Awan
Participant
Offline
Thread Starter
  • Professional
#35
ماضی میں جو حکومتیں آئیں ہیں کم از کم انہوں نے عوام اور ووٹروں کے سامنے پردہ رکھتے ہوئے خود کو جمہوری اور بااختیار حکومت کا مالک ظاہر کرنے کی کوششیں تو کی مگر آج سیاسی بے پردگی کا تو عالم یہ ہے کہ ایک سلیکٹڈڈ وزیراعظم ہائبرڈ نظام حکومت کو اپنی خود ساختہ کامیابیوں سے منسلک کر تے ہیں ایک بار اسی ہائبرڈ سسٹم کے بارے میں کسی صحافی (نام یاد نہیں ) کا کالم پڑھا تھا تو یہ مثال لکھی تھی جو یاد رہ گئی وہ کچھ یوں تھی کہ ایک قصائی نے خرگوش کا گوشت بیچنا شروع کر دیا تو دوکان پر لائنیں لگ گئیں کسی بندے نے پوچھا تو اسنے بتایا کہ بس ملا جلا (ہائبرڈ) گوشت بیچتا ہوں جس میں آدھا حصہ ایک خرگوش اور دوسرا ایک اونٹ کا ہوتا ہے ہمارا ہائبرڈ نظام بھی کچھ ایسی ہی برابری پر قائم ہے جس میں آمریت کا ایک اونٹ اور جمہوریت کا ایک خرگوش ہمیشہ ہی شامل رہے ہیں اس مثال کی مکمل تصویر موجودہ بلوچستان حکومت بلوچستان عوامی پارٹی یعنی باپ ہے اور یہ مثال یاد بھی اسی لیے رہ گئی مجھے :.(
فوجی بوٹ چاٹ کر ایک سیاست دان حکمران تو بن سکتا ہے لیکن لیڈر نہیں بن سکتا ہے. لیڈر سیاست دان تب ہی بنتا ہے جب بوٹ چاٹنے چھوڑ کر وہی بوٹ فوجیوں کے منہ پر نہ دے مارے عمران خان بھٹو اور نواز شریف کی طرح پچیس سال فوجی بوٹ چاٹ کر حکومت میں تو آگیا ہے لیکن لیڈر نہیں بنا ہے. فوج نے اسے حکومت تو دی ہے لیکن اقتدار و اختیار نہیں دیا ہے اور حکومت بھی وہ دی ہے جو دوسروں کی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہے اتنی کمزور سول حکومت شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں کوئی آئی ہو جسے دو چار سیٹیں رکھنے والی کوئی بھی اتحادی پارٹی اپنے قدموں میں جھکنے پر مجبور کر دے. اب تو حکومتی پارٹی کے اندر بننے والے جہانگیر ترین جیسے گروپ بھی حکومت کی ناک سے لکیریں نکلوا رہے ہیں حکومت اپنی ہی پارٹی کے باغی ارکان کے سامنے اتنی بے بس اور ان سے اسقدر خوفزدہ ہے کہ اس گروپ کے اراکین کو پارٹی سے نکالنا تو بہت دور کی بات ہے، انہیں اس کھلم کھلا بغاوت پر شو کاز نوٹس تک جاری نہیں کر سکتی ہے. کبھی عمران خان اور اس کے وزیر مشیر ان باغیوں کے آگے وفاقی بجٹ پاس کروانے کیلیے منتیں کر رہے ہیں اور کبھی عثمان بزدار اور اس کے وزیر مشیر پنجاب کا بجٹ پاس کروانے کیلیے ان باغیوں کے پاؤں پکڑ رہے ہیں عمران خان اسوقت ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں سے وہ ایک سیاسی لیڈر بن کر بھی نکل سکتا ہے اور دیگر بوٹ چاٹنے والے حکمرانوں کی طرح تاریخ میں دفن بھی ہو سکتا ہے. اس کے پاس دو آپشنز ہیں. پہلا آپشن تو یہ ہے کہ اپنے پانچ سال پورے کرنے کیلیے اسی طرح فوجی اسٹبلشمنٹ اور اس کے پالتو بلیک میلرز کے جوتے چاٹتا رہے اور ان کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو کر اپنے پانچ سال پورے کرے. اس کے پاس دوسرا آپشن یہ ہے کہ ٹی وی پر آ کر قوم سے خطاب کرے، اسے فوجی اسٹبلشمنٹ اور کارندوں کی بلیک میٹنگ سے آگاہ کرے، عوام سے اسے انتخابات میں واضح مینیڈیٹ دینے کی درخواست کرے، اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کروانے کا اعلان کرے اور فوجیوں کی بھیک میں دی ہوئی حکومت فوج کے منہ پر مار کر عوام کے پاس جائے ہمارے ملک کی تاریخ ہے کہ سیاست دان حکومت سے عزت و آبرو سے رخصت ہونے اور عوام کا اعتماد حاصل کرنے کیلیے عوام کے پاس جانے کی بجائے فوجی اسٹبلشمنٹ کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہونے کو ترجیع دیتے ہیں جس کی وجہ سے فوجی اسٹبلشمنٹ کو ان بلڈی سول حکمرانوں کی تذلیل کرنے کا سنہری موقع ملتا ہے اگر بھٹو اپوزیشن کے ستتر کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد عوام کا اعتماد حاصل کرنے کیلیے عوام کے پاس چلا جاتا تو فوج کے ہاتھوں پھانسی نہ لگتا. اسی طرح اگر نواز شریف فوج کے بلیک میل کرنے پر حکومت سے چمٹے رہنے اور پرویز رشید اور مشاہد الله خان جیسے مخلص کارکنوں کی قربانی دینے کی بجائے عوام کا اعتماد حاصل کرتا تو آج فوج اور اس کی راکھیل جوڈیشری کے ہاتھوں حکومت اور سیاست سے تا حیات نا اہل نہ ہوا ہوتا اب یہ فیصلہ کرنا عمران خان کے اختیار میں ہے کہ کیا وہ مزید دو سال حکومت کرنے کیلیے فوج اور اس کے بلیک میلرز کے ہاتھوں ذلیل ہونے اور فوج کے بوٹ چاٹنے کو ترجیع دیتا ہے یا اگلے پانچ سال حکومت کرنے کیلیے عوام کے پاس جانے اور عوام کا اعتماد حاصل کرنے کو ضروری سمجھتا ہے؟ جو فوج کی بجائے عوام پر اعتماد کرتا ہے، عوام اسے مایوس نہیں کرتی ہے

باوا بھائی آپ کی خان کے لئے تجویز اچھی ہے – خان اگر اس وقت مافیا کی وجہ سے جکڑے ہونے کو بہانہ بنا کر استعفیٰ دے دے اور کہے مجھے پورا منڈیٹ چاہئے – مجھے کرپٹ لوگ بلیک میل کرتے ہیں – یہ اس کے مستقبل کے لئے اچھا ہے – ایسا کرنے سے اسے اگلی حکومت تو نہیں ملے گی مگر اگلی حکومت کے بھد اس کے بھد والی حکومت کے چانس ہیں – جیسے پیپلز پارٹی پانچ سال پورے کرنے کے بھد پنجاب سے ہمیشہ کے لئے دفن ہو گئی ایسے ہی خان کی پارٹی نے بھی اگر پانچ سال پورے کئے تو یہ بھی پنجاب سے ختم ہو جائے گی – میرا ذاتی خیال ہے کہ خان استعفیٰ نہیں دے گا – ابھی خان کے موقع پرست ساتھی جو دو مزید سال اقتدار کے مزے کرنا چاہتے ہیں خان کو کہیں گے دیکھیں جی ڈی پی تیسرے سال سے پہلے ہی چار کو چھو گئی ہے اور اگلے دو سال میں یہ سات کو کراس کر جائے گی اور آپ عوام کے ہیرو بن جائیںگے – اس خوش فہمی میں خان کبھی استعفیٰ نہیں دے گا – ویسے بھی بائیس سال کی جدوجہد کے بھد کون کافر اقتدار چھوڑتا ہے – دوبارہ اقتدار نہ ملنے کے یقین کے ساتھ بھی یہی دل چاہتا ہے اب جب کسی طرح اقتدار مل ہی گیا ہے تو کیوں جانے دیں – میرے خیال سے اب تو خان نے استعفیٰ دینے کا سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے – خان کو اب صرف پانچ سال پورے کرنے سے غرض ہے اب تو اپوزیشن کو لٹکانا بھی پہلی ترجیح نہیں رہی بلکے پہلی ترجیح یہ ہے کہ پانچ سال پورے ہونے تک کوئی بندہ ادھر ادھر نہ ہو – جو بھی جو کچھ مانگتا ہے دے دلا کر اقتدار بچایا جائے –

×
arrow_upward DanishGardi