BlackSheep
Participant
Offline
  • Professional
#73
قرار صاحب۔۔۔۔۔

بہت سارے مختلف نکات ایک موضوع میں آجاتے ہیں تو اکثر اپنی سوچ کو بیان کرنا ذرا مشکل ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔ مَیں ایک تحریر لکھتا ہوں(جو کوشش کے باوجود بھی نامکمل ہی ہوگی) جس سے شاید میری ذاتی سوچ کا کچھ اندازہ ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔

پی کے پولیٹیکس پر ایک اچھا بلاگر ہوا کرتا تھا، پَیجا مِستری۔۔۔۔۔ لبرل خیالات اور سیاسی بائیں بازو کی سوچ کا حامل تھا۔۔۔۔۔ پَیجا مِستری نے سالوں پہلے ایک بہت ہی زبردست نُکتہ اٹھایا تھا کہ انسانی معاشروں میں ایک سوال ہمیشہ سے تشنہ ہے(اور شاید رہے گا) کہ لوگ کیا چاہتے  ہیں، پَیجا کا کہنا تھا کہ اِس سوال کا کبھی بھی مکمل جواب نہیں ملتا۔۔۔۔۔ مجھے پَیجا مِستری کی یہ بات بہت ہی اچھوتی لگی تھی اور جب اِس پر غور کیا تو سمجھ آیا کہ واقعی الیکشنز ہوں، ریفرنڈم ہو، جلسے جلوس رَیلیاں ہوں، احتجاج ہو غرض کچھ بھی ہو یہ تمام سیاسی حرکیات بھی مکمل طور پر یہ آشکار نہیں کرتیں کہ لوگوں کے اذہان میں کیا ہے اور وہ کیا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔ اور پھر ابھی پچھلے سال اپنے شیراز صاحب نے اِسی نُکتہ کو ایک دوسرے انداز میں اُٹھایا تھا کہ اِبلاغ کا مسئلہ ہمیشہ رہتا ہے کہ بحث و مباحثہ کرنے والے دو افراد بھی اپنی مکمل سوچ کو اپنے دلائل میں یا اپنی باتوں میں یا اپنی تحاریر میں نہیں اُتار پاتے۔۔۔۔۔ چونکہ اِس سوال کا جواب ایک لحاظ سے فطری طور پر نامکمل ہوتا ہے تو سیاستدان ہوں یا کوئی اور حتیٰ کہ کوئی بلاگر بھی کیوں نہ ہو، اُن کیلئے یہ دعویٰ کرنا بہت آسان ہوتا ہے کہ پاکستان کے بائیس کڑور عوام یہ چاہتے ہیں وہ چاہتے ہیں، جیسا کہ اِنہی صفحات پر ایسے ایسے معززانہ دعوے بھی نظر آتے ہیں کہ پاکستان کی عوام اب فوج کو یہ کرنے نہیں دے گی، اگر فوج نے یہ کیا تو عوام فوج کے ساتھ یہ کردے فلاں کردے گی، خیر بنو پھدوئین کی پھدویانہ باتیں، جانے دیں۔۔۔۔۔

یہ صفحہ طاقت سے متعلق ہے۔۔۔۔۔ سیاسی حوالوں سے طاقت کیا ہے، میرے خیال میں نظریاتی طور پر سیاسی لحاظ سے طاقت، دوسروں کے اذہان کو، اُن کی سوچ کو کنٹرول کرنے کا نام ہے، جو سیاسی و مذہبی رہنماؤں و سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے، چاہے وہ معاشی وجوہات کی بناء پر ہو یا عقیدت کی بناء پر یا کسی اور وجہ سے۔۔۔۔۔ بہت سے لوگ پاکستانی ملٹری کی طاقت کو صرف اور صرف ہتھیاروں کی وجہ سے جسمانی خوف کو فوج کی طاقت کہتے ہیں، مَیں ذاتی طور پر اِس سے معمولی سا اتفاق کرتا ہوں۔۔۔۔۔ میرے خیال میں پاکستانی فوج کی اصل طاقت اُن کے نفسیاتی حُربے و چالیں ہیں جن کی مدد سے وہ پاکستان کی سب سے بالادست قوت ہے۔۔۔۔۔ آپ خود کہتے ہیں کہ فوج، پاکستانی عوام میں پسندیدگی کے اعتبار سے تقریباً ہر سَروے میں سب سے اونچی پوزیشن پر نظر آتی ہے۔۔۔۔۔ اگر یہ فوج کی طاقت نہیں ہے تو پھر کیا ہے، سَروے میں شامل لوگوں کے سَر پر پستول تو نہیں رکھی ہوئی ہوتی ہے جو وہ پسندیدگی کے حوالے سے فوج کا انتخاب کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور جیسا کہ پہلے بھی کتنی دفعہ کہا گیا ہے کہ کسی بھی معاشرے کا بنیادی جُز، فرد ہوتا ہے۔۔۔۔۔ سیاسی طاقت بھی اُس فرد کی سوچ کو اپنی جانب مائل کرنے کا دوسرا نام ہے۔۔۔۔۔ اور یہی کام فوج بھی کرتی ہے۔۔۔۔۔ لہٰذا میرا اِس بات پر یقین پُختہ ہی ہوتا جارہا ہے کہ فوج کو یہ طاقت ہمارے لوگوں نے ہی فراہم کی ہے۔۔۔۔۔ پچھلے فورم پر میرا اور ایم بخاری(وہاں پر میرا ایک دوست) کا بڑا ہی پُختہ یقین تھا کہ پاکستان فوجی پارٹی، اِس ملک کی سب سے کامیاب سیاسی جماعت ہے۔۔۔۔۔ لیکن یہاں اِس مقام پر آکر اکثر مثالیت پسند اور ہمارے لبرل حضرات ایک بہت ہی مختلف راستہ لے لیتے ہیں اور چیخ و پکار مچانا شروع کردیتے ہیں کہ فوج کے پاس یہ طاقت نہیں ہونی چاہئے، ارے بھئی بالکل مان لیتے ہیں کہ نہیں ہونی چاہئے لیکن ہے، اَب اِس اسٹیلمیٹ پوزیشن کا کیا کریں۔۔۔۔۔ جیسا کہ پُرولتاری دُرویش نے ابھی ایک دو دن پہلے کہا کہ مونسٹر سے لڑنے سے پہلے آپ کو مونسٹر کو سمجھنا پڑے گا، اور مَیں اِس سے اتفاق کرتا ہوں کہ آپ جب تک اپنے دشمن کو سمجھ نہیں سکتے تو اُس سے لڑ کیسے سکتے ہیں، اور یہاں مَیں اِس نکتہ کو مزید بڑھاتا ہوں کہ اگر آپ کا دشمن آپ(سیاستدانوں) کو شکست پر شکست دیتا آرہا ہو تو پہلے تو کھل کر یہ تسلیم کرو کہ یہ دُشمن(ملٹری) ہم(سیاستدان) سے بہتر چالیں چل رہا ہے۔۔۔۔۔ لیکن یہ کرنے کیلئے آپ کو اپنے جذبات اٹھا کر بالکل ایک طرف کر دینے ہوں گے، اِس بحث میں بالکل نہیں پڑنا چاہئے کہ فوج صحیح کررہی ہے یا غلط کررہی ہے بلکہ اپنی توجہ اِس نکتے پر مرکوز کرنی چاہئے کہ وہ یہ کیسے کررہی ہے۔۔۔۔۔

دو ہزار آٹھ میں کاشف عباسی نے اُس وقت کے امیریکہ میں سفیر حُسین حقانی کا ایک انٹرویو کیا تھا، انٹرویو کیا تھا کاشف عباسی کی عظیم الشان قسم کی چھترول تھی۔۔۔۔۔ اُس انٹرویو میں ایک نکتہ تھا جس پر کاشف عباسی بہت اصرار کررہا تھا کہ امیریکہ کو یہ اجازت کیسے دی جاسکتی ہے کہ وہ قبائلی علاقے پر ڈرون سے میزائل مارے۔۔۔۔۔ حُسین حقانی نے اِس نکتہ پر کاشف عباسی کی جو دُھلائی کی وہ دیکھنے والی تھی۔۔۔۔۔ حقانی کا کہنا ہے بات امیریکہ کو اجازت دینے کی نہیں ہے بلکہ یہ طاقت کی بات ہے۔۔۔۔۔ کوئی خودمختار مُلک امیریکہ کو یہ اجازت نہیں دے گا کہ وہ اُس خودمختار ملک پر میزائل مارے لیکن امیریکہ کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ میزائل مار سکتا ہے، اُس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ میزائل مار سکتا ہے، چونکہ کمزور ملک کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ امیریکہ کو پلٹ کر جواب دے سکے لہٰذا دوسرے چینلز سے معاملہ کو طے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔۔۔۔۔ تو یہاں یہ حُسین حقانی والا نکتہ اِس بحث میں یوں موزوں ہے کہ فوج کو کسی نے اجازت نہیں دی ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرے(البتہ کچھ سیاسی رہنما و جماعتیں اپنی سیاسی فائدوں کے خاطر جرنیلوں سے مل کر کاروائی ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتیں)، بلکہ یہ ہے کہ فوج کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی ہے، اور جیسا کہ پہلے کہاگیا کہ یہ صرف ٹینک ہتھیاروں کی بات نہیں ہے بلکہ اہمیت اُن نفسیاتی حُربوں اور سیاسی چالوں کی ہے جو ملٹری چلتی ہے۔۔۔۔۔

آپ نے لیول پلیئنگ فیلڈ کا کہا، سچ کہوں تو دو دن سے آپ کو مَیں بالکل یہی نکتہ لکھنے کا سوچ رہا تھا مگر بار بار بھول جاتا تھا۔۔۔۔۔ قرار سیاست میں لیول پلیئنگ فیلڈ ہوتی ہی نہیں ہے، راج نیتی کا کھیل(گیم آف تھرونز) کبھی بھی لیول پلیئنگ فیلڈ پر نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ تو اِس خیال کو بالکل دل سے نکال دینا چاہئے کہ کبھی لیول پلیئنگ فیلڈ ہو بھی سکتی ہے۔۔۔۔۔ مَیں آپ کو پیپلز پارٹی کی مثال دیتا ہوں، میرے خیال میں میرا اور آپ کا اتفاق ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت مذہب پسند ہے یا یوں کہہ لیں کہ سیاسی حوالوں سے دائیں بازو کی طرف مائل ہے، پیپلز پارٹی اپنی ابتداء سے مرکزی بائیں بازو کی جماعت رہی ہے(اب کا کچھ پتا نہیں)۔۔۔۔۔ لیکن کیا پیپلز پارٹی کو یہ شکوہ کرنا چاہئے کہ پاکستان میں اُن کیلئے لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے اور مسلم لیگ(ا سے ے) اور مذہبی جماعتوں کو انتخابی میچ شروع ہونے سے پہلے ایک فطری فائدہ ملا ہوا ہے، میرے خیال میں یہ کافی بے وقوفانہ شکوہ ہوگا۔۔۔۔۔۔ اور پیپلز پارٹی اپنے خلاف تمام تر اوڈز(انگریزی لفظ، مجھے اُردو متبادل یاد نہیں آرہا) کے باوجود چار دفعہ حکومت میں آئی تو میری نظر میں یہ پیپلز پارٹی کی چوں چوں کے مُربے(مسلم لیگ و مذہبی جماعتیں)کے مقابلے میں انتخابی حوالوں سے کہیں زیادہ بہتر کارکردگی تھی کیونکہ پیپلز پارٹی مخالف جماعتوں کو تو میچ شروع ہونے سے پہلے ہی پوائنٹس مل چکے تھے۔۔۔۔۔

اب ذرا سیاسی طاقت کے حوالے سے ایک اور ذیلی نکتہ۔۔۔۔۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ کسی بھی معاشرے میں فرد کے پاس یقیناً سیاسی حوالوں سے طاقت(کہا جاسکتا ہے کہ کم ہوتی ہے) ہوتی ہے یعنی اُس کا ووٹ۔۔۔۔۔ لیکن اِس طاقت کو صحیح مہمیز تب ہی مل پاتی ہے جب یہ اجتماعیت(اجتماعیت کا ایک رُخ: سیاسی جماعتیں) اختیار کرے۔۔۔۔۔ مثلاً ایک عام شخص فوج کے سامنے کھڑا کچھ نہ کر پائے گا لیکن اگر اُس شخص کے پیچھے لاکھوں لوگ ہو یقیناً اثر پڑتا ہے۔۔۔۔۔ لیکن اِس اجتماعیت کا تاریک پہلو بھی ہے جو بسا اوقات معاشروں میں کافی خطرناک نتائج لاتا ہے۔۔۔۔۔ اِس صفحہ پر الطاف حسین پر بہت بات ہورہی ہے۔۔۔۔۔ الطاف حسین کے پاس اتنی طاقت کہاں سے آئی ہے(یا تھی)۔۔۔۔۔ سیدھا سا جواب ہے کہ الطاف بھائی کے چاہنے والوں نے الطاف بھائی کو یہ طاقت فراہم کی ہے۔۔۔۔۔ کم و بیش ایسا ہی معاملہ دوسرے قومی درجہ کے سیاستدانوں کا ہے(مگر مجھے یہ کہنے دیجئے کہ الطاف بھائی کے ذہنی معذور مجاورین اپنی ترکیب میں کچھ زیادہ ہی خاص ہیں)۔۔۔۔۔ اگر یہ مجاورین الطاف حسین پر کسی قسم کا چیک اینڈ بیلینس رکھتے تو نوبت یہاں تک نہیں آتی مگر عقیدت مندی اور نسبتاً آزاد سوچ رکھنا دو متضاد باتیں ہیں۔۔۔۔۔ نتیجہ کیا ہوا، ایک فاشزم دوسرے فاشزم سے تبدیل ہوا ہے۔۔۔۔۔ ایم کیو ایم کیسے ایک فاشسٹ جماعت بنی۔۔۔۔۔ آپ کبھی اِس پر بھی غور کریں مگر یہ غور کرتے ہوئے فوج کے سیاسی کردار سے نفرت اور جمہوریت سے محبت کے جذبات کو بالکل الگ کردیں۔۔۔۔۔ حق پرست عقیدت مند اکثر یہ بے سُرا راگ اُلاپتے رہتے ہیں کہ الطاف حسین نے کبھی کوئی سیاسی عہدہ نہیں لیا اور الطاف بھائی کو کسی عہدے کی آرزو نہیں، کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم میں رابطہ کمیٹی بااختیار ہے۔۔۔۔۔ لیکن دوسری طرف حال یہ ہے کہ الطاف بھائی کے ایک حکم پر سیکنڈوں میں پوری کی پوری رابطہ کمیٹی فارغ ہوجاتی ہے، ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔ لہٰذا اِن ذہنی معذوروں کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا ہے۔۔۔۔۔

نصرت جاوید اکثر ایک فرنچ فلاسفر(غالباً البرٹ کمیو) کا ذکر کرتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ اگر معاشرے(یا ملک) کے کسی طبقے پر کافی ظلم ہوا ہو اور پھر اگر کچھ عرصہ بعد اُس طبقے کے ہاتھ میں طاقت آجائے تو وہ پچھلے والوں سے بھی زیادہ ظلم کرتا ہے۔۔۔۔۔ روانڈا کی خانہ جنگی ہو بوسنیا کی یا کراچی کا معاملہ ہو، آپ کو یہ نقطہ بہت حد تک عمل پذیر ہوتا نظر آئے گا بلکہ اور بھی بہت سے معاشروں میں ایسا ہوا ہے۔۔۔۔۔ اُردو اسپیکنگ کمیونٹی پڑھی لکھی تھی لیکن ایم کیو ایم کے ہاتھ میں طاقت آنے کے بعد اِس پڑھی لکھی اُردو کمیونٹی کی فخریہ پیشکشوں میں ٹی ٹی لنگڑے کانے پہاڑی بھی شامل تھے۔۔۔۔۔ دوسروں کی تو بات ہی چھوڑ دیجئے خود اپنی نسلوں کا کیا حال کیا ہے انہوں نے۔۔۔۔۔

جو نکتہ مَیں آپ کے سامنے اٹھانے کی کوشش کررہا ہوں وہ یہ کہ اگر سیاسی طاقت منقسم رہے اور بہت سے چیکس اینڈ بیلینس کے ساتھ رہے یعنی سیاسی عقیدت مندی سے پرہیز ہو تو معاشرتی امن و امان ہوگا ورنہ کراچی والا حال ہوگا، بطور ایک فرد ہمیں جو ووٹ کی صورت میں جو طاقت ملی ہوئی ہے،اُس کو کسی صورت کسی سیاسی و مذہبی رہنما پر ہمیشہ کیلئے دان نہیں کردینا چاہئے۔۔۔۔۔ لہٰذا جذباتی فالوونگ کے نتائج کافی خطرناک بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ آپ یہ مشورہ تو دے رہے ہیں کہ کسی سیاسی رہنما کے اگر جذباتی عقیدت مند(فالوونگ) ہوں تو فوج کو نتھ ڈالی جاسکتی ہے مگر میرے دوست ذرا مجھے یہ بتائیں کہ فوج کو نتھ ڈالنے کے بعد اُس سیاسی رہنما کو کون نتھ پہنائے گا۔۔۔۔۔ فاشزم صرف اپنا نام اور شکل تبدیل کرے گا لیکن فاشزم وہی رہے گا بلکہ مجھے تو لگتا ہے کہ مزید بڑھ جائے گا کہ سینے پر جمہوری تمغہ بھی آویزاں ہوگا۔۔۔۔۔ محاورے کے مطابق ابسولوٹ پاور پھر کرپٹ بھی ابسولوٹلی ہی کرتی ہے۔۔۔۔۔ خیال رہے کہ مَیں قطعاً یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ جذباتی فالوونگ کی کسی صورت اجازت نہیں ہونی چاہئے، جس کو جس رہنما کو پُوجنا ہو وہ پُوجے مگر مَیں صرف باہر بیٹھ کر اِس عقیدت مندی کے نقصانات بتا رہا ہوں۔۔۔۔۔ اپنی پچھلی پوسٹ میں آپ کو یہی کہنے کی کوشش کی تھی ہم جیسے لبرل حضرات اور مثالیت پسند افراد اکثر اوقات فوج کی نفرت میں اتنے اندھے ہوجاتے ہیں کہ یہ بھی نہیں دیکھ پاتے کہ جو کرنے کا کہہ رہے ہیں اُس کے مابعد از نتائج کیا ہوں گے۔۔۔۔۔

ایک اور نکتہ جس پر خاص کر اِس فورم کے دو عدد حق پرست عقیدت مند بہت اصرار کرتے ہیں کہ فوج کے خلاف لکھا جائے(لیکن الطاف بھائی اور ایم کیو ایم کے خلاف کچھ نہیں)۔۔۔۔۔ پتا نہیں یہ کون سا حق پرستانہ بَچپنا ہے جو اِس بالی (اُدھیڑ) عمریا میں بھی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔۔۔۔۔

سمجھ مجھے یہ نہیں آتا کہ یہاں فورم پر فوج کے خلاف کچھ پوسٹس کرنے یا ٹوئیٹرانہ جہاد فرمانے سے آخر ہوتا کیا ہے، کیا فوج اپنا راج نیتی کا کھیل کھیلنا بند کردے گی۔۔۔۔۔ مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ بطور ایک عام شخص، ہمیں ہمیشہ سیاستدانوں کو چیک اینڈ بیلنس میں رکھنا چاہئے کیونکہ صرف سیاستدان ہی ایسا طبقہ ہوتا ہے جس کو عوام کی ضرورت رہتی ہے(یا عوام جن پر اپنا اثر ڈال سکتے ہیں) ورنہ جرنیل اور یا جج، اِن کو عوامی ووٹوں کی ضرورت نہیں رہتی(البتہ عوامی حمایت یا مخالفت سے فیصلوں پر کچھ حد تک اثر ضرور ہوتا ہے)۔۔۔۔۔ اور اگر سیاستدانوں کو عوام اگر ذرا ٹائٹ کر کے رکھے تو یہ بھی اپنی حد میں رہیں گے اور ہوسکتا ہے بہتر سے بہتر ہونے کی کوشش کریں(خیال رہے کہ سیاستدان اپنے ذاتی مفاد میں ہی سیاست کرتا ہے)۔۔۔۔۔ ورنہ فیض صاحب کی بات بڑی ہی زبردست ہے کہ بھئی ملک جیسے اب تک چل رہا ہے ویسے ہی چلتا رہے گا۔۔۔۔۔

قرار صاحب آپ نے میری بات دہرائی کہ طاقت کی ایک اپنی نفسیات ہوتی ہے اور آپ نے کہا کہ ہر طاقتور اپنی طاقت کا تحفظ کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔

مَیں اپنی بات پر قائم ہوں اور آپ کی بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں۔۔۔۔۔

میرے گھر میں ایک محاورہ بولا جاتا ہے کہ اوکھلی میں سَر دیا ہے تو پھر موصلی سے ڈرنا نہیں چاہئے(اوکھلی و موصلی : پَیسٹل اینڈ مورٹار)۔۔۔۔۔ آپ کو محاورہ سمجھ آگیا ہوگا۔۔۔۔۔

اب دیکھیں۔۔۔۔۔ مَیں عموماً سیاست کو ایک کھیل کی طرح ہی دیکھتا ہوں، باہر سے بیٹھ کر، اور اِس کھیل کے کھلاڑیوں کے بارے میں اپنے ذاتی جذبات کو ہر ممکن طور پر الگ رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔۔۔

ایک چھوٹا بدمعاش(الطاف بھائی) مکمل عملیت پسندی کا شربت پی کر طاقت کا کھیل، کھیل کر پہلے بدمعاش بنتا ہے پھر اپنے سے بڑے بدمعاشوں سے لڑتا ہے لیکن بڑے بدمعاش زیادہ طاقتور ہیں لہٰذا خوب پھینٹی لگتی ہے۔۔۔۔۔ اب پھینٹی لگنے کے بعد الطاف بھائی کے عقیدت مند اچانک مثالیت پسندی کا چوغا پہن کر جمہوری اُصولوں کی دُہائی دینا شروع ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔ جس وقت الطاف بھائی اپنی بدمعاشی دکھا رہے ہوتے ہیں تو اُس وقت یہ دو نمبری آئیڈلسٹ حضرات بھنگ پی کر پڑے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ اور جہاں تک سیاستدانوں کی ملٹری سے جنگ کی بات ہے تو یا تو اپنے اندر اتنی طاقت پیدا کرلو کہ لڑ کر جیت سکو تاکہ ہار پہنائے جاسکیں لیکن لڑ کر ہارنے کی صورت میں رونا پیٹنا کہ یہ ناانصافی ہوگئی وہ ہوگئی، یہ کیا طرزِ عمل ہے۔۔۔۔۔ جیسے میاں صاحب فوج صاحب سے پھینٹی کھانے کے بعد اچانک ہی بغیر کسی اطلاع کے نظریاتی بن گئے، ہاہاہاہا۔۔۔۔۔ یا تو شروع سے اپنی آئیڈلسٹ پوزیشن رکھو تاکہ ہارنے کے بعد بھی آپ کی اخلاقی پوزیشن برتر رہے لیکن ساری دو نمبریاں بھی کرنی ہیں مگر پھر کُٹ لگنے کے بعد جمہوری اُصولوں کا کارڈ بھی کھیلنا ہے۔۔۔۔۔ مجھے تو یہ معاملہ بالکل ویسا نہیں لگتا جیسا یہاں کے عقیدت مند حضرات بیان کرتے ہیں۔۔۔۔۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر طاقت کا کھیل ہی کھیلنا ہے تو پھر یہ آئیڈلزم کیوں ہے۔۔۔۔۔

اور جیسا کہ آپ نے کہا کہ آپ چھوٹے بدمعاش یعنی الطاف بھائی کو اِس لئے سپورٹ کرتے ہیں کہ الطاف بھائی ووٹ لیکر آتے ہیں تو کچھ دہائیوں پہلے ہی ہٹلر بھی عوامی ووٹ لیکر آیا تھا یا پھر ابھی حالیہ ہی ترکی میں سلطان اردُوان بھی ووٹ لیکر آیا ہے۔۔۔۔۔

پسِ تحریر۔۔۔۔۔

کچھ نُکات پر اور بھی لکھنا تھا مگر اور بھی غم ہیں زمانے میں۔۔۔۔۔

  • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
×
arrow_upward DanishGardi