unsafe
Participant
Offline
  • Advanced
#44

محترم اطہر صاحب
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
شہوت انسان کی بنیادی ضرورت ہے ، مرد عورت کی طرف فطری رغبت رکھتا ہے ، مگر کچھ معاشروں میں مرد و زن کو مذھب اور پاکدامنی کے نام پر اتنا دور کر دیا جاتا ہے کہ باوجود ایک ازدواجی تعلق کے وہ اپس میں ٹھیک طریقے سے مل نہیں پاتے … میں اصل میں انہی حدود و قانون کی بات کر رہا ہوں جو انسانوں کو انسان بننے کی بجاے مزید جانور بنا رہے ہیں ….. مذاھب اور مذھبی رہنما کہنے کو تو بہت باحیا ہیں ، یہ بڑے بڑے فتوے صادر کرنے پر مائل رہنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو تشدد اور بے رحم انسانی رویوں پر ابھارتے ہیں۔ پادری کا چرچ ہو یا مسلمان کی مسجد دونوں ہی میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کے اس طرح کے 90 فیصد سے زیادہ واقعات کبھی بھی عوام الناس کے سامنے نہیں آتے بلکہ انسانی زندگیوں کے چھپے ہوئے صفحات میں کھو کر رہ جاتے ہیں

مسلمانوں میں جنسی زیادتی کا زیادہ شکار بچیوں سے زیادہ بچے ہییں، مسلمانوں کے ملاں کی مثال اس لئے آپ کو دے رہا ہوں ان سے زیادہ ازدواجی تعلق میں کون باحیا ہو سکتا ہے اور وہ شادی شدہ بھی ہیں….. ایک عورت کی طرف بھی راغب ہیں …. مگر مدارس اور درسگاہوں کا ماحول ہی ایسا ہے کہ ایک مذھبی سکالر کے لئے بچوں سے جنسی لذت حاصل کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ مولانا صاحبان انتہائی پردہ دار بیویاں رکھتے ہیں، جو ان کو حیا کی وجہ سے پاس نہیں آنے دیتی جو اپنے گھروں سے باہر تک نہیں نکلتی، ایسی خواتین موٹاپے اور دوسری بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں، جس کے باعث مولوی بھی ان سے وہ جنسی آسودگی حاصل نہیں کر سکتا جو ایک صحتمند اور آزاد عورت اپنے مرد کو فراہم کر سکتی ہے …

آپ جس معاشرے کے حدود و قید کی بات کر رہے ہیں وہاں پہ مرد کا باحیا ازدواجی تعلق ان کو درندہ بنا دیتا ہے .. اس کے علاوہ معاشرے میں مردوزن کا علیحدہ علیحدہ رکھا جانا دراصل اس جنسی فرسٹریشن کو بڑھانے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ باپردہ معاشروں میں مرد کی ٹھرک اس قدر شدید ہوتی ہے کہ عورت کے پاؤں دیکھ کر ہی مرد آپے سے باہر ہو سکتا ہے۔ کیونکہ مرد کی نظر کو جوان و خوبصورت عورت نظر ہی نہیں آتی اس لئے اس کو بچیاں اور کم عمر لڑکے بھی حسین اور قابل شہوت لگنے لگتے ہیں، اور اسی وجہ سے وہ ان کی طرف بھی جنسی طور پر مائل ہو جاتا ہے۔ یہی مسائل مولوی کے ساتھ ہوتے ہیں، وہ معاشرے میں جنسی آسودگی سے محروم رہتا ہے، اپنی پارسائی کا بھرم بھی رکھنا ہے کسی فاحشہ کے پاس بھی نہیں جا سکتا۔ مسیحی راہب کی طرح مسلمانوں کے گھروں کی عورتوں تک بھی اس کی زیادہ رسائی نہیں ہوتی، اس صورت میں مدرسے کے طالبعلم ہی آسان شکار بن جاتے ہیں .. ا ابی ہالی ہی حال ہی میں مفتی عزیز ور رحمان کیا واقعہ آپ کے سامنے … وہ مفتی بھی باحیا تھا .. اور عورتوں کی طرف دیکھتا نہیں تھا .. لیکن نظر بچوں پہ رکھی ہوئی تھی …

آپ پاکستان کے کسی بازار میں جب لوگوں کے پاس سے کوئی لڑکی گزرتی ہے ان کی شکلیں دیکھ کر ان کی فرستراشن کا اندازہ لگا لیں …. یہ سب لوگ ایک ہی عورت سے رغبت رکھنے والے ہیں … لیکن پھر بھی ایسے ہو جاتے ہیں .. یہ سب معاشرے کی حدود اور پاکدامنی کا کمال ہے

آخر میں اپ کو ایک بات کہنا چاہوں .گا … کہ جو معاشرہ جنتی پاکیزگی کی اشاعت کرتا ہے .. اس میں معاشرے میں پلنے والے انسانی جانور اتنا ہی خواھشات کے اسیر ہوتے ہیں … لہٰذا ہمیں اپنی فطرت سے لڑنے کی بجاے وہ قانون تبدیل کر دینا چاہے جو ہمیں درندہ بنا رہے ہیں … کیوں کہ انسان جنگلات میں بھی تو رہا ہے وہاں تو کوئی مولوی کوئی نکاح خوان نہیں تھا … بچے بھی پیدا ہوے ہیں . انسانی نسل انہی سے پڑھی ہے ..

×
arrow_upward DanishGardi