shami11
Participant
Offline
  • Expert
#62
جی شاہد بھائی آپ بلکل درست فرما رہے ہیں

;-) ;-)

دوسرا سوال کیونکہ آسان ہے تو اس کا جواب پہلے۔ قرضے، قسطوں کی ادائیگیاں، قرضوں کی معافی یا نئے اور مزید قرضے، یہ سب کچھ کرنٹ اکاؤنٹ کا حصہ نہی ہوتے۔ ہمارے اگر سارے قرض معاف ہو جائیں تب بھی کرنٹ اکاؤنٹ وہی رہے گا۔ دوسرا یہ کہ کووڈ کی وجہ سے پاکستان کا کوئی قرض معاف نہی ہوا۔ ہماری تقریبا ایک بلین ڈالر کی قسطیں ڈیفر ہوئی ہیں یعنی وہی ادائیگی اب اگلے سال کی قسط میں جمع کر کے ہو گی۔ یہ سہولت ہمیں جی ۲۰ نے دی ہے۔ اسی طرح ہمیں کچھ چھوٹی موٹی گرانٹس اور چھوٹے نئے قرضے اسی ضمن میں ملے ہیں لیکن اس سب کا کرنٹ اکاؤنٹ کے ساتھ کوئی لینا دینا نہی ہے۔ قرضوں بارے یہ کہ ترقی پذیر ممالک کے قرض بڑھتے ہی ہیں کم نہی ہوتے۔ بیرونی محاذ پر اس کی بڑی وجہ کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ اور اندرونی محاذ پر ٹیکس کم اکٹھا ہونا ہے۔ ترقی پزیر ممالک میں اتنے بزنسز ہوتے ہی نہی کہ اتنا ٹیکس اکٹھا ہو سکے جو کارِ مملکت کے چلانے کے لئے کافی ہو۔ کسی بھی حکومت کا اصل امتحان یہی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم سے کم رکھے اور زیادہ سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرے تاکہ قرضے بڑھنے کی رفتار بھی کم ہی رہے۔ جب ایک اکانومی ترقی کرتی ہے تو کرنٹ اکاؤنٹ ہمیشہ خسارے میں جاتا ہے لیکن اصل مسئلہ خسارے کا نہی بلکہ خسارے کے سائز کا ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک کے لئے سالانہ سات سے آٹھ ارب ڈالر کا خسارہ صحت مند اکانومی کی نشانی ہے لیکن اگر خسارہ اس سے بڑھے گا تو اسے سنبھالنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ کمائے گئے ڈالروں کی دونوں طرف ترسیل میں فرق کو کہتے ہیں اور جب آپ نے ڈالر دینے زیادہ ہوں اور آتے کم ہوں تو فرق کو قرض لے کر ہی پورا کریں گے۔ اسی لئے موجودہ حکومت کے پہلے ڈیڑھ دوسال میں بیرونی اور اندرونی قرض بہت تیزی سے بڑھا کیونکہ ابھی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں ہی تھا اور اسے پورا کرنے کے لئے قرض لیا جا رہا ہے۔ ریزروز بھی نہی تھے تو انہیں بھی بھرنا تھا۔ پھر کرنٹ اکاؤنٹ کو کنٹرول کرنے کے لئے شرح سود بڑھایا گیا تاکہ لوگ پیسے کم خرچ کریں تو اس سے گورنمنٹ جو مقامی قرضوں پر سود دیتی ہے وہ سود کا بل بھی ایک ہزار ارب روپئیے بڑھ گیا۔ کووڈ بھی ساتھ آ گیا جس پر ۲۰۰۰ ارب کا پیکج دیا گیا جبکہ کووڈ کی وجہ سے منافعے کم ہوئے تو ٹیکس کالیکشن بھی کم ہوئی۔ اس کے علاوہ پچھلی حکومت اور موجودہ حکومت کی ایک پالیسی بھی آڑے آئی کہ ن لیگ کی حکومت نوٹ چھاپ کر گزارا کر لیتی تھی لیکن موجودہ حکومت نے پہلے دن سے نوٹ نہ چھاپنے کا قصد کیا تاکہ اکانومی کی بیس سٹرانگ ہو سکے۔ تو ان سب عوامل کی وجہ سے قرضے زیادہ لینے پڑے۔ لیکن اب ہم ان حالات سے نکل آئے ہیں یہ سارے مسائل ڈالر کو باندھے رکھنے اور کرنٹ اکاؤنٹ کی وجہ سے تھے جن پر اب قابو پا لیا گیا ہے اور اب قرض کم رفتار سے بڑھ رہے ہیں۔ ۔ ایک اور بات ، کہ حکومت کے پاس سات ہزار ارب کا ریونیو اکٹھا ہوتا ہے جس میں سے آئینی طور پر چار ہزار ارب صوبوں کو چلا جاتا ہے۔ باقی ماندہ تین ہزار ارب میں سے پندرہ سو ارب فوج اور پندرہ سو ارب سود پر چلا جاتا ہے۔ یعنی باقی اخراجات، ڈویلپمنٹ فنڈ، کیپیسٹی چارجز، تنخواہ، صحت، تعلیم اور سینکڑوں دوسری مدوں کے لئے صفر رقم ہوتی ہے۔ اور یہ سب ہمیشہ ہی سے قرض سے پورے ہوتے ہیں۔ تاریخ میں شاید پہلی دفعہ مرکزی حکومت کا پرائمری بیلنس ہے۔ یعنی اگر سود اور قسط نہ دینی ہو تو ہمیں ایک روپئیے قرض کی بھی ضرورت نہی۔ ۔ قرضوں بارے آپ کے سوال اور کسی طرف بڑھنے کی سمت پر آپ کے سوال پر سوال ہے کہ اگر ن لیگ کی سمت چلتی رہتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ۲۰ سے ۳۰ ارب ہو چکا ہوتا تو قرض کے بڑھنے کی رفتار کیا ہوتی؟ پچھلی دفعہ تو انہیں ۲۰۱۳ میں اڑھائی ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ملا تھا اور امپورٹ کے مساوی سات ہزار ارب کے نوٹ بھی چھاپ لئے تھے لیکن اب اگر ان کی سمت اور ان کی حکومت ہوتی تو قرض کے نمبرز کیا ہوتے اور کیا ہم دیوالیے سے بچ جاتے کہ سالانہ قسط ہی ۲۵ ارب ڈالر تک پہنچ جاتی۔ ۔ چینی آٹا اور عام مہنگائی۔ اگر کسی سال پیاز کم پیدا ہو تو اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے اسے سپلائی ڈیمانڈ کا میکینزم کہتے ہیں۔ اب اگر مارکیٹ میں موجود ساری اشیاء کے مجموعے میں سے ایک چوتھائی اشیاء غائب ہی کردی جائیں تو کیا قیمتیں بڑھیں گیں یا نہی؟ کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو کم کرنے کے لئے امپورٹ میں کمی کی گئی تو یہی کچھ ہوا ۔ ۔ دوسرا۔ روپئے کی قیمت خالی ریزروز اور ۲۰ ارب ڈالر کے خسارے کی وجہ سے گری۔ ن لیگ کے ہوتے ہوئے ہی اس ڈگر پر چل نکلی تھی۔ شروع میں ڈار نے اسے روک رکھا تھا تو ایک ڈیڑھ ارب ڈالر مارکیٹ میں پھینکنے پڑتے تھے، لیکن دو ہزار سترہ میں وہ چار سے پانچ ارب ڈالر اس پر صرف کر رہا تھا جبکہ ۲۰۱۸ میں ڈالر کو باندھے رکھنے کی قیمت سات ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی تھی۔ اسے ایک نہ ایک دن رسہ تڑوانا ہی تھا۔ کاش ڈار نے شروع ہی سے اہستہ اہستہ اسے جانے دیا ہوتا۔ روپئے کے گرنے سے بھی قیمتیں بڑھیں کہ ایک ڈالر کی چیز پہلے سو روپئےمیں پڑتی تھی اب ایک سو اڑسٹھ پرپہنچ گئی۔ ۔ تیسری وجہ۔ پچھلے سال پانی کم تھا اور لوکیٹس ٹڈی نے بھی تباہی پھیلائی، کسان کو بھی زیادہ قیمت دی گئی۔ سپلائی کم اور ڈیمانڈ زیادہ تھی۔ گنے کے کاشتکار کو سندھ میں ۱۵۰ سے بھی کم ملتا تھا لیکن اب اسے فی من ۲۱۲ روپئیے دئیے جارہے ہیں تو چینی کی قیمت بھی لازما بڑھنی تھی۔ ۔ چوتھی وجہ۔ حکومت کارٹلز کو کنٹرول نہی کر پا رہی۔ پہلے یہ کارٹلز حکومت کے ساتھ کوآپریٹ کرتے تھے اور حکومت ان کے ساتھ ۔ اب حکومت اور ان کے درمیان کھلی جنگ ہے۔ حکومت سیاسی طور پر کمزور ہے اور قانون سازی بھی نہی کر سکتی۔ ۔ پانچویں وجہ بجلی کے مہنگے معائدے اور کیپیسٹی چاجز اور روپئہ گرنے کی وجہ سے مہنگی بجلی ہے۔ حکومت کی ناکامیاں:۔ انتظامی ناکامیوں، بزدارازم وغیرہ کے علاوہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ پر قابو ایکسپورٹ بڑھا کر کم لیکن ریمیٹینسز بڑھنے کی وجہ سے پایا گیا ہے۔ حکومت آنے سے آج تک دس سے گیارہ ارب ڈالر ریمیٹینسز بڑھی ہیں۔ ان کے بڑھنے میں پالیسیوں کا کتنا حصۃ ہے اور کووڈ کا کتنا، یہ بتانا مشکل ہے۔ کل کلاں اگر ریمیٹینسز دوبارہ بیس ارب پر آگئیں تو ہم وہیں کھڑے ہونگے جہاں میاں صاحبان چھوڑ کر گئے تھے۔ ہمیں ایکسپورٹس بڑھانی ہیں اور وہ بڑھ نہی رہیں یا بہت ہی کم بڑھ رہی ہیں۔
×
arrow_upward DanishGardi