Atif Qazi
Participant
Offline
  • Expert
#4
یادوں کے دریچوں سے کوشش کروں تو اخباری یادداشت پر مبنی کچھ تاثرات رہ گئے ہیں ان کو سپرد قلم کرنے کی کوشش کرتا ہوں بارہ اکتوبر سے قبل کی بات ہے دو تہائی اکثریت سے منتخب وزیر اعظم کو اپنے چیف آف آرمی اسٹاف کے انتخاب پر ملال ہونا شروع ہو گیا تھا مشرف کو وہ یہ سوچ کر آگے لاے تھے کہ اردو اسپیکنگ کی حیثیت سے اسکی اپنی کویی لابی نہیں ہوگی اور وہ اپنی کرسی پر براجمان رہنے کے لئے نہ صرف نواز شریف کا احسان مند رہے گا بلکہ شاید آئ جی پنجاب کی طرح فرمانبردار بھی رہے گا ، مگر واجپائی کے دورہ کے دوران اور بعد میں کارگل کے واقعات کے بعد کچھ ہی عرصہ میں میاں صاحب کو اپنی غلطی کا ادراک ہو گیا اور فرمانبرداری کی توقعات دھری کی دھری رہ گیئں . چنانچہ انکے تھنک ٹینک جو انتہائی قریبی رفقا اور ابا جی پر مشتمل تھا میں مشورے شروع ہو گئے کہ کسی طرح جنرل مشرف سے جان چھڑائی جائے اور کسی قابل اعتماد جنرل کو آرمی چیف بنایا جائے وزیر اعظم کے ارادوں کی بھنک آرمی چیف کو ہو گئی اور نواز شریف کو جی ایچ قیو میں ایک بریفنگ کے لئے دعوت دی گئی جب وزیر اعظم وہاں پہنچے تو انکو آرمی چیف کے خلاف ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ سنوائی گئی . ریکارڈنگ سن کر نواز شریف کے اوسان خطا ہو گئے اور اس نے مشرف سے کہا کہ آپ یہ سب بھول جایں اب ہماری طرف سے ایسی کویی بات نہیں ہوگی بلکہ آپ کو جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے عہدے پر تعنیات بھی کیا جاتا ہے اور فوری طور پر مشرف کے جے سی او ایس کے عہدے کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہو گیا (اب مجھے یہ یاد نہیں آرہا کہ آیا یہ عہدہ اس وقت خالی تھا؟ یا کسی اور کو ہٹا کر مشرف کو دو عہدے دے دئیے گئے تھے ؟ ) بظاہر معاملہ سلجھ گیا تھا مگر ظاہر سی بات ہے دونوں فریقین میں بد اعتمادی بڑھ چکی تھی . فوج کے کور کمانڈرز اپنے ایک سابقہ چیف کی ہتک آمیز انداز میں برطرفی کو لے کر پہلے ہی ناخوش تھی اور یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ اگر ایک مرتبہ پھر ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تو فوج کے وقار میں فرق آے گا لہذا اسکی مزاحمت کی جائیگی اور اگر ضروری ہوا تو وزیر اعظم کی چھٹی کردی جائیگی . اسی طرح وزیر اعظم کے تھنک ٹینک میں انتہائی احتیاط کے ساتھ صلاح مشورے شروع ہو چکے تھے کہ کسطرح مشرف سے جان چھڑائی جائے . میاں صاحب کی حکمت و دانش و آنا کے عین مطابق فیصلہ ہوا کہ مشرف کو بیرون ملک بھیج کر انکو بر طرف کردیا جائے شاید مشرف نے سری لنکا میں ہونے والی کانفرنس میں جانے سے بھی انکار کیا تھا شاید اسکو بھی خدشہ تھا مگر وزیر اعظم کے اصرار پر اسکو جانا پڑا. بعد کے واقعات سے تو سب آگاہ ہی ہیں

ویسے پہلی بات تو یہ ہے کہ آرمی چیف کا تقرر، ایکسٹینشن اور برطرفی آئینی طور پر ایک منتخب وزیراعظم کا اختیار ہے اور آپ کی بتائی ہوئی مبینہ میٹنگ جس میں بقول آپ کے میاں صاحب کے اوسان خطا ہوئے ایسی کسی میٹنگ کا انعقاد ہی غیری آئینی اور غیر قانونی تھا تو پھر آرمی کے غصے کا کیا مطلب؟؟ یعنی آپ کسی ادارے میں کام کریں اور آپ یہ سمجھتے رہیں کہ مجھے اگر اس ادارے سے نکالا گیا تو یہ ادارے کی بدنامی ہے؟؟ آپ کی اسی خامی کی وجہ سے آپ کو بھائی کا خلیفہ نہیں بنایا ورنہ آپ آدمی کام کے ہیں کافی۔

دوسری بات یہ ہے کہ کارگل ایڈونچر کے بعد اس سیاپے کو شروع کرنے والے تمام افسران کو انکوائری کا ڈر تھا جس کی وجہ سے بہت پہلے ہی فوج میں بالائی سطح پر سول حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش تیار کی جاچکی تھی۔ اگرچہ میں ہمیشہ سے اسی تھیوری کا قائل رہا ہوں لیککن میرے اس بیانئیے کو تقویت پہنچانے کیلئے آج مشاہد حسین اور کرنل اشفاق کے بیانات پڑھ لیں دماغ سے سارے آلتو فالتو جالے صاف ہوجائیں گے۔

تیسری بات یہ کہ مجھے ایسا کیوں محسوس ہورہا ہے کہ آپ میاں صاحب کا اس احترام سے ذکر نہیں کررہے جس کے وہ اہل ہیں؟؟

لہذا بندے دا پُتر بننے کی بھرپور کوشش کی جائے، ادارہ اپنے وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔

×
arrow_upward DanishGardi