Home Forums Siasi Discussion اسلام آباد میں مندر کی تعمیر، اسلام مخالف یا جناح کے خواب کی تعبیر

Viewing 9 posts - 1 through 9 (of 9 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ایک ہندو مندر کے لیے جگہ مختص کیے جانے کے چند روز بعد ہی اس پراجیکٹ میں مشکلیں آنے لگی ہیں۔ جامعہ اشرفیہ نامی معروف مدرسے کے ایک مفتی نے اس کے خلاف فتوی دیا ہے اور ایک وکیل نے اس کی تعمیر روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی ہے۔

    جناح کا خواب

    ٢٣ جون کو انسانی حقوق کے پارلیمانی سیکریٹری لال چند ملہی نے اس مندر کے لیے منظور شدہ زمین پر ایک سادہ سی تقریب کے دوران تعمیراتی کام کا افتتاح کیا۔
    ٢٠١٧ میں مقامی ہندو کونسل کو یہ جگہ مختص کی گئی تھی تاہم تعمیر اس لیے شروع نہیں ہو سکی تھی کیونکہ ہندو برادری کے پاس اس کے لیے وسائل موجود نہیں تھے۔ اب وزیراعظم نے تعمیر کے پہلے مرحلے کے لیے دس کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے۔
    لال چند ملہی نے اس موقعے پر اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ ’کئی صدیوں میں یہ اسلام آباد میں بننے والا پہلا مندر ہو گا۔ حکومت نے چار کنال جگہ مختص کی ہے۔ پاکستان زندہ باد۔
    جیسے ہی اعلان کیا گیا اس مقام پر چار دیواری کی تعمیر شروع کر دی گئی۔
    پارلیمانی سیکرٹری لال چند مالی نے بی بی سی کو بتایا کہ اسلام آباد ہندو پنچایت اس مقام پر ایک بڑا کمپلیکس بنانا چاہتی ہے جس میں مندر، آخری رسومات کے لیے انتظام کی جگہ، لنگر خانہ، اور کمیونٹی کے استعمال کے کمرے ہوں۔ ابتدائی تخمینے کے مطابق اس کمپلیکس کی تعمیر کے لیے 50 کروڑ روپے درکار ہیں۔
    انھوں نے بتایا کہ ہندو پنچایت نے اپنے پیسوں سے چار دیواری بنانا شروع کر دی ہے کیونکہ حکومتی پیسے آنے میں وقت لگے گا۔
    انھوں نے کہا کہ ’اس ملک میں کئی مذاہب کے لوگ ہیں، اور پاکستان کے ہر شہری کا دارالحکومت اسلام آباد پر برابر کا حق ہے۔ اسی لیے یہ اقدام علامتی طور پر اہم ہے کیونکہ اس سے مذہبی ہم آہنگی کا پیغام جائے گا۔
    انھوں نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے دیگر اقلیتوں بشمول مسیحی اور پارسی برادری کے لیے قریب میں ہی 20، 20 ہزار مربع فٹ جگہ مختص کی ہے۔
    وہ کہتے ہیں کہ اس کا مقصد مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے جیسا کہ ’قائداعظم محمد علی جناح کا خواب تھا۔

    پرانا مطالبہ

    پاکستان میں تقریباً آٹھ لاکھ ہندو بستے ہیں جن کی اکثریت سندھ کے اضلاع عمر کوٹ، تھرپارکر، اور میرپور خاص ہے۔ اسلام آباد میں رہنے والے ہندوؤں کی تعداد تقریباً 3000 ہے۔
    اسلام آباد ہندؤ پنچایت کے سابق صدر پرتم داس ان افراد میں سے ہیں جو سنہ 1973 میں تھرپارکر سے اسلام آباد آئے تھے۔
    میں یہاں آنے والوں میں سے چند پہلے افراد میں سے ایک ہوں۔ میں تب آیا تھا جب یہ شہر چھ سال پرانا تھا۔ اب یہاں ہندو آبادی کافی بڑھ گئی ہے۔
    اسلام آباد کے علاقے سیدپور میں ایک چھوٹا سا مندر تھا جس کی اس وقت تعمیرِ نو کی گئی جب اس علاقے کو قومی ورثہ قرار دیا گیا۔ یہ ایک علامتی عمارت تھی جو کہ یہاں کی ہندو برادری کی ضروریات پوری نہیں کر سکتا تھی۔
    پرتم داس بتاتے ہیں کہ ’برادری کے لیے اپنی رسومات کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ ہمارے پاس آخری رسومات کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ ہمارے پاس کوئی کمیونٹی سینٹر نہیں تھا جہاں ہم دیوالی یا ہولی منا سکتے۔ مجھے خوشی ہے کہ حکومت نے اخرکار ہماری سُن لی۔

    کرشنا کمپلیکس کے خلاف فتویٰ

    لاہور کی جامع اشرفیہ دیوبندی مکتبہ فکر کا ایک مدرسہ ہے جو کہ فیروز پور روڈ پر قائم ہے۔ یہ سنہ 1947 میں بنایا گیا تھا اور یہاں سے ہزاروں دیوبندی اسکالر فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔ یہ دیوبندی مکتبہ فکر کے اہم ترین مراکز میں سے ایک ہے۔
    مدرسے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ عالم مفتی محمد ذکریا گذشتہ دو دہائیوں سے مدرسے سے وابستہ ہیں۔
    اپنے فتوے میں مفتی محمد ذکریا نے کہا ہے کہ اسلام کے مطابق اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی دیکھ بھال اور انھیں قائم رکھنا جائز ہے تاہم نئی عبادت گاہوں کی تعمیر کی اجازت نہیں ہے۔
    انھوں نے اپنے فتوے کے لیے تاریخی مثالیں بھی دیں ہیں۔
    بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مفتی محمد ذکریا نے کہا ہے کہ انھوں نے یہ فتویٰ شہریوں کے سوالات کے جواب میں دیا ہے۔
    ہم لوگوں کو قرآن اور سنت کی روشنی میں مطلع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم خود سے کچھ نہیں بناتے۔ میرے خیال میں اسلامی ریاست میں نئے مندروں کی تعمیر غیر اسلامی ہے۔
    ان سے جب پوچھا گیا کہ اگر حکومت آپ کی نہیں سنتی تو کیا آپ کچھ کریں گے تو انھوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں کہ ہم حکومت کو مجبور کر سکیں۔ ہم تو صرف رہنمائی کر سکتے ہیں۔ مذہب کے لحاظ سے ہم نے اپنا کام کر دیا ہے۔
    جامع اشرفیہ کے ترجمان مولانا مجیب الرحمان انقلابی نے بی بی سی کو بتایا کہ فتوے کا مقصد کسی کے ساتھ محاذ آرائی کرنا نہیں ہے، یہ صرف شہریوں کے مذہبی سوال کا جواب ہے۔

    قانونی رکاوٹیں

    اسلام آباد میں ایک وکیل نے بھی حکومت کی جانب سے مندر کے لیے زمین دینے پر اور تعمیراتی کام روکنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے۔
    درخواست گزار چوہدری تنویر ایڈووکیٹ نے اپنی درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے یعنی سی ڈی اے نے وفاقی دارالحکومت کے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہر کے سیکٹر ایچ نائن میں مندر کی تعمیر کے لیے جو اراضی فراہم کی گئی وہ غیر قانونی ہے۔
    انھوں نے کہا کہ متعقلہ ادارے کی طرف سے نہ صرف غیر قانونی طور پر مندر کی تعمیر کے لیے اراضی فراہم کی گئی بلکہ اس کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات کے حوالے سے فنڈر بھی جاری کیے گئے۔
    تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں ہندؤں کی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے مندر کی تعمیر روکنے سے متعلق حکم امتناع جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
    تاہم عدالت نے سی ڈی اے کے حکام سے کہا ہے کہ اگلی پیشی پر آ کر وہ ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کے حوالے سے اپنا جواب جمع کروائیں۔

    سیاسی ردعمل

    پاکستان اسمبلی کے اسپیکر اور ملک کے سینیئر سیاستدان پرویز الہی نے بھی اس مندر کی تعمیر کی مخالفت کی ہے۔
    سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسلام آباد میں نئے مندر کی تعمیر نا صرف اسلام کے خلاف ہے بلکہ ریاستِ مدینہ کے بھی خلاف ہے۔
    انھوں نے کہا کہ پیغمبرِ اسلام نے مکہ فتح کے بعد 360 بُت تباہ کیے تھے۔
    ان کا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے اور ان کی پارٹی نے اقلیتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے تاہم ان کا ماننا ہے کہ صرف تعمیر شدہ مندروں کو ہی چلایا جانا چاہیے۔
    بطور وزیراعلیٰ پنجاب انھوں نے کٹاس راج مندر کی تعمیرِ نو کا حکم بھی دیا تھا۔
    وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اُن کے دور حکومت میں ملک میں اقلیتوں کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جائے گا۔

    https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53244602

    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #2
    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #3
    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #4
    مندر ڈھا دے مسجد ڈھا دے، ڈھا دے جو کج ڈھیندا پر دل نہ کسے دا ڈھاویں بندیا رب دلاں وچ رہندا‘‘ 

    عمران نیازی نے پہلے تو گھروں کا لارا لگایا … پھر ایک اور دو خوش خبریووں کے لارے عوام کو لگاۓ .. اب اقلیتوں کے لئے مندر بنانا شروع کر دیے

    اس کو پتا ہے عوام کبھی بھی مندر نہیں بننے دے گی …

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #5
    حیرت ہے

    اسلام آباد میں جسم فروشی، دہشتگردی، شراب نوشی کے اڈے کھولے جا سکتے ہیں اور چھ ماہ تک پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دے کر عورتوں کو ناچ گانے کی کھلی چھٹی دی جا سکتی ہے لیکن ہندوؤں کو عبادت کرنے کے لئے مندر تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #6
    اگر حکومت نے مذہبی انتہا پسندوں کے خوف سے یا اتبلشمنٹ کے دباو پر اسلام آباد میں مندر کی تعمیر روک دی ہے تو یہ انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت قدم ہے اور یہ عمران خان کا اب تک سب سے بڑا یو ٹرن ہے

    یہ نواز شریف ہی تھا جسے قادیادنیوں پر حملے کے موقع پر ان کے پاس جا کر انہیں اپنے بہن بھائی کہنے اور ممتاز قادری کو پھانسی پر لٹکانے کی جرات ہوئی تھی

    Anjaan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #7
    I totally endorse Bawa Ji’s comments.

    It is a shameful act indeed.

    مسخّر
    Participant
    Offline
    • Member
    #8
    مندر ڈھا دے مسجد ڈھا دے، ڈھا دے جو کج ڈھیندا پر دل نہ کسے دا ڈھاویں بندیا رب دلاں وچ رہندا‘‘ عمران نیازی نے پہلے تو گھروں کا لارا لگایا … پھر ایک اور دو خوش خبریووں کے لارے عوام کو لگاۓ .. اب اقلیتوں کے لئے مندر بنانا شروع کر دیے اس کو پتا ہے عوام کبھی بھی مندر نہیں بننے دے گی …

    اوپر آپ لکھ رہے ہیں کہ دل نہ کسی دا ڈھاویں بندیا رب دلاں وچ رہندا دوسری طرف آپ مندر بننے کی مخالفت بھی کررہے ہیں، یہ کیا ماجرا ہے؟؟

    اس شعر کا مطلب یہی ہے کہ انسان کے دل کی اہمیت مندروں مسجدوں سے زیادہ ہے لیکن آپ مندر کو اہمیت دے رہے ہیں۔ کیا ہندو انسان نہیں؟؟

    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #9

    کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے قانونی وجوہات کے باعث اسلام آباد میں مندر کے پلاٹ پر چاردیواری (باؤنڈری وال) کی تعمیر کا کام روک دیا جبکہ وزیراعظم، وزارت مذہبی امور کو مندر کے لیے گرانٹ مختص کرنے سے متعلق سمری اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کو بھیجنے کی ہدایت کریں گے۔
    ساتھ ہی وزارت مذہبی امور نے واضح کیا کہ وزارت نے صرف مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی عبادت گاہوں کی تزئین آرائش میں مدد کی اور نئی عمارتیں تعمیر نہیں کیں۔
    مذکورہ پیغام وزارت مذہبی امور کی جانب سے سوشل میڈیا گروپس بشمول ٹوئٹر پر جاری کیا گیا تھا۔
    گزشتہ روز سی ڈی اے کے انفورسمنٹ اور بلڈنگ کنٹرول ڈپارٹمنٹس نے ایچ-9/2 میں مندر کی جگہ پر پہنچ کر مزدوروں کو چار دیواری کی تعمیر روکنے کی ہدایت کی۔
    جس کے بعد ہندو پنچائیت اسلام آباد نے کام روک دیا اور تعمیر کی اجازت لینے کے لیے پیر(6جولائی ) کو سی ڈی اے سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔
    پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے ایم این اے لعل چند ملہی نے کہا کہ ‘ ہم قانون پر عمل کرتے ہیں لیکن چار دیواری کی تعمیر ضروری تھی کیونکہ مدرسے کے چند طلبہ کی حمایت سے کچھ لوگوں نے 2018 میں پلاٹ پر ٹینٹ لگائے تھے اور انتظامیہ کی مدد سے جگہ کلیئر کرانے میں کئی مہینے لگے۔
    دوسری جانب ترجمان سی ڈی اے مظہر حسین نے کہا کہ سوک اتھارٹی کے بلڈنگ کنٹرول قوانین میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بلڈنگ پلان(نقشے) کی منظوری تک پلاٹ پر کوئی سرگرمی نہیں ہوسکتی۔
    تاہم سی ڈی اے کے انفورسمنٹ ڈپارٹمنٹ کے سینئر افسر نے آگاہ کیا کہ یہ ممکنہ طور پر پہلا موقع تھا جب اس شق کو نافذ کیا گیا تھا کیونکہ تمام مالکان کو چار دیواری تعمیر کرنے اور ان کے پلاٹ پر قبضے کو یقینی بنانے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ نقشہ کی منظوری کے حوالے سے باقاعدہ رسمی کارروائیاں جاری ہوتی ہیں۔
    دوسری جانب لعل چند ملہی نے کہا کہ پنچائیت نے وزارت مذہبی امور کو نقشہ جمع کرایا تھا اور وزیر پیر نورالحق قادری نے اسے عمارت کی تعمیر کے لیے 10 کروڑ کی گرانٹ کی سمری کے ساتھ وزیر اعظم کو ارسال کیا تھا۔
    خیال رہے کہ سرکاری نظام یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم نے سمری منظور کرلی تو عمارت کا منصوبہ وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کو ارسال کیا جائے گا اور پاک پی ڈبلیو ڈی عمارت کا منصوبہ متعلقہ شہری ادارے کو پیش کرے گا جو کہ سی ڈی اے ہے جس کے بعد وزارت خزانہ اس کی تعمیر کے لیے منظور شدہ فنڈز، پاک پی ڈبلیو ڈی کو جاری کرے گی۔
    تاہم وزارت مذہبی امور کے ترجمان محمد عمران نے کہا کہ تعمیر کے لیے گرانٹ کی سمری وزیر اعظم کو ارسال کردی گئی تھی۔
    ترجمان نے کہا کہ وزیر اعظم اقلیتی آبادی کے لیے عبادت گاہ کی تعمیر سے متعلق فنڈز کا فیصلہ کریں گے، انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم تمام معاشرتی اور مذہبی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کریں گے۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ حکومت اسلامی نظریاتی کونسل سے وزیر اعظم کو ارسال کردہ سمری پر رہنمائی اور مشورے طلب کرے گی۔
    خیال رہے کہ مذکورہ مطالبہ یکم جولائی کو جمعیت علمائے اسلام(ف)، مرکزی جمعیت اہل حدیث اور اسلام آباد میں لال مسجد اور دیگر مدارس سے وابستہ مذہبی رہنماؤں کی جانب سے کیا گیا تھا۔
    دریں اثنا وزارت مذہبی امور نے علما کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ مندر کے لیے پلاٹ وزارت مذہبی امور کی جانب سے نہیں بلکہ سی ڈی اے کے ذریعے 2017 میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی ہدایت پر الاٹ کیا گیا تھا۔
    ٢ جولائی کو پریس کانفرنس میں علما کی جانب سے وزارت مذہبی امور کی جانب سے مندر کی تعمیر کے لیے فنڈز جاری کرنے کے الزام کے جواب میں ترجمان نے واضح کیا کہ وزارت مذہبی امور، اقلیتی عبادت گاہوں کی تعمیر کے لیے فنڈز جاری نہیں کرتی، وزارت مذہبی امور، مذہبی اقلیتوں سے وابستہ عبادت گاہوں کی مرمت اور تزئین و آرائش کرتی ہے۔ اسی بیان میں وزارت نے کہا کہ ہندو برادری اپنے لیے مختص پلاٹ پر اپنے وسائل سے مندر تعمیر کررہی ہے۔

    https://www.dawnnews.tv/news/1136041/

Viewing 9 posts - 1 through 9 (of 9 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi