Believer12
Participant
Offline
Thread Starter
  • Expert
#4

Believer12 sahib

محترم

میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کے ہمیں محترم علی نواز صاحب جیسے لوگوں کی موجودگی کا شکر ادا کرنا چاہے

معذرت کے ساتھ ایک سوال ہے

اور جو لوگ محترم علی نواز صاحب جیسے نہیں ہیں اور آپ کی بات سے مھے محسوس ہوا کہ ہمارے ملک میں اکثریت محترم علی نواز صاحب جیسے لوگوں کی نہیں ہہے تو انکی موجودگی کا شکوہ کس سے کریں

جے بھای یہ آج کی بات نہیں معاشروں میں ہمیشہ سے ہی قحط الرجال کی کیفیت رہی ہے سنا ہے کہ سو سال پہلے کی اخبارات اٹھا لیں تب بھی ایسے ہی مضامین شائع ہوتے تھے کہ ہماری نوجوان نسل بگڑ چکی ہے اس میں پرانی نسل والی اخلاقیات نہیں رہیں۔ یہ اساتذہ کا احترام نہیں کرتے اور فیملی کے بزرگوں کی بجاے دوستوں میں گھومنا پسند کرتے ہیں۔ اس آخری فقرے کو آپ دوستوں کی بجاے اب سوشل میڈیا لکھ دیں۔ پاکستان میں بھی اکثریت کدووں کی ہے اور اچھے لوگ کم ہیں مگر ابھی اچھے لوگ موجود ہیں ختم نہیں ہوے۔ دونوں طرح کے لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں تناسب کا فرق ہے۔ میں ناروے میں رہا ہوں وہاں کی نسبت یہاں زیادہ مطلب پرستی دیکھی ہے

اس کا شکوہ آپ کسی سے بھی نہیں کرسکتے سواے اپنی ذات کے کیونکہ یہ ہم ہی ہیں جو معاشرے ترتیب دیتے ہیں ، ہم اس کا ایک حصہ ہیں ایک اینٹ ہیں

میں قرآن مجید میں ایک پیغمبر کا واقعہ پڑھ رہا تھا انکی قوم میں سے کوی بھی نیک نہیں رہا تو اللہ تعالی نے اس پیغمبر کو کہا کہ تم اس بستی کو چھوڑ کر چلے جاو اور مڑ کر بھی نہ دیکھنا

گویا ایک بندہ بھی ایک پوری بستی یا شہر میں ہو تو اللہ تعالی اسے بچا لیتا ہے، اس بندے کی اہمیت کا اندازہ اور اس کواس طریقے سے محفوط کرنا اور عذاب جو آنے والا تھا اس سے بچانا کم از کم میرے لئے ایک بہت ہی خوشگوار قسم کا انکشاف تھا یعنی پورے معاشرے میں صرف ایک بندہ اور اس کی فیملی نیک تھے تو انہیں بھی بچایا گیا تاکہ ان دو چار نیک لوگوں سے دوبارہ جاگ لگے اور مزید نیک لوگ پیدا ہوں یہ نہ ہو کہ باقی بستی کے ساتھ یہ بھی مارے جائیں اور پھر ایک بھی نیک بندہ اس بستی کا نہ ملے

  • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
×
arrow_upward DanishGardi