Shiraz
Participant
Offline
Thread Starter
  • Advanced
#9
کسانوں کی فوج
عمر فاروق دفاعی تجزیہ کار
28 جنوری 2017

اگر پاکستانی زمینی افواج کو کسانوں کی فوج کہا جائے تو یہ کوئی مبالغہ نہیں ہو گا۔ پاکستان کی فوج میں فوجی جوانوں کی اکثریت ان علاقوں سے تعلق رکھتی ہے جہاں چھوٹے پیمانے پر کاشت کاری کی جاتی ہے۔

ان علاقوں میں شمالی اور وسطی پنجاب کے علاقے شامل ہیں۔

اس وجہ سے فوج اور اس کے جوانوں کی زمین سے تعلق ہمیشہ مضبوط رہتا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ یہ جوان فوج میں بھرتی ہونے سے پہہلے اپنے خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ مل کر کاشت کاری کر رہے ہوتے ہیں۔

پھر فوج میں بھرتی ہونے کے بعد ان کو نظریاتی سطح پر یہ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے اسی زمین کا دفاع کرنا ہے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد زمین کا ایک ٹکڑا اپنی حکومت سے ملتا ہے جس پر وہ باقی زندگی کاشت کاری کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔

افسروں اور جوانوں کی زندگیاں ایک دوسرے سے خاصی مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن زمین سے رشتہ جوانوں اور افسران کے طرزِ زندگی میں مشترک ہے، گو افسران کی سطح پر زمین سے رشتے کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔

پاکستانی فوج کے افسران میں زیادہ تر کا تعلق شہری علاقوں سے ہے اور وہ مڈل کلاس خاندانوں سے آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کاشت کاری ان کا یا ان کے خاندان کے بیشتر افراد کا پیشہ نہیں ہوتا۔ افسران میں سے زیادہ تر کا واسطہ کاشت کاری سے اسی وقت پڑتا ہے جب حکومت انھیں ریٹائرمنٹ کے بعد زرعی زمین الاٹ کرتی ہے۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے یہ کیوں کہا کہ جوان کی طرح فوجی افسران کا زمین سے رشتہ مضبوط ہوتا ہے؟

اسی سوال کے جواب کے لیے آپ کو وسطی یا شمالی پنجاب کے تین چار بڑے شہروں کا دورہ کرنا پڑے گا، جہاں آپ کو ڈیفنس ہاؤزنگ سوسائٹیز کے نام سے رہائشی علاقے مل جائیں گے۔

فوجی افسران کا اس طریقے سے زمین سے رشتہ مضبوط رہتا ہے کہ ان کو پلاٹوں کی صورت میں زمین کا ایک ٹکڑا ضرور مل جاتا ہے۔

سابق فوجیوں کو زرعی زمین الاٹ کرنے کا سلسلہ برطانوی دور سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ جس کا بنیادی مقصد شمالی اور وسطی پنجاب کے رہنے والوں کو فوج میں ملازمت پر آمادہ کرنا تھا۔

پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران یہ حکمتِ عملی زور و شور سے جاری رہی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی حکومت پاکستان کی طرف سے سابق فوجیوں کو زمین الاٹ کی جاتی رہیں۔

مقصد یہ تھا کہ سابق فوجیوں کی طرز زندگی کو برقرار رکھا جا سکے۔ اس پالیسی کی وجہ سے بہت سے مسائل بھی پیدا ہوئے۔ اس کی ایک مثال اوکاڑہ کے ملٹری فارمز پر پیدا ہونے والا تنازع ہے جس پر مقامی لوگ 20 سال سے سابق فوجیوں کو کی جانے والی الاٹمنٹ پر احتجاج کر رہے ہیں۔

سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں فوجیوں کو کی جانے والی الاٹمنٹس پر اس طرح کے چھوٹے بڑے مسائل آج بھی موجود ہیں۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، زرعی زمین سے ہونے والی آمدنی سابق فوجی افسران کی طرز زندگی کو ایک خاص سطح پر برقرار رکھنے کے لیے ناکافی ثابت ہونے لگی۔

اس کے لیے ضروری تھا کہ فوجیوں کو شہری علاقوں میں زمین الاٹ کی جائے۔ یہ کام سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق نے پورے زور و شور سے کیا۔

ملک کے تمام بڑے شہروں میں ڈیفنس ہاؤزنگ سکیمیں بننا شروع ہو گئیں، جس میں فوجی افسران کو کم قیمت پر زمین ملنے لگی۔

جب 90 کی دہائی میں لاہور میں ڈیفنس ہاؤزنگ سکیم کا اجرا ہوا تو میری ملاقات ایک اعلیٰ فوجی افسر سے ہوئی، جس نے انتہائی سنجیدگی سے مجھے بتایا کہ لاہور میں یہ رہائشی سکیم اس لیے بنائی جا رہی ہے کہ وہ بھارت کی طرف سے حملے کی صورت میں دفاعی لائن کے طور پر کام کرے گی۔

لیکن معاملہ اس کے برعکس نکلا کیونکہ یہ رہائشی سکیمیں ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہروں میں پھیلتی چلی گئیں اور زمینوں کی خرید و فروخت میں فوج اور فوجیوں کا عمل دخل بڑھتا چلا گیا۔

جو سلسلہ کسانوں کی فوج سے شروع ہوا تھا، اب وہ شہری علاقوں میں رہائشی کالونیوں تک پہنچ چکا ہے۔

×
arrow_upward DanishGardi