Home Forums Siasi Discussion الطاف حسین: ایم کیو ایم کے بانی ’قائد تحریک‘ سے ’ہیپی آور‘ تک کیسے پہنچے؟

Viewing 4 posts - 1 through 4 (of 4 total)
  • Author
    Posts
  • shami11
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1
    Source

    آج سے ٹھیک چار سال قبل متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کی ایک تقریر ملک کے ٹی وی چینلز پر نشر ہوئی۔
    اس تقریر کے الفاظ تو عدالتی حکم کی وجہ سے شائع نہیں کیے جا سکتے تاہم اس تقریر کے بعد ہی یہ تاثر پیدا ہوا کہ اب ملک کے سیاسی منظر نامے میں الطاف حسین اور اُن کی ایم کیو ایم کی (فی الحال) کوئی جگہ نہیں رہی۔
    اس تقریر کے بعد نہ صرف ریاست کی جانب سے الطاف حسین کی تقاریر نشر و شائع کرنے پر پابندی عائد کردی گئی بلکہ خود اُن کی اُس ایم کیو ایم کے بھی ٹکڑے ہو گئے جو کسی زمانے میں ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہوتی تھی اور 1988 کے بعد پاکستان کے وفاق میں قائم ہونے والی کسی بھی حکومت کا ان کی حمایت کے بغیر قائم ہو جانا یا وجود برقرار رکھنا ناممکن سمجھا جاتا تھا۔
    تو کیا الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو عروج بھی اُسی اسٹیبلشمنٹ نے عطا کیا تھا جس پر لعن طعن نے انھیں اس حالیہ زوال سے دوچار کر رکھا ہے، یا پھر اس عروج و زوال میں کوئی حصہ شخصیت پرستی، ذاتی انا اور آمرانہ طرزِ سیاست کا بھی ہے جس کے سحر سے ایم کیو ایم اور الطاف حسین دونوں ہی کبھی آزاد دکھائی نہیں دیے؟

    یہ کہانی اسی سوال کے جواب کی تلاش میں لکھی گئی ہے۔
    اس رپورٹ کے حوالے سے موقف جاننے کی کوشش میں ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما عامر خان اور الطاف حسین کی ایم کیو ایم لندن کے مرکزی سیکریٹری مصطفیٰ عزیز آبادی سے رابطہ کرنے کی بارہا کوششیں کی گئیں مگر دونوں رہنما بات کرنے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔

    کوٹہ سسٹم اور اردو بولنے والوں کا احساسِ محرومی
    پانچ جولائی 1977 کو پاکستانی برّی فوج کے سربراہ جنرل ضیاالحق نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
    اس ’فوجی بغاوت‘ کو ملک بھر میں عوامی مدد اور حمایت حاصل نہیں تھی اور ضیا حکومت سیاسی حمایت اور پذیرائی کی متلاشی تھی۔
    تب تک قیام پاکستان کے وقت اردو بولنے والوں کی اکثریت کو ہندوستان سے آ کر کراچی اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں میں آباد ہوئے 30 برس ہو چکے تھے۔
    ایسے میں ذوالفقار علی بھٹو کے نافذ کردہ کوٹہ سسٹم کے تحت اہلِ کراچی کو میرٹ یا قابلیت کے بجائے کوٹہ سے ملازمت اور تعلیمی اداروں کے داخلوں میں حصہ ملتا اور قابلیت کی بجائے رہائشی علاقے کو فوقیت دی جاتی تھی۔
    کوٹہ سسٹم رائج کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ کراچی یا سندھ کے شہری علاقوں میں چونکہ تعلیم یافتہ اور زیادہ قابل آبادی رہتی ہے اس لیے تمام داخلے یا ملازمتیں کراچی یا سندھ کی شہری آبادی میں بٹ جاتی ہیں اور ملک کے دیگر علاقوں کے لوگ ان سے محروم رہ جاتے ہیں۔
    کراچی میں رہنے والے اختر رضوی اور رئیس امروہوی جیسے ممتاز افراد اُس وقت شہری حلقوں میں بطور مدبّر اور دانشور اپنا علیحدہ مقام رکھتے تھے۔ یہ دونوں حضرات بھی کوٹہ سسٹم کو قابلیت کے خلاف ناانصافی سمجھتے تھے اور اس کے شدید مخالف تھے۔
    اِس شہری آبادی کے بڑے حصّے کا خیال تھا کہ کوٹہ سسٹم جیسی ناانصافیاں اس لیے ہوتی ہیں کہ سندھ کی اردو بولنے والی آبادی کی کوئی سیاسی نمائندگی نہیں۔
    دراصل اختر رضوی اور رئیس امروہوی جیسے ممتاز شہریوں نے ہی کراچی کے نوجوانوں کو اپنی نمائندہ سیاسی تنظیم بنانے کا رہنما خیال پیش کیا اور تنظیم سازی کے لیے سیاسی مواد اور تربیت فراہم کرنے میں بھی سب سے اہم کردار ادا کیا۔

    17 ستمبر 1953 کو اسی کراچی میں پیدا ہونے والے الطاف حسین نے ابتدائی تعلیم کمپری ہینسِو ہائی اسکول عزیز آباد سے مکمل کی۔
    سنہ 1970-71 کے درمیان الطاف حسین نے فوجی تربیت کا کورس کرنے کے لیے نیشنل سروس کیڈٹ سکیم میں شمولیت اختیار کی، لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس فوجی تربیت کے فوراً بعد وہ خود بھی پاکستانی فوج کی بلوچ رجمنٹ میں شامل ہوگئے۔
    1974 میں میڈیکل کالج میں داخلہ نہ ملنے کے بعد الطاف حسین نے اسلامیہ سائنس کالج سے مائیکرو بیالوجی میں بی ایس سی کیا، پھر کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ فارمیسی میں داخلہ لیا جہاں 11 جون 1978 کو الطاف حسین اور اُن کے ساتھیوں نے آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) قائم کی۔
    کئی برس تک الطاف حسین اور ان کی نومولود تنظیم کو تعلیمی اداروں میں جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمیعت طلبہ کی مخالفت کا سامنا رہا۔
    تاہم شہری سندھ کے احساسِ محرومی و مایوسی اور جواب میں انتہائی پرکشش نعروں کے سہارے طاقت اور تشدد پر مبنی مخالفت کے باوجود بھی تیزی سے مقبولیت حاصل کرتی یہ تنظیم شہر کے کئی تعلیمی اداروں میں جا پہنچی۔
    الطاف حسین اس دوران کئی بار جمیعت کے براہ راست تشدد کا نشانہ بنے اور پھر جب تین فروری 1981 کو اُن کی تنظیم کو تعلیمی اداروں سے بزور بےدخل کر دیا گیا تو دیگر ساتھیوں کے فیصلے کے تحت اس تنظیم نے شہری علاقوں میں سرگرمیوں کا آغاز کیا جہاں اسے خوب مقبولیت اور پذیرائی ملنے لگی۔

    مارشل لا کا ایم کیو ایم کے لیے نرم گوشہ
    ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی کے پہلے میئر اور پھر پارٹی کے سب سے سینیئر رہنما سمجھے جانے والے ڈاکٹر فاروق ستار نے مجھ سے گفتگو میں جنرل ضیا کی فوجی حکومت کی جانب سے الطاف حسین کی سرپرستی کو تسلیم کیا۔
    ’جمیعت کے تھنڈر سکواڈ نامی مسلح بازو نے یونیورسٹی سمیت قریباً تمام تعلیمی اداروں میں ہمارا داخلہ بند کر دیا تو پانچ فروری کو الطاف بھائی نے فیڈرل بی ایریا میں طارق مہاجر کے گھر ہونے والے اجلاس میں کہا کہ ہم جمیعت کا مقابلہ نہیں کرسکتے، اُن کے پیچھے جنرل ضیا الحق ہیں، اُن کے ساتھ ریاست کی طاقت ہے۔‘
    ’انھوں نے کہا کہ وہ اے پی ایم ایس او کو اسی اجلاس میں ختم کرتے ہیں کیونکہ وہ تشدد کی سیاست میں نہیں جاسکتے۔ اگر ایسا کیا تو انھیں ڈر تھا کہ ان کے سارے کارکنان اور رہنما مارے جائیں گے۔‘
    مگر اجلاس کے شرکا کے جذباتی تبادلۂ خیال کے بعد اے پی ایم ایس او کو شہری علاقوں میں لے جانے کا فیصلہ ہوا۔
    سب سے پہلا یونٹ آفاق احمد نے لانڈھی میں بنایا۔ یہی آفاق احمد آگے چل کر الطاف حسین کے سب سے بڑے مخالف اور ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ بنے۔
    فاروق ستار کے مطابق 1983 میں الطاف حسین امریکہ چلے گئے اور جب 18 مارچ 1984 کو اے پی ایم ایس او کی قیادت نے مہاجر قومی موومنٹ یا ایم کیو ایم بنانے کا اعلان کیا تو الطاف حسین ملک میں موجود نہیں تھے۔
    لیکن عظیم احمد طارق، سلیم شہزاد اور طارق جاوید جیسے ابتدائی ساتھی الطاف بھائی سے رابطے میں تھے۔
    مارچ 1985 میں کراچی کے وسطی علاقے ناظم آباد کی چورنگی پر ٹریفک کے ایک حادثے میں سرسید گرلز کالج کی ایک طالبہ، بشریٰ زیدی کی جان چلی گئی۔
    طالبہ کی ہلاکت پر شروع ہونے والا احتجاج شام ہونے تک لسانی رنگ اختیار کر گیا اور اردو بولنے والے شہریوں کا احتجاج پبلک ٹرانسپورٹ کے (زیادہ تر) پشتون مالکان کے خلاف محاذ کی صورت میں ڈھل گیا۔
    اسی اثنا الطاف حسین امریکہ سے واپس آگئے۔
    فاروق ستار نے بعض تجزیہ نگاروں کی یہ رائے تو یکسر مسترد کر دی کہ ایم کیو ایم کو مارشل لا نے پیپلز پارٹی کو کاؤنٹر کرنے کیلئے بنایا تھا۔ مگر وہ یہ ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی نرم گوشہ ضرور تھا۔
    ’بنایا جنرل ضیا نے نہیں تھا۔ مگر مارشل لا دور میں ہم پروان چڑھ رہے ہیں تو یہ کھلی غمازی ہے کہ ساری توپوں کا رخ پیپلز پارٹی کی جانب تھا۔ وہاں پانچ لوگ جمع ہو جائیں تو دفعہ 144 لگ جائے گی اور ہم کارنر میٹنگ علاقوں میں کر رہے ہیں مگر کچھ نہیں ہو رہا۔‘

    ان کے بقول پوسٹر لگانے کے جرم میں وہ، ڈاکٹر عمران فاروق، بدر اقبال اور اسحاق خان شیروانی گرفتار ہوئے تھے مگر دو دن بعد ضمانت پر رہا ہو کر آ گئے۔
    رہائی سے قبل ان سے صرف اتنا دریافت کیا گیا کہ آیا ان کا تعلق پیپلز سٹوڈینٹس فیڈریشن (پیپلز پارٹی کی طلبہ تنظیم)سے تو نہیں۔
    فاروق ستار کہتے ہیں: ’پاکستان کی غلیظ سیاست کو اتنے قریب سے دیکھنے کے بعد اس سٹیج پر بھی میں یہ تسلیم نہ کروں کہ مارشل لا نے نرم گوشہ دیا تو میں انصاف نہیں کروں گا۔ میں مانتا ہوں کہ جگہ دی گئی۔‘

    لسانی سیاست کا دور
    اے پی ایم ایس او ہو یا ایم کیو ایم، تعلیمی اداروں اور علاقوں میں جب دونوں تنظیموں کا جادو سر چڑھ کر بولنا شروع ہوا تو محلّوں میں کارنر میٹنگز، جلسوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
    ایک مظاہرہ بانی پاکستان کے مزار پر ہوا جہاں الطاف حسین کو پاکستان کا قومی پرچم جلانے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور انھیں فوجی عدالت سے نو ماہ (اور شاید پانچ کوڑوں) کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔
    جب اربن سندھ میں لسانی سیاست شروع ہوئی اور مخالف جماعت اسلامی کو زبردست سیاسی نقصانات کا اندازہ ہوا تو دونوں تنظیموں میں ’ٹرف وار‘ یعنی علاقہ گیری کا آغاز ہوا۔
    اسی دوران سہراب گوٹھ کے علاقے میں منشیات فروشوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کارروائی کی۔
    سہراب گوٹھ پشتون اکثریتی آبادی کا علاقہ تھا اور اس آپریشن کے فوراً بعد مہاجر اکثریتی آبادیوں علی گڑھ کالونی اور قصبہ کالونی میں فائرنگ کے پراسرار واقعات ہوئے جن میں درجنوں افراد مارے گئے اور اسے سہراب گوٹھ آپریشن کا ردعمل سمجھا گیا۔
    اس کے بعد پشتون اور مہاجر آبادیوں میں شدید لسانی کشیدگی پھیل گئی جس کا الطاف حسین اور اُن کی ایم کیو ایم کو زبردست فائدہ ہوا اور ڈر اور خوف کی یہ فضا دراصل ایم کیو ایم کو مضبوط کرتی چلی گئی۔
    مقبولیت ملی تو ایم کیو ایم کا تنظیمی ڈھانچہ منظّم کیا گیا۔

    یونٹ اور سیکٹر کی سطح پر تنظیم سازی میں سب سے اہم کردار ڈاکٹر عمران فاروق نے ادا کیا۔ عمران فاروق ہی وہ رہنما تھے جنھوں نے پارٹی کے آئین میں وہ تباہ کُن شق شامل کی جس کے تحت تحریک کے سربراہ الطاف حسین کسی کو جوابدہ نہیں رہے بلکہ حتمی فیصلے کا اختیار بھی انھیں ہی دے دیا گیا۔
    ضیا دور میں صرف بلدیاتی انتخابات ہوتے تھے تو نمائندگی سے محروم عام لوگوں کو ایم کیو ایم کے ذریعے اپنی سیاسی نمائندگی کی امید نظر آنے لگی۔
    ایم کیو ایم نے ماحول کا فائدہ اٹھایا اور آٹھ اگست 1986 کو نشتر پارک میں ایک بڑا جلسہ کر کے طاقت کے مظاہرے کا فیصلہ کیا۔
    گلی محلّوں میں جلسوں اور مظاہروں کے ذریعے نشتر پارک کے جلسے کی زبردست تشہیر کی گئی۔
    موسلادھار بارش کے باوجود دو گھنٹے تک شعلہ بیانی کرنے والے الطاف حسین نے اس جلسے میں وہ جوہر دکھائے کہ لوگوں کو آج بھی پی آئی اے ’بڑے بھائی کی ائیر لائن‘ کے طور پر یاد ہے۔
    تب عام لوگوں کو شعلہ بیانی پر قدرت رکھنے والے الطاف حسین میں اپنا ایک جارح اور زبردست ترجمان دکھائی دیا۔

    ایم کیو ایم کی انتخابی کامیابی
    جیو نیوز سے وابستہ سینئیر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ نشتر پارک جلسے کی کامیابی نے ہی الطاف حسین کے لیے 1987 کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کی ایسی راہ ہموار کی جس کا اندازہ تو شاید خود الطاف حسین اور اُن کی تنظیم کو بھی نہیں رہا ہوگا۔
    ان انتخابات میں فقیدالمثال کامیابی کے نتیجے میں ایم کیو ایم نے تقریباً تمام نشستیں حاصل کیں اور ڈاکٹر فاروق ستار ایم کیو ایم کے پہلے میئر منتخب ہوئے۔
    سنہ 1988 میں جب بہت طویل عرصے کے بعد ملک میں جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات ہوئے تو الطاف حسین کی ایم کیو ایم نہ صرف کراچی و حیدرآباد کی تمام نشستوں پر فاتح رہی بلکہ سندھ کے کئی دیگر شہری علاقوں میں بھی نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔
    پھر حیدرآباد میں حیدر بخش جتوئی چوک پر ہونے والے جلسے میں جاتے ہوئے الطاف حسین کے قافلے پر سہراب گوٹھ کے قریب فائرنگ کا واقعہ ہوا جو ہمیشہ ایک معمہ رہا۔
    مظہر عباس بتاتے ہیں: ’پراسرار اس لیے کہ وہاں بعض ایسے پولیس افسران موجود تھے جنھیں اس وقت وہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘
    وہ کہتے ہیں کہ اس واقعے میں حیدرآباد میں تقریباً 250 افراد ہلاک ہوئے اور بعد میں کراچی میں بھی فائرنگ کے واقعات میں تقریباً 150 کے لگ بھگ لوگ مارے گئے، مگر اس قتل عام کی وجوہات کبھی سامنے نہیں آ سکیں۔
    سنہ 1988 کے انتخابات میں شہری سندھ پورا ایم کیو ایم اور دیہی سندھ مکمل طور پر پیپلز پارٹی کے حصے میں آیا اوردونوں جماعتوں نے مل کر صوبائی اور وفاقی حکومتیں تشکیل دیں۔
    مقبولیت کی اس انتہا پر الطاف حسین کی ایم کیو ایم بلا شرکت غیرے کراچی کے سیاسی، بلدیاتی، انتظامی اور مالی معاملات کی مالک بن گئی۔

    اسٹیبلشمنٹ سے دوسری مُڈ بھیڑ، جنرل اسلم بیگ
    17 اگست 1987 کو طیارے کے حادثے میں جنرل ضیا کی ہلاکت کے بعد کراچی سے تعلق رکھنے والے جنرل اسلم بیگ فوج کے سربراہ بنے مگر نو منتخب وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹّو سے اُن کے تعلقات کبھی بہتر دکھائی نہیں دیے۔
    مظہر عباس بتاتے ہیں کہ اسلم بیگ کے زمانے میں بینظیر الطاف حسین کی حمایت سے محروم ہوئیں اور قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کے نتیجے میں اُن کی حکومت چلی گئی۔
    تجزیہ نگاروں کے مطابق بینظیر نے اس کا ذمہ دار فوجی اسٹیبلشمنٹ اور خاص طور پر خفیہ اداروں اور جنرل بیگ کو قرار دیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ جنرل بیگ نے سیاسی قوتوں کو استعمال کر کے پیسے اور طاقت کے بل پر اُن کی حکومت ختم کروائی۔

    ’الطاف حسین سے میرا یہ ہی تو اختلاف تھا‘
    کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ آفاق احمد نے مجھے جارحانہ انداز سے بتانا شروع کیا: ’1989 کی بات ہے جب اسلم بیگ آرمی چیف تھے۔ انھوں نے مدعو کیا تو میں الطاف حسین اور یوسف ایڈووکیٹ یونس حبیب (مہران بینک سکینڈل والے) کے گھر گئے تھے۔‘
    وہاں اسلم بیگ نے الطاف حسین سے کہا ’بھئی، قومی دھارے کی سیاست کیجیے۔ اب آپ لسانی سیاست کو خیرباد کہہ دیجیے۔ آپ کا آگے مستقبل ہے۔‘
    آفاق احمد کے مطابق جنرل بیگ کی اس بات پر الطاف حسین نے رسماً کہا کہ ’جناب، ہمارے پاس اتنے وسائل کہاں‘ تو اسلم بیگ نے یونس حبیب سے کہا اور یونس حبیب نے فوراً پیسے دے دیے۔
    آفاق احمد نے دعویٰ کیا کہ واپس آتے وقت انھوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہی الطاف حسین سے کہا ’آپ نے قومی دھارے کی سیاست کی بات کی ہے تو اگر آپ مہاجر تحریک کو ختم کر کے قومی دھارے کی سیاست کسی اور نام پر کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس کو برداشت نہیں کریں گے۔ پھر ہم آپ کے ساتھ نہیں کھڑے رہیں گے۔‘
    مظہر عباس سمیت کئی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ فوجی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کے مقابلے پر اپنے حامیوں پر مشتمل حزب اختلاف کا بلاک قائم رکھنا چاہتی تھی۔
    جنرل بیگ کے زمانے میں ہی پیپلز پارٹی کے سابق رہنما غلام مصطفیٰ جتوئی اور دیگر کو ملا کر کمبائنڈ اپوزیشن پارٹی بنوائی گئی۔ ملک بھر میں اس کے جلسے ہوئے اور کراچی میں تو شاہراہ قائدین پر بہت ہی بڑا جلسہ ہوا جس میں الطاف حسین کا جادو بھی بولتا دکھائی دیا۔
    بعد میں جتوئی صاحب نے تسلیم کیا کہ اسلم بیگ صدر بننا چاہتے تھے اور جتوئی صاحب کو تاثر تھا کہ وزیراعظم وہ ہوں گے۔

    جنرل آصف نواز اور آپریشن کلین اپ
    جب صدر غلام اسحاق خان نے اسلم بیگ کو بطور آرمی چیف مدّتِ ملازمت میں توسیع نہیں دی تو فوجی قیادت تبدیل ہوئی اور جنرل آصف نواز فوجی سربراہ مقرر ہوئے۔
    اُس وقت تک اپنی پارلیمانی طاقت کے بل پر کھڑی الطاف حسین کی ایم کیو ایم کو اپنی سیاسی اہمیت اور طاقت کا اندازہ تو ہو چکا تھا مگر اس کے اصل منبع یعنی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کا اندازہ لگانے میں شاید کہیں چوک ہوگئی۔
    الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے علاقائی کنٹرول کی پالیسی اپنا لی۔ طاقت کے بل پر علاقوں کو اپنی گرفت میں رکھنے کی کوششوں میں بہت سے وار ارادی یا پھر غیر ارادی طور پر غلط بھی ہوئے۔ ان میں فوج کے میجر کلیم کو لانڈھی میں اغوا کرنے کی غلطی بھی شامل تھی۔
    پاکستان میں طاقت کے سرچشموں کے قریب رہنے والی ایک شخصیت کے مطابق ’ایک بار تو یہ بھی ہوا کہ جنرل آصف نواز کی فون کال آئی تو الطاف حسین نے خود بات کرنے کی بجائے عمران فاروق کو کہا کہ تم بات کر لو۔ انھوں نے جب جنرل آصف نواز کو بتایا کہ الطاف حسین مصروف ہیں، آپ مجھے بتائیں تو جنرل آصف نواز آگ بگولہ ہوگئے اور انھوں نے فون بند کر دیا۔‘
    اکتوبر 1990 کے انتخابات ہوئے اور نواز شریف کی قیادت میں مرکز میں ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ نے کامیابی حاصل کی تو الطاف حسین کی ایم کیو ایم نے نواز شریف حکومت میں شمولیت اختیار کر لی۔
    سیاسی طاقت کے بل پر ایم کیو ایم اُس وقت تک اتنی مضبوط ہوچکی تھی کہ شہر اور پولیس جیسے ریاستی اداروں کا کنٹرول سنبھالنے کی کوششیں بھی کی جانے لگیں اور بلدیہ، سندھ حکومت کے معاملات میں الجھنے کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں سے بھی دانستہ یا غیردانستہ مُڈ بھیڑ کی نوبت آنے لگی۔
    پولیس، عدالتی نظام اور شہریوں کی جانب سے اس سب پر ہلکی پھلکی موسیقی بھی شروع ہو چکی تھی۔ کئی ایم کیو ایم رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ ایسی شکایات بڑھنے پر تنظیمی نظم و ضبط حرکت میں آیا اور مقامی و علاقائی تبدیلیوں کا آغاز ہوا۔
    اسی کوشش کے دوران اُس وقت کے دونوں اور طاقتور مرکزی جوائنٹ سیکریٹریز آفاق احمد اور عامر خان کو بھی تبدیل کیا گیا۔
    1991 میں آفاق احمد اور عامر خان کو جماعت سے خارج کر کے سارا تنظیمی ڈھانچہ توڑ دیا گیا اور سینکڑوں کارکنوں کی رکنیت معطل کر دی گئی۔ ایم کیو ایم سے نکالے جانے والے یہ دونوں رہنما اور ان کے کئی حامی یا تنظیمی کارکنان و عہدیدار شہر سے چلے گئے یا روپوش ہوگئے۔
    یہ ایم کیو ایم میں تب تک کی سب سے بڑی بغاوت تھی۔
    ایم کیو ایم میں جرائم پیشہ عناصر کے در آنے کی ایسی ہی اطلاعات پر جنرل آصف نواز کی قیادت میں فوجی اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف حکومت کو کارروائی کے لیے فوجی آپریشن کا مشورہ دیا، جو بعد میں ’آپریشن کلین اپ‘ کی نام سے جاری رہا۔
    مظہر عباس کہتے ہیں کہ نومبر 1991 میں وزیر اعلیٰ سندھ جام صادق علی نے الطاف حسین کو اطلاع دی کہ کوئی بڑا ’آپریشن‘ ہونے والا ہے اور بہتر ہے کہ آپ ملک سے چلے جائیں۔ جام صادق کے مشورے پر الطاف حسین لندن چلے گئے۔
    19 جون 1992 کو کراچی آپریشن شروع ہوا، جس کی ایم کیو ایم نے بھی حمایت کی۔

    مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’لیکن جب آفاق اور عامر خان کی ری انٹری ہوئی تو ایم کیو ایم کو اندازہ ہوا کہ جرائم پیشہ افراد کے بجائے انھیں ہدف بنا لیا گیا ہے۔ اس وقت معاملے نے دوسرا رخ اختیار کیا اور واضح طور پر نظر آ رہا تھا کہ آفاق اور عامر کی قیادت میں بننے والی ایم کیو ایم (حقیقی) کو خفیہ اداروں کی پشت پناہی حاصل رہی۔‘
    الطاف حسین کی ایم کیو ایم نے اپنے خلاف اسی یکطرفہ کارروائی کی بنیاد پر احتجاجاً حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اس دوران وہ لندن ہی میں مقیم رہے اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہی اُن کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی۔
    ایم کیو ایم کے ایک سابق رکن سندھ اسمبلی کے مطابق ایک طرف پارٹی اور کارکنان آپریشن کے دوران ریاست سے ایک طرح حالتِ جنگ میں تھے تو دوسری جانب قیادت سے رابطہ ٹوٹ جانے کی وجہ سے رہنمائی سے محروم۔
    ان کے مطابق: ’جب کارکنان اور تنظیم کو الطاف حسین اور اُن کی رہنمائی کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، تب اُن تک رسائی اور پہنچ سب سے زیادہ مشکل رہی۔ اس سے صرف کارکنوں کو نہیں بلکہ الطاف حسین کو بھی نقصان ہوا اور رابطے ٹوٹ جانے کی وجہ سے بہت دیر تک انھیں بھی اصل صورتحال یا ’زمینی حقائق‘ تک رسائی نہیں رہی۔ ایم کیو ایم جیسی تنظیم یہ افورڈ نہیں کرسکتی تھی۔‘

    الطاف حسین کی ’دو شخصیات‘
    سندھ اسمبلی کے سابق رکن نے کہا ’میں الطاف حسین کو 1986 سے جانتا ہوں۔ اُن کی شخصیت دو حصوں میں منقسم رہی۔ ایک وہ عوامی شخصیت جو 1986 سے 2000 کے اوائل تک دنیا کے سامنے رہی اور دوسری وہ جو گذشتہ 20 برس سے اب تک ہے۔‘
    شخصیت کے یہ دونوں رخ ایک دوسرے کے برعکس ہیں، بالکل مختلف۔
    پہلے دور کا الطاف حسین بہت مضبوط اور عوام سے جڑا ہوا رہنما تھا جسے تنظیم پر مکمل کنٹرول حاصل تھا جبکہ سنہ 2000 کے بعد الطاف حسین کمزور بیمار اور مجبور ہو گیا تھا۔
    لندن پہنچنے پر الطاف حسین کا واسطہ محمد انور سے پڑا۔
    یہ وہی محمد انور تھے جو پارٹی میں ترقی کر کے الطاف حسین کے بعد لندن سیٹ اپ میں نمبر ون کی پوزیشن تک پہنچے، رابطہ کمیٹی کے رکن بنے اور الطاف حسین کے ساتھ منی لانڈرنگ یا ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل جیسے مقدمات میں بھی بطور شریک ملزم پہچانے گئے۔
    محمد انور بہت مشکل سے بات چیت پر آمادہ ہوئے۔
    ’سنہ 1992 میں جب الطاف حسین لندن آئے تو اُن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ دفتر، نہ مال و اسباب، نہ ساز و سامان۔ ہم (محمد انور اور طارق میر) نے انھیں دفتر کی عمارت سے لے کر مال و اسباب تک سب کچھ فراہم کیا۔‘
    اسی دوران پاکستان میں جنرل عبدالوحید کاکڑ نے کراچی آپریشن ختم کرنے کا اعلان کیا۔ بعد ازاں الطاف حسین کی ایم کیو ایم بینظیر اور نواز شریف کی مختلف حکومتوں میں کم از کم پانچ شریک رہی۔

    فوجی اسٹیبلشمنٹ سے چوتھا واسطہ، جنرل مشرف
    12 اکتوبر 1999 کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا اور فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
    مظہر عباس بتاتے ہیں کہ مشرف کا پورا دور 2007 تک ایم کیو ایم اور الطاف حسین کا آئیڈیل ترین دور تھا۔
    ’مشرف صاحب کے ساتھ الطاف حسین کا تین نکاتی معاہدہ ہوا۔۔۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ شہری سندھ کے تمام انتظامی اختیارات گورنر کے پاس ہوں گے۔‘
    مظہر عباس کے مطابق اگرچہ سرکاری طور پر ایسا کرنا ممکن نہیں تھا تاہم وزیر اعلیٰ ارباب رحیم کے ساتھ ’انڈرسٹینڈنگ‘ بنائی گئی اور ڈاکٹر عشرت العباد طویل عرصے تک ان خصوصی اختیارات کے ساتھ گورنر سندھ رہے۔

    تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف کے سیاسی عزائم تھے اور اُن کی تکمیل کے لیے انھیں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاسی حمایت کی ضرورت تھی۔ ’لہٰذا ایم کیو ایم کی صحیح اور غلط، ہر بات مانی جاتی رہی۔‘ یوں پولیس سمیت اربن سندھ کے تمام اداروں کے سربراہان اور افسران کی تعیناتی سے لے کر بلدیاتی نظام کا ڈھانچہ تبدیل کرنے اور فنڈز (مالی وسائل) فراہم کرنے کی شرائط، سب کی سب مانی جاتی رہیں۔
    مشرف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کا ایک اور نکتہ یہ بھی تھا کہ آفاق احمد اور عامر خان کو یا تو ملک سے باہر بھیج دیا جائے گا یا پھر جیل میں بند رکھا جائے اور بیت الحمزہ سمیت حقیقی کے تمام دفاتر ختم کیے جائیں۔
    اس کی بدولت دونوں رہنما لگ بھگ آٹھ برس جیل میں رکھے گئے، لانڈھی میں حقیقی کا مرکزی دفتر مسمار کر دیا گیا۔
    اس کے بدلے میں ایم کیو ایم نے جنرل مشرف کے مخالفین یعنی نواز شریف اور بینظیر بھٹّو کی سندھ اور وفاق میں حکومت سازی کے لیے کبھی حمایت نہیں کی۔
    تاہم سُکھ کے اِس زمانے میں پارٹی میں اندرونی تبدیلی اور بیرونی مسائل سامنے آئے۔
    مظہر عباس کہتے ہیں: ’ادھر لندن میں الطاف حسین نے ندیم نصرت کو واپس بلایا جو غالباً امریکہ میں تھے اور یہ بات محمد انور اور بہت سے دیگر رہنماؤں کو پسند نہیں آئی۔ مگر الطاف حسین کے فیصلے پر اعتراض وہ بھی نہیں کرسکتے تھے۔‘
    کراچی اور لندن میں اِن تبدیلیوں نے پارٹی میں نئی مگر خفیہ دھڑ بندی کو تیز کر دیا۔

    پارٹی کے عہدیدار تیزی سے تبدیل کئے جانے لگے اور نئے نئے واپس آنے والے رہنماؤں عامر خان اور ندیم نصرت کی رائے کو اہمیت ملنے لگی۔
    ان فیصلوں پر ناراض کارکنوں نے اپنے ساتھیوں کی تنظیمی خلاف ورزیوں، سرکاری اداروں سے متعلق مالی بدعنوانیوں اور دیگر بگڑتے معاملات پر پہلی دبے لفظوں پارٹی کے اندر اور پھر کھلے عام سماجی محافل اور سیاسی بیٹھکوں میں اعتراض کرنا شروع کیا۔
    مگر سُکھ کا سانس لینے والے الطاف حسین کی توجہ اِن شکایات کی بجائے ’ہیپی آورز‘ پر مبذول ہوتی چلی گئی اور وہ دانستہ یا نادانستہ طور پر ان پر کان دھرنے سے گریزاں رہے۔
    لندن اور کراچی ان تبدیلیوں سے گزر ہی رہے تھے کہ جنرل مشرف نے الطاف حسین کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان واپس آ جائیں۔
    تاہم مظہر عباس کے مطابق: ’ایم کیو ایم کے کئی رہنماؤں نے وطن واپسی پر قتل ہو جانے کے خدشات ظاہر کر کے الطاف حسین کو لندن میں ہی رہنے کا مشورہ دیا۔ وجہ یہ تھی کہ ہر سطح پر نئے عہدیدار نہیں چاہتے تھے کہ الطاف حسین کراچی آئیں اور تنظیمی خلاف ورزیوں یا مالی بدعنوانی کی معاملات سے واقف ہو کر ان میں ملوث عناصر کے خلاف کوئی فیصلہ کریں یا قدم اٹھائیں۔‘
    اسی دوران مشرف کی حمایت میں کراچی میں 12 مئی 2007 کا واقعہ ہوا اور لندن میں عمران فاروق کی قتل کی واردات بھی۔

    پیپلز پارٹی کی حکومت اور الطاف حسین پر ذہنی دباؤ
    گڑبڑ تب ہوئی جب 2007 میں بینظیر بھٹو کا قتل ہوا اور 2008 کے انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کرنے والے آصف زرداری نے جنرل مشرف کو ایوان صدر سے رخصت کیا اور خود صدر بن گئے۔
    جنرل مشرف کا جانا الطاف حسین کے لیے گھبرانے والا موقع تھا کیونکہ آصف زرداری کو نہ تو الطاف حسین کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی وہ اس کے خواہشمند تھے۔
    پھر ذوالفقار مرزا کارڈ استعمال ہوا اور ایم کیو ایم کے ’ہنی مون‘ کا اختتام ہوتا نظر آیا۔

    پیپلز پارٹی میں موجود رحمان ملک جیسے لوگوں کی کوششوں سے ایم کیو ایم نے حکومت سے رابطے تو قائم کر لیے مگر الطاف حسین کا یہ فیصلہ بھی پارٹی میں پسند نہیں کیا گیا۔ مگر مسئلہ وہی تھا، کوئی بھی الطاف بھائی کی مخالفت نہیں کرسکتا تھا۔ اب الطاف حسین کے لیے ہر طرح اور ہر طرف سے پریشان کن صورتحال پیدا ہوئیں۔
    حکومت میں شمولیت کے بغیر ایم کیو ایم کی بقا کا مسئلہ، پے در پے فیصلوں کی ناکامی یا غیر مقبولیت، پارٹی میں دھڑ بندی، سکاٹ لینڈ یارڈ کی جانب سے عمران فاروق قتل کی تفتیش کے دوران منی لانڈرنگ کیس کا ابھر آنا، بھارتی خفیہ اداروں سے رابطوں کا انکشاف اور اعتراف، لندن میں قیام کی وجہ سے پارٹی پر ڈھیلی پڑتی گرفت اور کراچی سے آنے والی مالی بدعنوانی میں ساتھیوں کے ملوث ہونے کی شکایات۔۔۔ کتنا کچھ تھا۔
    بقول سابق رکن اسمبلی، اس سب نے مل کر الطاف بھائی کو شدید عدم تحفظ کا شکار بنا دیا۔ ’تب میں نے الطاف حسین کی شخصیت کا دوسرا روپ دیکھا: کامپرومائزڈ، ذہنی طور پر منتشر اور مغلوب، نہ وہ کر و فر نہ وہ طمطراق، نہ وہ پہلی سی رمق۔‘
    اس دوسرے دور میں کبھی کبھی تو ایسا لگتا کہ وہ کسی ذہنی عارضے میں مبتلا ہیں۔ اس کے علاوہ جسمانی طور پر گردوں کی بیماری، بدترین ذیابیطس اور بےخوانی کے مرض کے باعث وہ مُٹّھی بھر بھر کے دوائیں کھانے لگے۔
    پاک سرزمین پارٹی میں چلے جانے والے رہنما رضا ہارون کی بات مانیں تو یہ وہ وقت تھا جب ہر وقت کا ’ہیپی آور‘ شروع ہوا۔ ان کے مطابق ’ذہنی دباؤ ، مایوسی اور ٹینشن سے نجات کے لیے الطاف بھائی الکوحلک ہوتے چلے گئے اور معاملات میں شدید بگاڑ آنے لگا۔‘
    سابق رکن سندھ اسمبلی بھی بتاتے ہیں کہ اس کے اثرات بھی نظر آنے لگے۔ ’فرسٹریشن میں پہلے الطاف بھائی ساتھیوں پر غصّہ ہونے لگے، پھر ذہنی امراض کی وجہ سے بالکل ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آئے۔‘
    ٹی وی چینلز پر اپنے خلاف ہونے والی گفتگو اور اُس کا پارٹی رہنماؤں کی جانب سے مناسب دفاع نہ ہونے پر رہنماؤں سے ان کی ناراضگی بڑھتی چلی گئی اور پھر بالآخر وہ خود موقع بے موقع تقریروں کے دوران بالکل دوسرے راستے جانے لگے۔

    اسٹیبلشمنٹ سے آخری ٹکراؤ اور ’ہیپی آور‘ کی شروعات
    سنہ 2013 میں جنرل راحیل شریف کے زمانے میں ’آپریشن ردالفساد‘ شروع ہوا اور مذہبی و فروارانہ شدت پسندوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بھی کارروائی کا آغاز ہوا۔
    ایم کیو ایم کو بھی بتایا گیا کہ کسی بھی قسم کی شدت پسندی یا عسکریت پسندی کی گنجائش نہیں ہے لیکن ذہنی امراض، دباؤ، مایوسی اور ناکامیوں کا شکار الطاف حسین اس نئے آپریشن کو سمجھ ہی نہیں سکے۔
    جب بعض مواقع پر گورنر عشرت العباد کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نظر انداز کیا گیا تب جا کر الطاف حسین کو معاملات کی سنگینی کا احساس ہونا شروع ہوا۔

    ایم کیو ایم رہنماؤں کی اکثریت نے بتایا کہ ٹی وی پر بھارتی خفیہ اداروں سے تعلقات کے الزامات اور عمران فاروق کیس سے متعلق نشریات پر بپھرے ہوئے الطاف حسین غم و غصّے میں یہ دھیان بھی کھو بیٹھتے کہ کب کس جگہ کس سے کیا بات کہنی ہے۔
    ان کی تقریروں اور خطابات میں فوج کی اعلی قیادت، پاکستانی جرنیلوں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ مقتدر حلقوں اور طاقت کے اصل مراکز پر نکتہ چینی پہلے ہلکی پھلکی موسیقی کے طور ہر شروع ہوئی۔
    جماعت کے اراکین کے مطابق ’پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ان کی کہی ہوئی باتوں کا پارٹی رہنماؤں کی جانب سے ٹی وی چینلز پر دفاع کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا۔‘
    مایوس اور ذہنی امراض کا شکار الطاف حسین اب پارٹی کو بعض اوقات ایسے احکامات جاری کرنے لگے جن کی کوئی تاویل پیش نہیں جا سکتی۔
    ’رات کے دو بجے حکم آتا تھا کہ سب کو جمع کرو جلسہ کرنا ہے، یا رات کو تین بجے گھر لوٹنے والے پارٹی رہنماؤں کو حکم ملتا کہ ابھی واپس نائن زیرو پہنچو، بھائی خطاب کرنا چاہتے ہیں۔‘
    اس کے نتیجے میں پوری ایم کیو ایم شدید دباؤ میں دکھائی دی البتہ الطاف حسین کی تقریروں میں کھلے عام پاکستان کی سالمیت، فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جارحانہ مواد معمول بنتا چلا گیا۔
    نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک ایم کیو ایم رہنما نے بتایا: ’شاید حیدرآباد کے ایک جلسے میں اُن کی ایک تقریر میں بنگلہ دیش کے قیام اور وہاں پاکستانی فوج کی پسپائی اور ہتھیار ڈالنے کے بارے میں حد سے زیادہ تنقید پر فوجی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ نے بھی شدید ردعمل دیا اور گورنر عشرت العباد کو پیغام پہنچا ’انف از انف‘ یعنی بس، بہت ہوگیا۔‘
    اُس وقت کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ انھیں سمجھانے، پارٹی کو سہارا دینے اور معاملات کو درست کرنے کی کوشش تقریباً سب ہی نے کی۔
    انیس قائم خانی کہتے ہیں کہ بہت کوششیں کی گئیں۔ ’میں، مصطفی کمال اور عشرت العباد لندن گئے اور بہت سمجھایا۔ وہ سن لیتے اور مان بھی جاتے، مگر پھر وہی کرنے لگتے (جس سے منع کیا جاتا)۔‘
    سابق رکن سندھ اسمبلی نے بھی کچھ ایسا ہی منظر پیش کیا۔ ’وفود کے وفود جاتے تھے لندن۔ انھیں بتائے بغیر پہنچ جاتے تھے، ان کی منت سماجت کرتے تھے، سمجھاتے تھے مناتے تھے، مگر پھر دوسرے ہی روز وہی سب دوبارہ ہوتا تھا۔‘
    ایم کیو ایم لندن کے سابق رہنما محمد انور کے مطابق طارق میر نے تو اُن کے لیے ایک فٹنس سینٹر بھی تلاش کر لیا جہاں انھیں داخل کروایا گیا کہ شفایاب ہو سکیں وہ مگر نہیں مانے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ساتھیوں کے کہنے پر وہاں مطلوبہ مدّت گزار لیتے اور الکوحل چھُٹ جاتی تو شاید آج پارٹی اور وہ خود اس حال میں نہ ہوتے۔
    کراچی کے سابق ناظم اور ایم کیو ایم چھوڑ کر پاک سر زمین پارٹی بنانے والے مصطفیٰ کمال بتاتے ہیں: ’مجھے تو پتہ چل چکا تھا کہ وہ شراب نوشی کے عادی ہیں اور الکوحل کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ رات دو بجے ہم گھر آتے تو وہ ٹی وی پر بیٹھے ہوتے تھے، نشے میں، اور وہ جو دل چاہتا تھا بول رہے ہوتے۔ پھر میں نے ہی پہل کی۔‘
    مصطفیٰ کمال کے مطابق: ’میں نے انیس بھائی، عشرت العباد، فاروق ستار، سب سے بات کی۔ پھر 2008 میں ہم چاروں لندن آئے۔ میں الطاف بھائی کے پیر پکڑ لیے اور اُس وقت وہ مان بھی گئے کہ اچھا بتاؤ کیا کرنا ہے۔ ہم نے انھیں بحالی کے ایک مرکز میں داخل کروایا جہاں وہ اڑتالیس دن رہے۔‘
    ’جب وہ ٹھیک ہو کر واپس آئے تو مجھے دوبارہ لندن بلوایا کہ آؤ دیکھو میں ٹھیک ہوگیا ہوں۔ ہمیں بڑی خوشی ہوئی لیکن صرف تین چار مہینے ٹھیک رہے، پھر وہی شروع ہو گیا۔ پھر دوبارہ انھیں ایک بار پھر بھیجا گیا۔ دراصل وہ دو بار بحالی سنٹر جا چکے ہیں۔‘
    سنہ 2010 میں عمران فاروق کے قتل کے بعد الطاف حسین کے گھر سے پولیس نے دستاویزات کا پلندہ برآمد کیا۔
    پھر سنہ 2012 میں لندن پولیس نے الطاف حسین، محمد انور اور طارق میر کو بلوایا اور کہا کہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ آپ باہر سے فنڈنگ لے کر پاکستان میں دہشت گردی کروا رہے ہیں۔
    مصطفی کمال کہتے ہیں: ’پولیس نے دستاویزات سامنے رکھے تو پہلے انھوں نے انکار کیا۔ پھر اگلے تین دن میں سارا سب کچھ مان لیا کہ ہاں ہم انڈین خفیہ ایجنسی را سے فنڈنگ لے رہے ہیں۔ جب اعترافی بیان دے آئے تو پھر ہم آٹھ لوگوں کو دبئی بلوایا۔‘

    ان میں انیس قائم خانی، بابر غوری، فروغ نسیم، عادل صدیقی، عشرت العباد، محمد انور، طارق میر اور مصطفی کمال شامل تھے جبکہ وزیر داخلہ رحمان ملک کو بھی بلوایا گیا۔ وہاں ان سب کو بتایا گیا کہ را کے معاملے پر انھوں نے لندن پولیس کے سامنے اعتراف کر لیا ہے۔
    ’تب ہماری سمجھ میں آیا کہ اصل میں سارے غم وغصِہ، ذہنی دباؤ اور الکوحل وغیرہ کی وجہ کیا ہے۔‘
    مصطفی کمال کہتے ہیں کہ جب اگست 2013 میں وہ خود مایوس ہوگئے تو انھوں نے الطاف حسین کو چھوڑ دیا اور تین ماہ بعد انیس قائم خانی بھی آ گئے۔
    ان کے بقول سنہ 2006 سے 2016 تک، ’آخری دس سال تک تو رابطہ کمیٹی نے صرف الطاف حسین کو سنبھالا، کوئی اور کام کیا ہی نہیں۔ جب اندازہ ہوگیا کہ اب یہ نہیں سنبھل سکتے ہیں اور اب ان سے قوم اور تنظیم کو فائدے کی بجائے نقصان ہو رہا ہے تو ہم انھیں چھوڑ کر چلے گئے۔‘
    ایسے ہی حالات میں ایک دفعہ پہلے بھی الطاف حسین نے 2013 میں نائن زیرو پر کارکنوں کے ہاتھوں رہنماؤں پر تشدد کروایا اور پھر بالآخر معاملات خود اپنے ہاتھ میں واپس لینے کی کوشش کی۔
    رہنماؤں کے چھوڑ کر چلے جانے سے دلبرداشتہ، مریض بن جانے کی حد تک مایوس الطاف حسین آخرکار خود کو 22 اگست 2016 تک لے آئے۔
    اسٹیبلشمنٹ کی تنبیہ کے باوجود انھوں نے پہلے تو پاکستانی فوج کے جرنیلوں کے نام لے کر تقریروں میں مغلظات کا استعمال شروع کیا اور پھر کھلّم کھلا پاکستان کے خلاف تقاریر کرنے اور ذرائع ابلاغ پر ان تقریروں کو براہ راست نشر کرنے کے لیے دباؤ بھی ڈالنا شروع کر دیا۔
    جماعت کے ایک رہنما نے بتایا کہ گھر جا کر وہ اپنی مرضی سے اور کسی مشورے کے بغیر کارکنان یا ٹی وی سے خطاب شروع کر دیتے تھے اور 22 اگست کی تقریر بھی انہوں نے اپنے گھر سے ہی کی تھی۔ ’اگر مرکز پر ہوتے تو شاید ہم اُن کو روک لیتے۔‘

    مگر ان کی پارٹی کے لیے، جو پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار تھی، ملک اور فوج کے خلاف کی گئی تقریروں کا دفاع کرنا پہلے سے زیادہ مشکل ہوگیا تھا۔
    پھر ایک درخواست کی سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے ذرائع ابلاغ پر اُن کی تقاریر شائع یا نشر کرنے پر پابندی لگا دی۔ اس سے ایم کیو ایم شدید دباؤ میں آگئی۔
    ان پر دباؤ تھا کہ کوئی فیصلہ کن قدم اٹھایا جائے اور بالآخر اُس وقت پارٹی کی سب سے سینیئر رہنما فاروق ستار کو اعلان کرنا پڑا کہ ایم کیو ایم نہ تو اپنے قائد کے خیالات سے متفق ہے اور نہ ہی ملک و فوج کے خلاف ان کی تقاریر اور خطابات کی حمایت کرتی ہے۔
    اس طرح ایم کیو ایم پاکستان نے بطور تنظیم اُن سے علیحدگی کا اعلان کر دیا اور پارٹی اپنے ہی قائد کو چھوڑ کر چلی گئی۔ ان پر اتنا دباؤ تھا کہ اس نئی ایم کیو ایم کو اپنے ہی سابق قائد کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کر کے الطاف حسین کی مذمت کرنی پڑی۔
    تب سے اب تک الطاف حسین سیاسی منظر سے غائب ہیں۔

    • This topic was modified 2 years, 7 months ago by shami11.
    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #2

    مجھے اپنی سب اچھی اچھی باتیں اور دوسروں کی بری بری باتیں بعد میں کیوں یاد آتی ہیں . موقع پر میں کہاں ہوتا ہوں اور میری باتیں کہاں ہوتی ہیں’

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    سچ اور جھوٹ کی آمیزش سے تاریخ کو نہایت باریکی سے مسخ کرنے کی ایک کوشش
    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #4

Viewing 4 posts - 1 through 4 (of 4 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi