Muhammad Hafeez
Participant
Offline
  • Professional
#11
مجھے یاد ہے میرے بچپن اور اوائل جوانی میں صوبہ سرحد کی ڈگری کی ایک ویلیو مانی جاتی تھی جبکہ اس کے مقابلے میں بلوچستان بورڈ یا یونیورسٹی کی ڈگری کو انتہائی تھرڈ کلاس مانا جاتا تھا۔ میرے پھوپھا پشاور سے پڑھے تھے اور خاندان میں ان سے زیادہ سلجھا ہوا اور نالج والا کوئی اور نہیں تھا لہذا خاندان کے بزرگوں نے زیادہ تر اپنے بچوں کو پشاور پڑھنے بھیجا۔ اس کے باوجود کہ وہاں سے پڑھے ہمارے کزنز باہر ممالک میں اب اچھی اچھی پوسٹس پر کام کررہے ہیں ایسی نوبت کبھی نہیں آئی کہ ایک ہزار سے زیادہ کسی نے نمبرز لئے ہوں۔ اب تو لگتا ہے کے پی کے نظام تعلیم میں بھی تبدیلی نے اپنے اثرات دکھانے شروع کر دئیے ہیں۔ پہلے ہمارے پنجاب کے رشتہ دار بلوچستان یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے کر پنجاب بیٹھے بیٹھے یہاں سے ڈگری لے لیا کرتے تھے اب ایسے نکموں کا مسکن کے پی ہوا کرے گا۔ انگلش اور اردو کے مضمون میں ممکن ہی نہیں کہ آپ سو بٹا سو لے سکیں۔

اس بار وفاقی حکومت کی ہدایت کے مطابق طلباء کے صرف اختیاری مضامین کا امتحان لیا گیا ، جیسے سائنس کے طلباء سے صرف ریاضی ، فزکس ، کیمسٹری اور بیالوجی کا امتحان لیا گیا ، ان مضامین میں حاصل کردہ نمبروں میں وفاقی حکومت کی ہدایت کے مطابق ہی پانچ فیصد نمبروں کا اضافہ کرکے کل نمبروں کے تناسب سے لازمی مضامین جیسے مطالعہ پاکستان ، اسلامیات ، اردو اور انگریزی کے نمبر فرض کرلئے گئے ، اگر کسی بچے نے 1050 نمبر حاصل کئے ہوں تو فارمولے کے تحت اس کے نمبر 1100 یا کل نمبروں سے زائد ہوں جائیں گے

×
arrow_upward DanishGardi