Zinda Rood
Participant
Offline
Thread Starter
  • Professional
#16
پہلے تو آپ یہ کلیئر کریں برداشت کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے یا ڈائریکٹ فرما دیں کہ اگر قران جلایا جائے تو برداشت کرنا چاہیے ٹائر جلایا جائے تو ہرگز نہیں ، یہ کس قسم کا انصاف ہے

عامر صدیق۔۔۔ پرانے زمانوں میں لوگ مختلف دیوی دیوتاؤں کو پوجتے تھے، ہر علاقے اور ہرقبیلے کا اپنا اپنا دیوتا ہوتا تھا، ایک قبیلے کے خدا کو دوسرے قبیلے کے لوگ  نہیں مانتے تھے اور وہ لوگ ایک دوسرے کے دیوی دیوتاؤں کو گالیاں تک دے لیتے تھے،  مگر کبھی اس پر سرپھٹول نہیں کرتے تھے، کیونکہ ان میں بھی اتنا شعور تھا کہ جو ان کا خدا ہے، وہ صرف ان کا ہے، دوسروں کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ مسلمان اکیسویں صدی میں پہنچ گئے ہیں، مگر ابھی تک یہ بات  نہیں سمجھ سکے کہ جو چیز ان کیلئے مقدس ہے، وہ صرف ان کیلئے مقدس ہے اور وہ زبردستی دوسروں سے اس کا احترام نہیں کرواسکتے۔ ہاں مسلمان اپنے رویے سے دوسروں کو اپنے عقائد کا احترام کرنے پر ضرور مجبور کرسکتے ہیں۔ 

جہاں تک قرآن کے احترام کا مطالبہ ہے تو معاملہ صرف اسی تقاضے تک محدود نہیں، مسلمانوں کے مطالبات کی فہرست بہت طویل ہے جو وہ زبردستی منوانا چاہتے ہیں۔ مسلمان چاہتے ہیں کہ کوئی ان کے نبی کے کارٹون نہ بنائے جبکہ ان معاشروں میں عیسائیوں کی اکثریت ہونے کے باوجود عیسیٰ کے کارٹون بنتے ہیں۔ مسلمان چاہتے ہیں کہ کوئی فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب یا انٹرنیٹ کے کسی بھی کونے کھدرے پر ان کی کسی مقدس مذہبی شخصیت کے خلاف کچھ نہ بولے۔ کچھ روز قبل بنگلور میں فیس بک پر ایک مسلمان نے ہندوؤں کے کسی بھگوان پر مزاحیہ کارٹون شیئر کیا، جواب میں کسی ہندو نے سرکارِ دو عالم کا کارٹون شیئر کردیا، ہندوؤں نے تو اپنے بھگوان کی توہین پر کوئی ری ایکشن نہ دیا، مگر  مسلمانوں نے اس جوابی پوسٹ پر پورے بنگلور میں کئی دن تک بوال مچائے رکھا۔ اس وقت تیرہ اسلامی ممالک میں توہینِ اسلام کی سزا موت ہے اور بے شمار لوگ محض توہینِ مذہب کا الزام لگنے پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پاکستان میں آسیہ مسیح نے اپنی عمر کا بڑا حصہ اپنے بچوں اور خاندان سے دور رہ کر جیل میں گنوا دیا، پروفیسر جنید جیسا سکالر کئی سالوں سے جیل میں سڑرہا ہے،  طاہر نسیم نامی معصوم نفسیاتی مریض کو عدالت کے اندر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، گورنر تک مسلمانوں کی بڑھی ہوئی مذہبی حساسیت سے بچ نہیں پاتا۔ یہ زہر مسلمانوں میں اس قدر سرایت کرگیا ہے کہ ہر بندہ اب دوسروں کو توہینِ مذہب کے نام پر مار کر ہیرو بننا چاہتا ہے، کچھ روز قبل پارلیمنٹ کے سامنے سے ایک شخص کو گرفتار کیا گیا جو ختم نبوت کے نعرے لگاتے ہوئے پستول سے فائرنگ کررہا تھا۔ 

مسلمانوں کی اپنے عقائد اور مذہبی شخصیات کے بارے میں حساسیت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ پاکستان میں سنی اور شیعہ  کی سرپھٹول ہر وقت جاری رہتی ہے، ایک مولوی آصف جلالی کو صرف اس لئے اندر کردیا گیا کہ اس نے صرف اتنا کہہ دیا کہ حضرت فاطمہ باغِ فدک مانگنے کے معاملے میں خطا پر تھیں۔ گویا حد سے بڑھی ہوئی مذہبی حساسیت کے شکار وہ مولوی بھی ہونے لگے ہیں جن کا کاروبار ہی توہین اور گستاخی کے فتوے لگانا ہے۔ اب تو سنی حضرات اس مشن پر ہیں کہ پاکستان میں توہینِ صحابہ کا قانون بنوا کر اہلِ تشیع کا بھی ناطقہ بند کردیا جائے۔ شیعوں کیلئے بھی سبق ہے کہ جس طرح انہوں نے احمدیوں کے خلاف قانون سازی میں سنیوں کا ساتھ دیا، اب خود بھی بھگتیں، اگر آپ دوسروں پر پابندیوں کے حق میں ہیں تو ایک دن آپ خود بھی پابندیوں کی زد میں آئیں گے۔

  میری نظر میں یہ جو قرآن جلانے کے واقعات ہیں، یہ نہایت خوش آئند ہیں اور میں ان کی حمایت کرتا ہوں۔ اس سے وقتی طور پر مسلمانوں کو تکلیف تو ہورہی ہے، لیکن لانگ ٹرم میں یہ مسلمانوں کےلئے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔ مسلمانوں کی مذہبی حساسیت کو نارملائز کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ایسے واقعات زیادہ سے زیادہ ہوں تاکہ ان کیلئے یہ چیز معمول کی چیز بن جائے ۔ جیسے کینسر کے مریض کو کیموتھراپی کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے، مگر ہوتی وہ کینسر کے مریض کے بھلے کیلئے ہے۔ ایسے ہی میں قرآن جلانے، سرکارِ دو عالم کے خاکے بنانے والے واقعات میں مسلمانوں کا ہی فائدہ دیکھ رہا ہوں۔ جب مسلمانوں کی مذہبی حساسیت ختم ہوجائے گی، اور وہ ایسے واقعات پر ری ایکٹ کرنا چھوڑ دیں گے، تب وہ ایک مہذب اور برداشت کی حامل قوم کہلائے جانے کے حقدار ہوں گے اور بہتر طور پر دوسری اقوام میں ضم ہوسکیں گے۔۔

  • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
×
arrow_upward DanishGardi