Believer12
Participant
Offline
Thread Starter
  • Expert
#4
مجھے یاد ہے میرے بچپن اور اوائل جوانی میں صوبہ سرحد کی ڈگری کی ایک ویلیو مانی جاتی تھی جبکہ اس کے مقابلے میں بلوچستان بورڈ یا یونیورسٹی کی ڈگری کو انتہائی تھرڈ کلاس مانا جاتا تھا۔ میرے پھوپھا پشاور سے پڑھے تھے اور خاندان میں ان سے زیادہ سلجھا ہوا اور نالج والا کوئی اور نہیں تھا لہذا خاندان کے بزرگوں نے زیادہ تر اپنے بچوں کو پشاور پڑھنے بھیجا۔ اس کے باوجود کہ وہاں سے پڑھے ہمارے کزنز باہر ممالک میں اب اچھی اچھی پوسٹس پر کام کررہے ہیں ایسی نوبت کبھی نہیں آئی کہ ایک ہزار سے زیادہ کسی نے نمبرز لئے ہوں۔ اب تو لگتا ہے کے پی کے نظام تعلیم میں بھی تبدیلی نے اپنے اثرات دکھانے شروع کر دئیے ہیں۔ پہلے ہمارے پنجاب کے رشتہ دار بلوچستان یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے کر پنجاب بیٹھے بیٹھے یہاں سے ڈگری لے لیا کرتے تھے اب ایسے نکموں کا مسکن کے پی ہوا کرے گا۔ انگلش اور اردو کے مضمون میں ممکن ہی نہیں کہ آپ سو بٹا سو لے سکیں۔

میں اب بھی ان کے متعلق حسن ظن رکھتا ہوں کیونکہ سب سے پہلے یہ جہالت پنڈی بورڈ نے کی تھی اور صرف دو نمبرکم کے ساتھ ریکارڈ نمبرز دینے والے بورڈز میں سب سے اوپر آکرایک مقام پیدا کیا، آپ کی بات کا جواب ایک ٹویٹر پر دیا گیا دل جلے ٹویٹر صارف نے بہت حسرت سے کہا کہ  پہلے سٹوڈنٹس کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا اب بورڈز کے درمیان مقابلہ ہوا کرے گا

×
arrow_upward DanishGardi