا- حکیم صاحب نے نشست چھوڑی ، اٹھ کر وقار کے پاس آئے اور پیٹھ اس کی تھپتھپا کر کہا، یہی نسخہ ہے بیٹا- بوقتِ خاص ایک دانہ انگور کا دانتوں میں دبائے رکھنا اور خیال رکھنا کہ پچکنے نہ پائے
اگلے روز مکلاوا ہوا اور خوب ہوا- یوں …. ایک چھوٹے سے انگور کی بدولت ایک بڑا گھرانہ ٹوٹنے سے بچ گیا
حکیم عادل کہانی سنا کر میری طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھنے لگے اور میں حیرت سے ان کا چہرہ پڑھنے لگا- آخر بے چین ہو کر پوچھا “ویسے اس انگور میں تھا کیا؟
کچھ بھی نہیں- وہ تو بس ایک دانہ تھا ، جو ہم نے ایک نادان کو ڈالا- دیکھو پہلی بار جب بھی کوئی مہم درپیش ہو، اعتماد انسان کا صفر ہوتا ہے- بدبختی کی انتہا ہے کہ بے اعتمادی پیدا کرنے والے بھی ہم حکیم لوگ ہی ہیں- جب ایک کوہ پیماء کو پہاڑی چڑھنے سے پہلے ہی ڈرا دیا جائے کہ وہ ضرور گرے گا تو ظاہر ہے گرے گا ہی؟ ہم نے ایک دانہ انگور کا اسے دے کر یہ یقین دلا دیا کہ جب تک یہ دانہ تمہارے دانتوں میں پچکے گا نہیں ، ہرگز نہ گرو گے- چڑھ گیا پہاڑی- اب بغیر انگور کے بھی چڑھتا رہے گا- اچھا معذرت- اس کہانی میں آپ کا سفوف تو رہ ہی گیا
میں کچھ دیر حیرت سے حکیم عادل صاحب کا چہرہ دیکھتا رہا ، پھر ہنس کر کہا ، ساتھ ایک دانہ انگور کا بھی کر دیجیے گا
انہوں نے ایک زور کا قہقہہ لگایا اور میرے لیے سفوف بادِ شکم یونانی تیار کرنے لگےبشکریہ …… ظفر اقبال محمّد
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.