Home › Forums › Siasi Discussion › سانجھے کی ہنڈیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اک کو مناو دوجا روٹھ جاتا ہے
This topic contains 2 replies, has 2 voices, and was last updated by Athar 1 week, 1 day ago. This post has been viewed 133 times
میں نے کچھ نہیں بولنا
جو کچھ بولنا ہے وہ آپ لوگ بولیں
https://www.express.com.pk/epaper/Index.aspx?Issue=NP_SUK
برائے مہربانی فورم کے کرتا دھرتا خبر کو یہاں عیاں بھی کر دیں شکریہ
پاکستان کے جمہوری نظام کے تسلسل میں دیگر بہت سی رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ چند سیٹیں رکھنے والی پارٹیوں کا منفی کردار بھی بہت اہم ہے۔اس وقت تو ان کی چاندی ہی ہو جاتی ہے جب حکومت چند ووٹوں کے سہارے کھڑی ہو، اس وقت وہ بادشاہ گر ہوتے ہیں اور حکومت کو بلیک میل کرتے رہتے ہیں۔ انہیں وہ سب کچھ ملتا رہتا ہے جس کے یہ حقدار نہیں ہوتے کیونکہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کئے جائیں تو خود حکومت کے گر جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔سو یہ منافع بخش سودا بن گیا ہے۔ ایک ایسی پارٹی تشکیل دے دی جائے جو پانچ سات سیٹیں نکالنے کے قابل ہو، اور پھر حکومت سے حسب منشا ڈیل کر لو۔ اگر طاقتور ادارروں کا حکومت سے کوئی اختلاف ہو جائے تو حکومتی کشتی سے چھلانگ لگا کر طاقتور سے مل جائو اور اپنا مستقبل محفوظ کر لو
اگرچہ دو تہائی اکثریت والی حکومت کو سرنگوں کرنا بھی ہمارے ہاں کوئی مشکل کام نہیں ہے مگرمعمولی اکثریت سے حکومت بنانے والوں کے لئے ان کی موجودگی میں کسی بڑے تردد کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
جمہوریت کی بقا ،بہتری اور تسلسل کے لئے جب بھی سنجیدگی سے سوچا جائے گا تو اس پر بھی ضرور غور کرنا ہوگا کہ ان گڈی لٹ گروپس کے منفی کردار کو سیاست سے کیسے منہا کیا جائے۔،
سن1997کا الیکشن تھا صدر فاروق احمد خان لغاری
وزیر اعظم ملک معراج خالد
الیکشن کی نگران فوج
جس طرح الیکشن 18کے موقع پر مولوی پین دی سری تیار کیا گیا
اسی طرح اُس وقت ایک تانگہ پارٹی صدر لغاری کے زیر نگرانی تیار کی گئی تا کہ ایک ہنگ پارلیمنٹ وجود میں آسکے جس سے لغاری بھی خوش افواج بھی خوش جو بھی وزیر اعظم بنے وہ ان کے انگوٹھے کے نیچے رہے
لیکن الیکشنز میں ایسی یکطرفہ ہوا چلی کہ نون لیگ سینچری اور ڈبل سینچری بنانے میں کامیاب ہوگئی
جس کے نتیجے میں نہ صرف 58ٹو بی ختم ہوئی بلکہ صدر کے اختیارات محدود ہوکر رہ گئے
صدر لغاری کو استعفیٰ دے کر گھر جانا پڑا جنرل کا انتخاب وزیر اعظم کو منتقل ہوا
اُس وقت کی دو تہائی اکثریت سے بہت کچھ چاہے حاصل نہ کیا جاسکا لیکن پردہ نشینوں کو اندازہ ہوگیا کہ اب اگر کسی پارٹی کو دو تہائی اکثریت مل گئی تو وہ ان سے مزید دو قدم آگے بڑھ کر کاروائیاں کرنے میں آزاد ہوگی
اب اگر500سے زائد پانامہ لیکس کے لوگوں میں سے صرف ایک فرد پر اس قدر پھرتی سے پھرتیاں نہ دکھائی جاتیں تو اس مرتبہ پھر یہی جماعت 2تہائی سے زیادہ اکثریت سے ساتھ ایوان میں براجمان ہوتی جو کہ سابقہ تجربہ رکھنے والوں کو کسی طور قبول نہیں تھا ان کو ایک کٹھ پتلی چاہئے تھی جو یہ کہیں وہ بولے جو یہ کہیں وہ کرے لہذا نیازی ہمارے سامنے ہے
اب نیازی کے حلق میں ا،دھر اُدھر سے حمائت دلواکر وزارت عظمیٰ پھنسا دی گئی ہے بیچارہ نہ نگل پارہاہے نہ اُگل پا رہا ہے۔
You must be logged in to reply to this topic.