اَتھرا
Participant
Offline
Thread Starter
  • Advanced
#13
یہاں ایک بات اہم ہے کہ یہ پرافٹ گارنٹی کرنے کا کام شریف حکومت نے نہیں بلکہ زرداری حکومت نے شروع کیا تھا۔بس نواز شریف نے پھر اسی کو چینی انویسٹرز کو کو بھی آفر کر دیا۔ اس میں نہ صرف منافع گارنٹی کیا جاتا ہے بلکہ اگر فیول کی کمی یا گورنمنٹ کی کسی مجبوری سے وقتی طور پر ہمیں اس کارخانے سے بجلی نہیں چاہیے یا کم چاہیے تو پھر بھی ہمیں انہیں اس حساب سے ادائیگی کرنی پڑے گئ کہ جیسے کارخانہ پوری کیپیسٹی پر چل رہا ہو۔ مثال اس طرح ہے کہ چینی کمپنی ایک ہزار روپیہ اپنا اور ایک ہزار بنک سے ادھار لے کر دو ہزار کا کارخانہ لگاتی ہے۔ اب چونکہ ان کا اپنا پیسہ ایک ہزار ہے تو انہیں یہ گارنٹی ہے کہ تمام اخراجات ادا کرکے اگر انہیں کم از کم دو سو کا منافع نہیں ہوتا تو اسے حکومت ۲۰۰ تک پورا کرے گی۔ لیکن اگر منافع ۲۰۰ کی بجائے ۶۰۰ ہے تو پھر یہ ان کی چاندی۔ اب اس ۲۰۰ میں سے ۵۰ روپئے وہ بنک کو قسط کی ادائیگی میں دیں گے اور باقی ۱۵۰ اپنی جیب میں۔ مطلب یہ کہ انہیں گارنٹی ہے کہ انہیں کبھی نقصان نہیں ہوگا اور اپنے پیسے پر کم از کم ۲۰ فیصد کمائی۔ یہاں ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ جیسے جیسے سال گزریں گے تو بنک کا قرضہ کم ہوتا جائے گا جبکہ ان کا اپنا حصہ یعنی ایکوٹی بڑھتی جائے گی تو کیا ۲۰ فیصد منافع ہر سال کی ایکئوٹی پر گارنٹیڈہے۔ اوپر مثال میں پہلے سال ایکئوٹی ۱۰۰۰ ہے اور قرض بھی ۱۰۰۰ پانچ سال ایکئوٹی ۱۴۰۰ اور قرض رہ جائے گا ۶۰۰ تو شاید اس وقت پھر ہم ۱۴۰۰ کا بیس فیصد گارنٹی کر رہے ہونگے، یعنی سال بھر کا ۲۰۰ نہیں بلکہ ۲۸۰۔ بحرحال یہ چینیوں کے لئے پیسے چھاپنے کی مشینیں ہیں جہاں صرف منافع ہی منافع ہے۔ کیا اس کی بجائے یہ بہتر نہ تھا کہ ۴ یا ۵ فیصد پر ان سے قرضہ لے کر یہ کارخانہ لگا لیتے۔

بہت شکریہ اس ساری تفصیل کا، اگر آپ پہلے ہی ‘کاروباری سرگرمیوں یا ادارہ جاتی سرگرمیوں’ کی ترکیب استعمال کر  لیتے تو میں آپ کو اس زحمت میں نہیں ڈالتا

:)

جب سے اس منصوبے کے ذریعے ہماری نسلوں پر احسان کی بات چلی ہے میرا سی پیک پر سب سے بڑا اعتراض یہی رہا ہے کہ ہمارے رہنما نما رہزنوں نے ہمیں بہت سستا بیچا ہے، میں ذیل میں وضاحت کرتا ہوں اس کی

اپنی اساس میں بیلٹ اور روڈ انیشی ایٹو ایک مال و خام مال کی ترسیل (لوجسٹک اور ٹرانسپورٹ) پر مبنی ایک عظیم الشان سطح کی سرگرمی ہے اور اس کی تقریباً 80-90٪ سرمایہ کاری ان خطوں میں ہے جو پاکستان کے مغرب میں واقع ہیں یعنی برِاعظم افریقہ وغیرہ،

اور ان سرمایہ کاری کے ان تمام علاقوں سے خام مال پاکستان سے گذر کر چین جانا ہے اور تیارشدہ مال دوبارہ پاکستان سے ہی گذر کر دنیا بھر کی منڈیوں کو جانا ہے یعنی اس سارے منصوبے میں چین کا 70-80٪ انحصار پاکستان پر ہے جس کا چین کے پاس ہماری علاقائی تزویاتی حیثیت کی وجہ سے کوئی متبادل نہیں تھا/ہے (سمیت اس کے تمام پاکستان کو حاصل ہونے والے تمام فوائد و نقصانات کے)، اسلئے بجائے اس کے کہ چین کی اس انحصاری کو یہ سب چور لٹیرے ملک و قوم کی مفاد میں کام میں لا کر بہت اچھی شرائط منواتے، انہوں  نے اپنی سیاست چمکائی اور کمیشن کھرا کیا

  • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
×
arrow_upward DanishGardi