BlackSheep
Participant
Offline
  • Professional
#147
ہر زبان میں، خاص طور پر رابطے کی زبانوں جیسے اردو یا انگریزی وغیرہ، میں ایک ہی کیفیت یا حال کے اظہار کیلئے آپ کو ان گنت الفاظ مل جائیں گے اب یہ یوزر پر ہے کہ وہ کس طرح کے اظہار کیلئے کونسی حالت کے بیان کیلئے کونسا لفظ چنتا ہے، یہی انتخاب بیان میں تاثر کے اظہار کا باعث بنا ہے اور ہر اظہار آپکی شخصیت کا عکس ہوتا ہے میں اپنی اس پوسٹ میں پہلے ہی الفاظ کی مختلف کیٹیگریز، اصوات اور لسانیات کے دوسرے پہلوؤں بارے بات کر چکا ہوں اور زیر بحث لفظ کی کیا حیثیت اور اس سیاق و سباق میں کیا کیٹیگری ہے۔ ابھی بھی اس میں مجھے کسی ترمیم کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اس وقت مجھے اسی مفہوم کے پنجابی کے بہت سارے لفظ یاد نہیں آرہے، لیکن جو یاد آ رہے ہیں انہیں کیٹیگوریکل ترتیب سے لکھ رہا ہوں وللّا، جھلّا، سِدّھڑ، کھوتا، پھدو، چُڈو چُڈو پھدو سے بھی آگے کی چیز ہے اور اس مخصوص کفیفت کیلئے گالی میں شمار ہوتا ہے لال رنگ کا جملہ شائد آپ الٹ لکھ گئے ہیں ورنہ آپ کی مثال میری بات کی تائید میں ہی ہے کیونکہ راجھستانی بھی اردو سے پرانی ہے اپنی پچھلی پوسٹ میں میں نے “امکان” کی بات کی تھی کہ کس بات کا امکان زیادہ ہے، ایسا بلکل نہیں ہے کہ کوئی دراوڑی زبان کسی نسبتاً نئی زبان سے کوئی لفظ لے ہی نہیں سکتی ۔ ۔۔ ۔ زندہ زبانوں میں آپس میں لین دین چلتا رہتا ہے

چلبل پانڈے۔۔۔۔۔

دراصل عاطف نے اپنی تحریر میں جس دوست کا ذکر کیا تھا، وہ مَیں ہی تھا۔۔۔۔۔

مجھے اِس لفظ(پھدو) کے استعمال بابت کچھ الجھن ہے۔۔۔۔۔ اور مجھے آپ کی وضاحت کچھ سمجھ نہیں آئی۔۔۔۔۔

مَیں پنجابی النسل بھی نہیں ہوں اور نہ مَیں زبانوں کے علوم پر کچھ علم رکھتا ہوں۔۔۔۔۔ تو اکیڈمیکلی تو بات نہیں کرسکوں گا مگر ایک دوسرے زاویے سے کچھ گذارشات لکھتا ہوں۔۔۔۔۔

مجھے آپ کی اِس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ لفظوں کا انتخاب آپ کی شخصیت کا ایک عکس ہی ہوتا ہے اور یہ ہر شخص پر منحصر ہے کہ وہ کن الفاظ کا انتخاب کرتا ہے۔۔۔۔۔ اور مَیں اِس معاملے میں آپ کا ہم خیال ہوں۔۔۔۔۔

اب جیسا کہ عاطف نے لکھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ زبان میں کسی لفظ کے اصل لغوی معنیٰ کچھ غائب ہوجاتے ہیں اور اُس لفظ کے ایک نئے معنیٰ تخلیق ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔ میرے خیال میں یہ ایک درست آرگومنٹ ہے۔۔۔۔۔ اب جیسا کہ لفظ رنڈی کی مثال ہے۔۔۔۔۔ یعنی لفظ وہی رہا لیکن پرانے معنیٰ کی جگہ ایک نئے معنیٰ تخلیق ہوگئے۔۔۔۔۔ تو یہی صورتحال لفظ پھدو کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے اور میرے خیال میں ہے۔۔۔۔۔ کہ اب یہ لفظ عورت کے کسی جسمانی عضو کے بجائے کسی اعلیٰ درجہ کے احمق یا کافی ساری صِفات کے مرکب کیلئے استعمال ہوتا ہے۔۔۔۔۔

یاد رہے کہ مَیں اپنا آرگومنٹ معزز بلاگر کی طرح کسی صورت علمی اعتبار سے پیش نہیں کررہا کہ لفظ پھدو دراصل بھدو کی نئی شکل ہے۔۔۔۔۔ اور نہ ہی مَیں کوئی مخصوص لفظ استعمال کرنے یا نہ کرنے کی تاکید کے بارے میں کچھ کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔

علاوہ ازیں میرے خیال میں ہمیں زبانوں کے ارتقاء میں وقت کے عنصر کو ضرور شامل رکھنا چاہئے۔۔۔۔۔ اب جیسے انگریزی لفظ ایف یو سی کے ہے یا فَکنگ۔۔۔۔۔ لغوی معنیٰ تو سب کو معلوم ہی ہوں گے۔۔۔۔۔ لیکن یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ اب عام روزمرہ کی زبان میں اِس لفظ کو ایک دوسرے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔

یا اِسی طرح کا معاملہ لفظ پھدو کے اُردو ورژن (چ و ت ی ا) یا (چ و ت ی ا پ ہ) کا ہے۔۔۔۔۔ آج سے بیس پچیس سال پہلے شہری سندھ کے علاقوں میں یہ لفظ اتنا زیادہ مستعمل نہیں تھا لیکن اب بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ اور عورت کے مخصوص جسمانی عضو کے حوالے سے نہیں بلکہ کچھ اور معنوں میں۔۔۔۔۔

پسِ تحریر۔۔۔۔۔

جج۔۔۔۔۔ میری مندرجہ بالا تحریر میں کافی خطرناک الفاظ استعمال کئے گئے ہیں مگر ذرا میری تحریر کا سیاق و سباق دیکھ لیجئے گا میری پوسٹ مٹانے سے پہلے یا مجھے بَین کرنے سے پہلے۔۔۔۔۔

Judge

×
arrow_upward DanishGardi