اَتھرا
Participant
Offline
Thread Starter
  • Advanced
#23
مسٹر اَتھرا۔۔۔۔۔ میرے خیال میں عام طور پر انسانوں کے نازک حصے صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ نظریاتی بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ یہ نظریاتی نازک حصے عموماً کسی شخص کا خاندان، مذہب، عشق، دوستیاں وغیرہ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ اگر بحث و مباحثہ میں لوگوں کے اِن نازک نظریاتی حصوں پر چوٹ ماری جائے تو لوگوں کو غصہ آتا ہے اور وہ ذرا جذباتی ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔ میں خود یہ چوٹ لگانے کا کام کافی خشوع و خضوع کے ساتھ مگر مکمل دیانتداری کے ساتھ کرتا آیا ہوں۔۔۔۔۔ صرف مذہب والے حصے تک۔۔۔۔۔ خاندان، ذات یا نسل پر کبھی نہیں کہ ذاتی مورل کوڈ کی کچھ مجبوریاں ہیں۔۔۔۔۔ اب جو بات یہاں دلچسپی رکھتی ہے یا مزید تحقیق کا تقاضہ کرتی ہے وہ لوگوں کا مذہب کے حوالے سے غیر منطقی رویہ رکھنا ہے۔۔۔۔۔ اگر کسی کے مذہب پر تنقید ہو تو وہ کیوں دفاعی حالت میں آکر غیر منطقی رویہ اختیار کرلیتا ہے۔۔۔۔۔ شاید جذباتی جوڑ(اٹیچمنٹ) وجہ ہو۔۔۔۔۔ اگر کسی پاکستانی دو نمبر لبرل کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ کسی بھی ایسے شخص کو لبرل، روشن خیال کا تمغہ عطا کردے گا جو اپنے مذہب پر تنقید(چاہے حقیقت پر مبنی ہی نہ کیوں نہ ہو) پر جذباتیت اختیار نہ کرے اور غصہ میں نہ آئے۔۔۔۔۔ مگر میری نظر میں یہ صرف آنکھ کا دھوکا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ یہ عین ممکن ہے کہ اُس شخص نے مذہب والی جذباتی اٹیچمنٹ پر مذہب کے بجائے کسی اور مثلاً کوئی نظریہ، کوئی تنظیم، کوئی تحریک، کوئی سیاسی جماعت وغیر وغیرہ کو رکھا ہوا ہو۔۔۔۔۔ اور پھر اگر اُس شخص کے اُس نظریاتی نازک حصہ پر چوٹ ماری جائے تو وہ بھی غیر منطقی رویہ اختیار کرلیتا ہے۔۔۔۔۔ تو ہمارے کرم فرما جنابِ گھوسٹ پروٹوکول کا بھی ایک جذباتی اٹیچمنٹ والا مذہب ہے۔۔۔۔۔ مگر وہ مذہب پاکستان کے لوگوں والا اکثریتی مذہب نہیں بلکہ چالیس پینتالیس سال پہلے پاکستان کے انتہائی جنوب میں ظہور پذیر ہونے والا مذہب ہے۔۔۔۔۔ اور جب کوئی اُس مذہب پر تنقید(جائز یا ناجائز) کرتا ہے تو گھوسٹ پروٹوکول صاحب کا غیر منطقی رویہ اختیار کرنا کوئی زیادہ حیرت انگیز بات نہیں ہے۔۔۔۔۔ میرے خیال میں یہ غیر منطقی رویہ ایک طرح سے جسمانی مدافعتی نظام کی طرح کام کرتا ہے کہ خطرہ دیکھتے ہی خود بخود کام کرنا شروع کردیتا ہے۔۔۔۔۔ شاید اِس ویب سائٹ کے کچھ(اکثر) لوگ گھوسٹ پروٹوکول صاحب کے اس خودکار مدافعتی نظام کی حرکیات سے واقف ہیں اور اِس معاملہ کو اس لئے زیادہ اہمیت نہیں دیتے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ گھوسٹ صاحب کی مجبوری ہے۔۔۔۔۔ ;-) :thinking: ;-)

اس پوسٹ پر مجھے دو تین کمنٹ کرنے ہیں

ایک: یہ ایک پھر پور پوسٹ ہے جس نے ایک پیچیدہ اور غیر مرئی نکتے کو بڑی سبک روی سے نمٹایا ہے

دو: عقیدتیں پالنا انسانی مجبوری/وظیفہ/وصف ہے لیکن دیکھنا یہ چاہیے  جس عقیدت کا وہ اسیر ہے یا ہونے جا رہا ہے وہ کس نہج کی ہے ذات اور آفاق کے درمیان انسان کہیں بھی گر سکتا ہے، جس قدر آفاقیت کی طرف ہو گا، اثر پذیری اتنی ہی زیادہ ہو گی

تیں: اس فورم کے ایک زائر کی حیثیت سے یہ مشاہدہ تھا کہ ایم کیو ایم اور الطاف کا ذکر آتے ہی جی پی صاحب ساری چوکڑی بھول کر کیسے کھِّلر جاتے تھے/ہیں، اس تھریڈ کی وجہ بننے والا نکتہ/موضوع اس بات کا ایک چھوٹا سا ثبوت ہے

×
arrow_upward DanishGardi