shami11
Participant
Offline
  • Expert
#45
اعوان بھائی ، شاہد بھائی کی بات میں دم ہے

میرا ایک اور سوال ہے ، اگر پاکستان امریکہ کو پاکستان میں اڈے دیتا ہے تو کیا پاکستان کے حالات اچھے نہی ہو جائیں گے ؟

:serious:

تجزیہ نگاروں کی باتوں پر جائیں گے ایسی باتیں ہی کریں گے۔ پاکستان میں کونسا تجزیہ نگار آزاد خیال ہے جو سچی بات کر سکے۔ یہ چینی اور آٹا نہ ہوتے ہوئے بھی ایکسپورٹ اور پھر امپورٹ کرنے کی کہانی نئی نہی ہے۔ دس سال سے چینی کو وافر نہ ہوتے ہوئے بھی وافر دکھا کر کاغذوں میں ایکسپورٹ کیا جا رہا تھا۔ ہر سال شوگر مافیا (جن کی اپنی حکومت ہوتی تھی) کہتی تھی ہمارے پاس چار ملین وافر پراڈکشن ہے۔ اور کیونکہ پراڈکشن پرائس زیادہ ہے اور ایکسپورٹ پرائس کم اس لئے حکومت سبسڈی دے۔ حکومت ۳۰ ارب تک سبسڈی دے دیتی تھی اور شوگر کی افغانستان ایکسپورٹ دکھا دی جاتی تھی۔ نہ چینی وافر ہوتی تھی نہ ایکسپورٹ ہوتی تھی، نہ فیزیکلی چینی افغانستان جاتی تھی لیکن مل مالکان ۳۰ ارب روپئہ کھا جاتے تھے۔ آپس کی بات تھی زرداری تھا شریف تھے یا ترین اور دوسرے سیاست دان۔ آپس ہی میں مک مکا ہو جاتا تھا۔ نئی حکومت کے پہلے سال بھی یہی ہوا۔ انہیں جو وافر چینی اور گندم کے اعدادو شمار بیوروکریسی(جو خود حصہ لیتے تھے) کی طرف سے دئیے گئے انہی پر انحصار کرتے ہوئے انہوں نے چار ارب سبسڈی بھی دی اور ایکسپورٹ کی اجازت بھی لیکن جیسے ہی انکوائری ہوئی، حقائق سامنے آئے تو یہ دروازہ بند کر دیا گیا اور مل مالکان کا رونا اس دن سے دیدنی ہے۔ ملکی اداروں کو کرپشن سے جس طرح شریفوں نے تباہ کیا اسی طرح چلنے دئیے جاتے تو شاید آپ بھی راضی ہوتے اور ان کرپٹ لوگوں کے ٹاؤٹ تجزیہ نگار بھی۔ نظر اور سوچ کی بات ہے سرجی۔ ایک چھ لین موٹر وے ملتان سے سکھر بنی تھی قیمت تھی ساڑھے سات ملین ڈالر فی کلومیٹر۔ ایک اب سکھر سے حیدرآباد تک چھ لین ایکنک نے منظور کر لی ہے چھ سال بعد بھی قیمت ہے سوا چار ملین ڈالر فی کلومیٹر۔ ایک ۱۰۰ میگاواٹ کا سولر پارک بھاولپور میں لگا تھا آج اس سے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت ہے ۲۵ روپئیے فی یونٹ ایک ایسا ہی ۱۰۰ میگاواٹ کا پارک اب لیہ میں لگا ہے ٹیریف ہے ساڑھے چھ روپئیے۔ کچھ بجلی کے پلانٹس تب لگے تھے ٹیریف بھی دس سے ساڑھے گیارہ پینس تھا اور کیپیسٹی چارجز بھی سو فیصد پر تھے کچھ اب ایپروو ہوئے ہیں جن کا ٹیریف ہے ساڑھے چار پینس فی یونٹ اور کوئی کیپیسٹی چارجز نہی ہے۔ کچھ نئے بھی ساڑھے تین پینس پر آفر کر رہے ہیں اور یہ کلین انرجی ہے۔ سولہ سو ارب سالانہ کے کیپیسٹی چارجز دینے پڑ رہے ہیں بغیر ایک میگاواٹ بجلی استعمال کئے ہوئے۔ چھ فیصد گروتھ سالانہ بھی ہوتی تو اس بجلی کی کھپت کو آٹھ سال مزید لگتے۔ ۳۸۰۰۰ کی کیپیسٹی ہے جبکہ گرمیوں میں ۲۳۰۰۰ اور سردیوں میں نو ہزار میگاواٹ کی ڈیمانڈ ہے۔ سولہ سو ارب سالانہ کا یہ ٹھیپا اس فوجی بجٹ سے بھی زیادہ ہے جسے ہم ہر سال روتے ہیں۔ اب مہنگی بجلی لے کر لوگوں کو سستی بیچتے رہو، سرکلر ڈیٹ بڑھاتے رہو اور ۳۸۰۰۰ تک میگاواٹ بڑھانے کے کیپیسٹی چارجز دیتے رہو۔ لیکن سمجھنا مت کہ کچھ اشوز اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ایک دھائی تک قوم لٹ جاتی ہے اور کچھ کاسمیٹک اشوز ہوتے ہیں کہ فلاں ڈی سی کو اتار کے فلاں دوسرے کو کیوں لگا دیا۔ . باقی باتیں بغیر کسی ثبوت جتنی مرضی کرتے جاؤ۔ بڑے مقاصد اور اشوز کو آف سیٹ کرنے کو چھوٹی چھوٹی نقطہ چینیاں، پاپولر اپوزیشن سٹینس، یا نعروں کو مروموٹ کرنا سب کی طرح آپ کا بھی حق ہے۔ ہر حکومت سے چھوٹی چھوٹی غلطیاں بھی ہوتی ہیں، سب کی طرح بوٹ پالش کرنا اور اصل داتاؤں کو خوش رکھنا بھی آج کل ہر حکومت کی مجبوری ہے چاہے وہ دو تہائی اکثریت سے آئے یا مانگے کی اکثریت سے۔ جتنی مظبوط مینڈیٹ والی حکومت ہو گی اتنا زیادہ رززسٹ کر سکے گی اور جتنی کم اکثریت والی ہو گی تو داتاؤں کا اثر زیادہ ہوگا۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اسے بدلنے کے لئے عمران زرداری یا شریف نہی بلکہ ایک الگ سے بندہ چاہئیے جس کے پیچھے اس مقصد کے لئے عوام بھی کھڑی ہو۔
×
arrow_upward DanishGardi